حالیہ دنوں میں اپوزیشن جماعتوں کا تحریک انصاف کی
کامیابی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا حشر تو سب نے دیکھ ہی لیا ہوگا،اس اتحاد
میں ملکی اداروں کو جس انداز میں سخت الفاظوں میں للکارا گیا اور کڑی تنقید
کی گئی اسے بھی قوم نے سن لیا ہے ، اپوزیشن کے اس ناکام اتحاد کی وجوہات یہ
بھی تھی کہ اس میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو سمیت کوئی بھی اہم لیڈر کہیں
دکھائی نہ دیاکیونکہ ان سب لوگوں کو ملک پر حکمرانی کرنے اور ایوانوں میں
بیٹھ کر عیاشیاں کرنے کی اس قدر بری لت لگ چکی ہے کہ یہ سڑکوں پر نکل کر
عوام کے درمیان نکلنے کاسو چ بھی نہیں سکتے،آج شہباز شریف اور آصف زرداری
کو تحریک انصاف کے جیتنے پر غصہ تو ہے مگر وہ خود بھی ایک دوسرے کے خلاف
غلیظ زبان استعمال کیے بغیر باز نہیں آرہے ہیں،قانون نافذ کرنے والوں کی
جانب سے گرفتاری کے لیے پنجاب میں شہباز شریف کے خلاف تو سندھ میں زرداری
کے خلاف خطرے کی گھنٹی بجی ہوئی ہے یعنی یوں کہاجائے کہ یہ دونوں تحر یک
انصاف کے خلاف نہیں بلکہ اپنے بچاؤ کے لیے احتجاج کو دباؤ کی صورت میں
استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر دونوں ہی صورتوں میں ناکامیاں ان لوگوں کا مقدر
بنی ہوئی ہے ، اقتدار سے طویل عرصے چمٹے رہنے کا آج یہ نتیجہ ہے کہ گزشتہ
کئی دہائیوں سے حکومتیں بنانے والے جب عمران خان کے ہاتھوں بری طرح شکست سے
دوچار ہوکر ایک جگہ جمع ہوگئے تو ان کی حالت دیکھنے کے قابل تھی کل تک تو
جو شہبازشریف آصف زردارری کو لاہور میں لوہاری گیٹ کے سامنے سڑکوں پر
گھسیٹنے کی باتیں کیا کرتاتھاوہ آدمی آج خود پیپلزپارٹی والوں سے تحریک
انصاف کے خلاف ملکر احتجاج کرنے کی بھیک مانگ رہاتھا اور خود اس احتجاج میں
ان ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث نہ جاسکا جو نوازشریف کے استقبال کے لیے
بھی اسی انداز میں چھائی ہوئی تھی ،ان کے احتجاج میں سینکڑوں جماعتیں ایک
ساتھ ملکر بھی دودرجن کارکنوں کو سڑکوں پر نہ نکال سکی اور اپوزیشن کا
اتحاد جو کچھ اس طرح سے تھاکہ "کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ،بھان متی نے
کنبہ جوڑا" کے مترادف تھا اور بھان متی کا یہ کنبہ چند ہی لمحوں میں بکھر
گیا اور یہ اتحاد بننے سے پہلے ہی چکنا چور ہوگیا،ملکی تاریخ میں کسی حکومت
کے ساتھ اپوزیشن کا ایک بے مثال اکیلے ہی کردار تو تحریک انصاف نے
اداکیااور حکومت کے ایک سال کے اندر ہی انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات نہ
کرنے کے باعث وفاقی دارلحکومت میں ایسا دھرنا دیا کہ جس کی مثال تاریخ میں
کہیں نہیں ملتی آج جب تحریک انصاف خود اپنی حکومت بنارہی ہے ،اپوزیشن
کاکردار کیا ہوتا ہے اس کے لیے تحر یک انصاف اور مسلم لیگ کی حکومت کے خلاف
چند ایک سیاسی محاز آزرائیوں کازکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں،نواز لیگ کی
حکومت کی ناکامیوں کی داستا ن جو دھرنے سے شروع ہوکر ڈان لیکس کے بعد
نوازشریف کی سزا پر جاکر ختم ہوئی، پانامہ لیکس اور ڈان لیکس میں اداروں سے
غداری جیسے الزامات میں گھری حکومت کو جو ٹف ٹائم تحریک انصاف نے دیا اس
میں پی ٹی آئی والوں نے عوام کی اس انداز میں نمائندگی کی حکومت نے مجبوراً
بہت سے ایسے اقدامات بھی اٹھائے کہ جو عوام کے لیے تو بہت ضروری تھے ہی مگر
خود نوازلیگ کی حکومت ان کاموں کو کرنے کے لیے قطعی تیار نہ تھی
،اکتوبر2016میں نوازلیگ نے ڈان لیکس میں عسکری قیادت کے ساتھ مزید کشیدگی
کو ہوا دی جس سے ظاہر ہوچکاتھا کہ نوازلیگ کی حکومت صرف عوام دشمن پالیسیوں
کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ یہ افواج پاکستان سے بھی بغض رکھنے والی جماعت ہے
جس کاخمیازہ بھگتنے کے لیے انہوں نے وزیر اطلاعات پرویز رشید اور مشیر
خارجہ طارق فاطمی کو جبراً مستعفی کرکے اداکرنا پڑا حالانکہ قوم جان چکی
تھی کہ اس ڈان لیکس کا اصل مجرم کون ہے ،خیر اس دوران حکومت نے ایک اور
الٹا کام کیا یعنی الیکشن اصلاحات متعارف کروانے کے چکر میں انہوں نے ایسی
آئینی ترمیم کی منظوری دیدی جس سے امیداروں کے حلف نامے کی عبارت ہی تبدیل
ہوگئی حکومت نے اس بل کے ساتھ ختم نبوت کاقانون بھی ختم کرنے کی کوشش کی
جبکہ پوری قوم میں ہی اس بات پر ہنگامہ کھڑا ہوا گیا اور عوام کی ایک بھاری
اکثر یت نے سڑکوں پر نکل کر اس بل کو مسترد کردیا جس کے باعث حکومت نے اس
دفتری غلطی قرارد دیتے ہوئے جان چھڑانے کی کوشش کی مگر نوازلیگ کی ایک اور
سازش ان ہی کے گلے پڑچکی تھی ،یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول
پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طو رپردہشت گردی
کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے نام سے آپریشن کی منظوری دیدی مگر یہ
بات بھی سب ہی جانتے تھے کہ نوازلیگ شاید اس آپریشن سے بھی خوش نہ تھی مگر
دہشت گردی کے مسلسل واقعات اور حکومتی ناکامیوں نے حکومت کو حواس باختہ بھی
کررکھا تھا ایک ہی سال میں معلوم ہوچکاتھا کہ ملک کو چلانا شاید مسلم لیگ
نوازکے بس سے باہر ہوچکاہے اس طرح کی مسلسل غلطیوں اور ملک بھر میں توانائی
بحران کی وجہ سے عوام جلد ہی نوازشریف کی حکومت سے باغی ہوچکی تھی لوگ
عمران خان کے جلسوں میں ٹولیوں کی صورت میں آکر ان کی باتیں سننے لگے
پانامہ لیکس میں انکشافات کی بھرمار کے باوجود مسلم لیگ کے بڑے بڑے رہنماؤں
نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کو اندھیرے میں رکھا اور تحریک انصاف کو
ایک کمزور اپوزیشن کا خطاب دیا کہ وہ اس ایشو پر شاید کچھ بھی نہ کرسکیں گے
مگر دھن کے پکے عمران خان کو یہ لوگ شاید اچھی طرح سے نہیں جانتے تھے وہ
بھول چکے تھے کہ ان کا واسطہ کس لیڈر سے پڑاہے خیر اپریل2016میں نواشریف
اوراس کے خاندان کے خلاف آف شورکمپنیوں کا زکر عام ہوچکاتھا عمران خان کے
مسلسل بیانات سے گھبرا کر نوازشریف نے عدالتی کمیشن بناکر تحقیقات کا اعلان
تو کردیا مگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹرم آف ریفرنسز پر نہ بن پائی جس
کے باعث اگست 2016میں تحر یک انصاف نے نوازشریف کواناہل قراردینے کے خلاف
سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن لگادی گئی جہاں سے شریف خاندان کا زوال شروع ہونے
کی ابتدا ہوئی ،تحریک انصاف نے نوازشریف کو مستعفیٰ کروانے کے لیے اپنا
دباؤ جاری رکھا اور اس کے لیے اسلام آباد میں ایک بار پھر سے دھرنا دینے کی
کال کی جس کے لیے ملک بھر سے لوگوں نے دھرنے کے لیے لبیک کہہ دیا مگر اس
بار سپریم کورٹ کے حکم پر عمران خان نے دھرنا طویل نہ کیا اور سپریم کورٹ
کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یوم تشکر منانے کا اعلان کردیا حکومت نے
نوازشریف کے یوم تشکر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا مگر عمران خان کی دبی
دبی مسکراہٹ میں ایک فاتحہ اندازشامل تھا جسے صرف وہ ہی لوگ جان سکتے تھے
جن کے حوصلے چٹانوں کی طرح سخت ہوسکتے ہیں ،خیر ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی
نے اپنا کام شروع کیا جس کی روزشنی میں شر یف خاندان کی پیشیاں تاریخ دانوں
نے دونوں ہاتھوں سے رقم کی اور ایک اکلوتی تحریک انصاف نے مثالی اپوزیشن کا
کردار اداکردیا کیونکہ 28جولائی کو عدالت نے نوازشریف کو نااہل قرارکردیا
تھاان تمام باتوں کو بہت مختصر انداز میں لکھنے کی کوشش کی گئی ہے مگر ان
دنوں کی تپش کو گزرے کوئی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں عوام اچھی طرح جانتی ہے
کہ میں نے اس تحریر میں جو لکھا اس میں کن کن معاملات میں عمران خان اپنی
جماعت کے ساتھ اکیلا ہی سیاسی فرعونوں سے ٹکراتارہا اور آج بھی یہ سیاسی
فرعون اکٹھے ہی ہیں بس فرق اتنا ہے کہ کل یہ حکومت میں اکٹھے تھے اور آج
اپوزیشن میں بیٹھ کر مکھیاں ماررہے ہیں مگر ان کو یہ ضرور معلوم ہوچکاہے کہ
اپوزیشن کا کردار ادا کرنا اس قدر آسان کام نہیں ہوتا۔ |