پاکستانی قوم کے لیئے کرکٹ کا عالمی کپ جیت کر لانے
والے مایہ ناز کرکٹر اور کپتان عمران خان کے نام سے کون واقف نہیں نہ صرف
پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عمران خان کے ناقابل شکست عزم و حوصلے کی مثالیں
دی جاتی ہیں کہ عمران خان نے اپنی خداداد صلاحیتوں، خود اعتمادی اور مثالی
عزم و حوصلے کے بل بوتے پر پاکستان کے لیئے وہ بڑے بڑے کام کردکھائے ہیں
جنہیں کرنا عام طور پر حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن آفرین ہے عمران
خان پر جس نے قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے پاکستانیت کے
جذبے سے سرشار ہوکرنہ صرف پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈ کپ کا چیمپئن بنایا بلکہ
شوکت خانم میموریل جیسا اعلیٰ درجہ کا فلاحی اسپتال قائم کرکے ملک بھر کے
غریب عوام کو کینسر جیسے موضی مرض کے مہنگے ترین علاج و معالجے کی سہولت
فراہم کرکے وہ کام کیا جسے کئی بار اقتدار میں آنے والے حکمران نہ کرسکے
اسی طرح عمران خان نے نمل یونیورسٹی قائم کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے
شائقین طلبہ وطالبات کے لیئے بین الاقوامی معیار کا ایک ایسا تعلیمی ادارہ
قائم کیا جس سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈگری لے کر عملی میدان میں قدم
رکھنے والوں کو ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔
عمران خان کی جانب سے انجام دیئے جانے والے یہ وہ چند بڑے کارنامے میں
جنہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کا تصور کرتے ہوئے بھی لوگ گھبراتے ہیں لیکن
عمران خان نے اپنے چٹان جیسے عزم وحوصلے اور بلا کی خود اعتمادی کی وجہ سے
ہمیشہ ہر طرح کے چیلنجوں کا جواں مردی سے مقابلہ کیا ہے ۔کھیل اور فلاحی
سرگرمیوں کے بعد عمران خان نے سیاست کے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا تو
ابتدا میں انہیں اکثر سیاست دانوں کی جانب سے مذاق کا نشانہ بنایا گیا کہ
ایک کرکٹر کیا سیاست کرے گا ؟ لیکن عمران خان نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا
مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف جیسی انتہائی متحرک اور منظم سیاسی
جماعت قائم کرنے کے بعد پاکستانی سیاست میں نہایت تیزرفتاری سے جگہ بنا کر
تمام ناقدین کے منہ بند کردیے ۔
عمران خان نے جھوٹ ،کرپشن اورمفاد پرستی پر مبنی پاکستان کی روایتی سیاست
کو مسترد کرتے ہوئے اپنے لیئے سچائی اور حب الوطنی پر مبنی ایک مشکل سیاسی
راستے کا انتخاب کیا جس میں انہیں ابتدا میں شدید رکاوٹوں اور پریشانیوں کا
سامنا کرنا پڑا لیکن ہمت نہ ہارنے کی خداداد صلاحیت کے مالک عمران خان نے
اپنے عزم و حوصلے کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلسل سیاسی جدوجہد کے ذریعے آخر
کار انتخابی معرکے میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرکے ایک بار پھر اپنے
مخالفین اور ناقدین کو حیرت سے دوچارکردیا اور عمران خان کی پارٹی کو تانگہ
پارٹی قرار دینے والے سیاستدانوں کو منہ کی کھانی پڑی ،ایک کامیاب کرکٹر ،
کامیاب کپتان، کامیاب فلاحی شخصیت کے بعد عمران خان نے خود کو ایک کامیاب
سیاستدان بھی ثابت کردیا اور پھر 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات کے نتائج
نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ،بڑے بڑے نامور سیاست دان جو کہ کئی عشروں سے تما
م انتخابات میں کامیاب ہوتے چلے آرہے تھے ان انتخابات میں وہ عمران خان اور
ان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے نمائندوں کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار
ہوئے جن میں نواز لیگ ،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کے علاوہ
مذہبی سیاسی جماعتوں کے سربراہ سراج الحق ،مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی
جماعتوں کے نامزد کردہ بہت سے لوگوں کو الیکشن میں بدترین ناکامی کا منہ
دیکھنا پڑا۔
پاکستان میں عملی طور پر 1970 کے بعد سے دو جماعتی سیاسی نظام رائج ہے ،یہاں
کئی عشروں سے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز انتخابات جیت کر باری
باری اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں ،ان حالات میں کسی تیسری سیاسی جماعت کا
ملک گیر سطح پر کامیاب ہوکر اپنا وزیراعظم لانا بہ ظاہر ایک ناممکن کام نظر
آتا تھا لیکن عمران خان نے اپنی کرشماتی شخصیت اور عملی کوشش اور کارکردگی
دکھا کر ایک ناممکن کام کو ممکن کردکھایا اور2018 کے انتخابات میں اتنی
شاندار شاندارکامیابی حاصل کی کہ مخالفین ہکا بکا رہ گئے اور عمران خان کے
ہاتھوں کئی عشروں کے بعد اپنی اس شکست کو برداشت کرنے کی قوت کھوبیٹھے اور
ہزیانی انداز میں عمران خان کی زبردست عوامی تائید کے ساتھ انتخابی کامیابی
کو خلائی مخلوق، عدلیہ اور فوج کی کارستانی قرار دیتے ہوئے حسب عادت
دھاندلی دھاندلی کا شور مچانا شروع کردیا۔لیکن مخالفین کی تمام تر ریشہ
روانیوں اور سازشوں کے باوجود عمران خان، وزیراعظم کے منصب کی جانب تیزی سے
بڑھ رہے ہیں، اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے
پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں تمام اراکین نے عمران خان کو متفقہ طور پر
باقاعدہ وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامز د کردیا ہے اور اس موقع پر پاکستان
تحریک انصاف کے ترجمان نے یہ بات بھی واضح کی کہ عمران خان کو وزیراعظم کے
عہدے پر پہنچنے کے لیئے منتخب اراکین اسمبلی کی جس تعداد کی ضرورت تھی وہ
بھی پوری ہوچکی ہے یعنی دوسرے لفظوں میں اب اپوزیشن کتنا بھی زور لگالے
عمران خان کو وزیراعظم پاکستان بننے سے نہیں روک سکتی ۔عمران خان جیسا سچا
اور کھرا پاکستانی لیڈر جو امریکہ کو بھی کھری کھری سنا دیتا ہے اور جو اﷲ
کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا ،جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر وہ
بات کہتا ہے جو پاکستانی عوام کے دلوں کی آواز ہے وہ کرپشن کے خلاف علم
بغاوت بلند کرتے ہوئے سر پر کفن باندھ کر اس ملک اور قوم کو کرپٹ اور مفاد
پرست سیاستدانوں سے نجات دینے کا مشکل ترین مشن لے کر میدان سیاست میں کودا
تھا جس میں وہ اﷲ کی مدد اور پاکستانی عوام کی حمایت کی وجہ سے الحمدﷲ
کامیاب ہوچکا ہے۔
اعلیٰ قائدانہ صلاحیت ،عمدہ سیاسی بصیرت ،مثالی قابلیت ،حب الوطنی کے جذبہ
،سچائی ،خلوص،ہمت ،محنت ،جدوجہد اورپاکستانی عوام کو کرپٹ سیاستدانوں کے
چنگل سے نکال کر پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیئے کام کرنے کے عزائم لے
کر میدان سیاست میں کودنے والے عمران خان اپنے ناقابل شکست عزم وحوصلے کی
وجہ سے بجا طور پر اس بات کا حقدار ہے کہ اسے پاکستان کا وزیر اعظم بنایا
جائے ۔ اگر نیت صاف ہو اور حوصلہ نہ ہارا جائے تو کامیابی ضرور ملتی ہے ۔
انسان کا کام جدوجہد کرنا ہے جو عمران خان22 سال سے کر رہا ہے ،کامیابی یا
ناکامی دینا اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس سے اﷲ نے اسے آج نواز دیا ہے جس
کا واضح ثبوت یہ ہے کہ عمران خان نے 2018 کے انتخابی اکھاڑے میں موجود
تقریبا تمام سیاسی پہلوانوں کو اس بری طرح پچھاڑا ہے کہ ا ن کی چیخیں ابھی
تک سنائی دے رہی ہیں۔اب جبکہ عمران خان بہت جلد وزیر اعظم پاکستان کے عہدے
کا حلف اٹھانے والے ہیں ان کے سیاسی مخالفین نواز لیگ ، مذہبی سیاسی
جماعتوں کے سربراہ سراج الحق اورمولانا فضل الرحمٰن اور موجودہ الیکشن میں
بدترین ناکامی کا منہ دیکھنے والی دیگر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں دھاندلی کا
رونا رونے میں مصروف ہیں جن میں کراچی کی نمائندگی کرنے کا دعوی کرنے والی
دو مقبول سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم اور پی ایس پی بھی شامل ہیں لیکن ایم
کیو ایم کا رونا یہ ہے کہ دھاندلی کرکے ان کی کراچی سے سیٹیں کم کی گئیں
جبکہ پی ایس پی کا رونا یہ ہے کہ دھاندلی کرکے ان کو ایک بھی سیٹ نہیں
جیتنے دی گئی ،دھاندلی ہوئی یا نہیں ،کم ہوئی یا زیادہ ہوئی اس معاملے پر
ثبوتوں کے ساتھ کوئی بات کی جائے تو اسے اہمیت دی جاسکتی ہے لیکن صرف
الزمات لگا کر اپنی شکست کا ملبہ جیتنے والوں پر ڈالنے کی روایت اب ختم
ہوجانی چاہیے جسے حالیہ انتخابات میں دھاندلی کی شکایات ہیں وہ قانونی
راستہ اخیتار کرے الیکشن کمیشن یا عدالت میں تحریری درخواست جمع کروا کر
ثابت کرے کہ اس کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے اور اگر کوئی ایسا نہیں کرنا چاہتا
تو اسے چاہیے کے دھاندلی کا شور مچا کر شخصیات اور اداروں پر الزامات لگا
کر اپنی جگ ہنسانی نہ کروائے کہ اب اس طرح کے ڈراموں کو عوام کی جانب سے
کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور ایسا کرنے والے سیاسی موت مر جاتے ہیں اس وقت
کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی نے ملک بھر
سے سب سے زیادہ ووٹ اور سیٹیں حاصل کرکے پاکستانی سیاست کی کایا پلٹ کر رکھ
دی ہے ۔ ایم کیو ایم ہے جس کا ووٹ ہمیشہ برسر اقتدار جماعت کے ساتھ ہوتا ہے
اس بار بھی وہ انتخابات میں جیتنے والی جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد
کرچکی ہے جس کے بعد عمران خان کو مطلوبہ عددی برتری حاصل ہوگئی ہے اور اب
عمران خان آسانی سے وزیر اعظم کا حلف اٹھاسکتے ہیں۔
الیکڑونک میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق عمران خان اقتدار میں آنے کے
بعد سادگی کو ہر سطح پر پروان چڑھائیں گے اورعوام کوابتدائی دنوں میں ہی
زبردست ریلیف دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر حکومت بنانے کے بعدعمران خان نے
ایسا کیاتو کرپٹ حکمرانوں کے ہاتھو ں ستائی ہوئی عوام کے لیے یہ بہت بڑی
تبدیلی ثابت ہوگی ۔ ان اقدامات کے علاوہ بھی عمرن خان کو بہت کچھ ایسا کرنا
ہوگا جس سے پاکستانی عوام کو پتہ چلے کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے
واقعی تبدیلی آئی ہے کہ شروع کے سال دو سال میں عمران خان اور ان کی کابینہ
کے ارکان کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود اور پاکستان کی ترقی و استحکام
کے لیے کیے گئے کام پاکستانی سیاست میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے مستقبل
کا فیصلہ کریں گے گوکہ انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرنے کے بعد عمران
خان نے قوم سے اپنے پہلے ہی خطاب میں پاکستانیت،سادگی ،حب الوطنی اور وسیع
القلبی کا جو شاندار مظاہرہ کیا اسے دیکھ اور سن کر ان کے مخالفین بھی داد
دینے پر مجبور ہوگئے جبکہ پاکستانی عوام کی جانب سے بھی عمران خان کے اس
عوامی خطاب کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی کہ یہ خطاب عمران خان نے پاکستان
کا قومی لباس شلوار قمیض پہن کر اور پاکستان کی قومی زبان اردو میں کرکے
ساری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ جس کسی کو ہم سے تعلقات رکھنے ہیں اسے ہمارے
قومی لباس اور قومی زبان کی عزت کرنی ہوگی ۔یہ وہ مثبت ترین طرز عمل تھا جس
نے عمران خان کی مقبولیت میں مزید چار چاند لگائے اور اگر عمران خان اسی
طرح عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر چلتے رہے تو وہ نہ صرف آئندہ پانچ سال سے
آسانی سے حکومت کریں گے اور اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں بھی ان کو
ہرانا بہت مشکل کام ہوگا۔البتہ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان کو اپنی
پارٹی منشور کے مطابق چلنا ہوگا۔وزارتوں اور کلیدی سرکاری عہدوں پر من پسند
افراد بٹھانے کی بجائے اہل لوگوں کو بٹھانا ہوگا۔ سادگی اختیار کرنی ہوگی
اور ایسی با صلاحیت اور مختصر کابینہ بنانی ہوگی جو عہدوں کی شوقین نہ
ہوبلکہ عوام کو گوناگوں مسائل سے نکالنے اور پاکستانی قوم کا تشخص عالمی
سطح پر بڑھانے کا عزم رکھتی ہو۔ سفارش ‘ رشوت اور اقربا پروری کا ہر سطح پر
خاتمہ کرنا ہوگا۔انتخابات سے پہلے ہر سیاسی پارٹی اپنے منشور کا اعلان کرتی
ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ اقتدارحاصل کرنے کے بعد حکمران اپنے منشور کو
فراموش کربیٹھتے ہیں لیکن عمران خان کو اقتدار میں آنے کے بعد اپنی پارٹی
منشور کے مطابق حکومت کرنی ہوگی تب ہی عوام کو احساس ہوگا کہ کوئی تبدیلی
آئی ہے لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ
ہے کہ اپنے منشور پر عمل نہ کرنے والوں کا وہ ہی انجام ہوتاہے جو پیپلز
پارٹی اور نواز لیگ کا ہوچکا ہے۔۔
اگر عمران خان وزیراعظم بنتے ہیں تو وہ کسی بھی ملک میں وزارت عظمی کا عہدہ
سنبھالنے والے پہلے کرکٹر بن جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق10اگست تک قومی
اسمبلی میں نومنتخب ارکان حلف اٹھا لیں گے جس کے بعد وزیر اعظم کے چناؤ کا
مرحلہ آئے گا لیکن عمران خان نے تو وزیراعظم بننے سے پہلے ہی کمال
کردکھایاہے ۔ 26جولائی2018ء کو الیکشن جیتنے کے بعد کیے جانے والے ان کے
منفرد خطاب کے بعد تو ان کے مخالفین بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے
ہیں۔شاندار انتخابی کامیابی نے عمران خان کو ایشیا کا سب سے بڑا لیڈر بننے
کا موقع فراہم کیاہے ، جیسی دیوانہ وار محبت عمران خان سے پاکستانی عوام
کرتی ہے، اس سے قبل ایسی محبت،عزت اور مقبولیت صرف بانی پاکستان قائداعظم
محمدعلی جناح اور پاکستانی ایٹم بم کے بانی قائد عوام شہیدذوالفقار علی
بھٹو صاحب کے حصے میں ہی آسکی تھی ۔
کئی عشروں سے پاکستان کی سیاست پر راج کرنے والے بڑے بڑے سیاسی برج الیکشن
2018 میں لڑکھڑا کر زمین بوس ہوگئے۔عمران خان نے پانچ حلقوں سے الیکشن لڑا
اور پانچوں جگہ سے فتح ان کا مقدر بنی۔ قوم نے عمران خا ن پر مکمل اعتماد
کا اظہار کیا،قدرت نے بھی ان کا ساتھ دیا اور وہ وزیراعظم پاکستان کی کرسی
تک جاپہنچے۔تحریک انصاف کی شاندار کامیابی اﷲ تعالی کی طرف سے عمران خان کے
لئے ایک بہترین موقع ہے کہ اگر وہ ملک و قوم کے لیے کچھ اچھا اور نیا کرنا
چاہتے ہیں تو کر دکھائیں ورنہ سیاسی کامیابی کے بعد حکمرانی حاصل کرنے کے
بعد جو لیڈر اپنے ملک اور قوم کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے ان کا نام بھی باقی
نہیں رہتا اور جو لیڈر ملک وقوم کی خاطر بڑے فیصلے کرتے ہیں وہ تاریخ کے
صفحات اور لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں ،ذلت اور عزت کی
مثالوں سے ہماری ملکی سیاست کی تاریخ بھر ی پڑی ہے لہذا عمران خان کو اپنی
کہی گئی باتوں کے مطابق انداز سیاست اور طرز حکومت کو اپنا نا ہوگا تب ہی
وہ ملک وقوم کے حقیقی ہیروبن کر اس طرح کی تبدیلی لاسکیں گے جس کی امید میں
پاکستانی عوام نے انہیں اپنے کاندھوں پر بٹھا کر مسند اقتدار تک پہنچایا
ہے۔
عمران خان کی شاندار انتخابی کامیابی کے بعد اس ملک کے عوام کی اکثریت کرپٹ
حکمرانوں سے نجات پانے پر خوش نظر آتی ہے ، جو موقع اس وقت عمران خان کو
ملاہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ یہ پانچ سال تو گزرجائیں
گے لیکن اگر عوام کو تبدیلی نظر نہ آئی تو عوام کی امیدوں کا خون ہوگا اس
لیے وہ لوگ جو اس نئے پاکستان کی تکمیل کے لیے اپنے اپنے انتخابی حلقوں سے
جیتے ہیں ان سب کو اپنی عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پورے
خلوص کے ساتھ کام کرنا ہوگا ، پاکستان کی سیاست پر کئی عشروں سے قابض کرپٹ
سیاست دان جو ملک وقوم کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر دنیا بھر میں
جائیدائیں بناکر عیش وعشرت کی زندگیاں گزار رہے ہیں،ان سے لوٹی ہوئی دولت
واپس لانے کی بھی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی ۔ عمران خان کو گزشتہ مفاد پرست
حکمرانوں نے الجھنوں اور قرضوں میں ڈوبا ہواپاکستان دیاہے ۔ہمارا ملک کرپٹ
اور لوٹ مار کے شوقین حکمرانوں کی وجہ سے دنیا کی دیگر قوموں سے کافی پیچھے
رہ گیا ہے ،اب اگر اﷲ تعالی نے عمران خان کو ان کی 22سالہ جدوجہد کاانعام
دیاہے اور وہ اس ملک کی عوام کے ووٹوں اوردعاؤں کی وجہ سے وزیراعظم بننے
والے ہیں ان پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ملک کی تقدیر بدل
کر اسے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل کروانے کی بھرپور کوششیں کریں
قوم جانتی ہے کہ عمران خان کے پاس حوصلے اور ولولے سے بھرپور ایک زبردست
ٹیم موجودہے جو رشوت ستانی اور لوٹ مار سے دور رہ کر پاکستان کو بدل سکتی
ہے،عمران خان ہی اس ملک کو بیرونی طاقتوں س کے چنگل سے نجات دلا کر ایک
پروقار ملک بنا سکتا ہے، قوم کو توقع ہے کہ عمران خان جو کہ ایک بہادر اور
بے باک لیڈر ہے جس نے تما م تر مخالفتوں اور سازشوں کے باوجود پاکستانی
سیاست اور حکومت کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچ کر دکھا یا ہے اب وہ اقتدار
میں آنے کے بعد اپنے کیئے گئے وعدوں کو پورا کرکے پاکستانی عوام کی امنگوں
پرپور ا اترے گا ، قوم نے یہ اعتبار یہ محبت عمران خان کی ذات کو دی
ہے۔انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اب ان کی ذمہ داریاں بہت
بڑھ گئی ہیں ، انہیں اب ایک ذمہ دار اور مہربان قائد بننا ہوگااور ملکی
مفاد کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہوئے اپنا ہر قدم اٹھانا ہوگا۔عمران خان کا
ماضی اور حال اس بات کا گواہ ہے کہ انہوں نے جو کہا وہ کرکے دکھایا ، اﷲ
کرے کہ اب وہ نئے پاکستان کا خواب بھی شرمندہ تعبیر کر کے دکھا سکیں۔
پاکستانی قوم کو بڑے طویل عرصہ کے بعد عمران خان جیسا سچا اور کھرا
پاکستانی محب وطن لیڈر ملا ہے جو کرپشن کرنے کے لیے نہیں بلکہ عوام کے
مسائل کو حل کرنے کے لیے اقتدار میں آیا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی عوام
نے عمران خان سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرلی ہیں جنیں پورا کرنا اب عمران
خان کا مشن ہونا چاہیے۔ پاکستانی قوم کو وہ عمران خان چاہئے جیسا وہ ہمیں
اپنی تقریروں میں دکھائی دیتا ہے جو کچھ عمران خان نے انتخابات سے قبل کہا
،جو نعرے عوام کو دیے ،جو امیدیں عوام کو دیں ،جو وعدے عوام سے کیے، انہیں
پورا کرنا اب عمران خان کی اخلاقی ،آئینی اور منصبی ذمہ داری ہے ،اﷲ تعالیٰ
عمران خان کو صحت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے تاکہ وہ پاکستان اور
پاکستانی عوام کی ترقی و استحکام اور فلاح وبہبود کے لیے وہ سب کچھ کرسکے
جو وہ کرنا چاہتا ہے اور جس کی توقع پر عوام نے اسے ووٹ دے کر وزیراعظم
پاکستان کی کرسی تک پہنچایا ہے ،ساتھ ہی راقم کی دعاہے کہ اﷲ تعالیٰ عمران
خان کو سازشیں کرنے والے کرپٹ اور مفاد پرست سیاست دانوں کی ریشہ روانیوں
سے محفوظ رکھتے ہوئے ملک اور قوم کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے( آمین) |