پاکستان تحریک انصاف کے قائد اور سابقہ پاکستانی
کرکٹ کپتان عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے پہلے ایک نئے پاکستان کا جو
خواب عوام کو دکھایا تھا اب دیکھنا ہیکہ یہ حقیقت میں سچ ثابت کردکھاتے ہیں
یا پھر سابقہ حکمرانوں کی طرح یہ خواب ہی رہ جاتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف
،قومی اسمبلی کے عام انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری لیکن اسے
حکومت سازی کے لئے سادھا اکثریت حاصل نہ ہوسکی تھی جس کے بعد پاکستان تحریک
انصاف نے قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، گرینڈ ڈیموکریٹک
الائنس، بلوچستان عوامی پارٹی اور مسلم لیگ ق کے ساتھ اتحاد قائم کیا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے عمران خان
کی بطور پارلیمانی رہنما تقرری کی تحریک پیش کی ، جس کے بعد اجلاس میں ملک
بھر سے آئے ہوئے تحریک انصاف کے نو منتخب اراکین قومی اسمبلی نے کھڑے ہوکر
اس تحریک کی حمایت کی ۔ اس موقع پر محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان ہمارے
وزیراعظم کے امیدوار ہیں۔ انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
اجلاس میں عمران خان نے آئندہ آنے والے دنوں کے چیالنجوں کے بارے میں پارٹی
کو اعتماد میں لیا اور اراکین سے کہا کہ آپ سے قوم کی توقع کیا ہیں۔ عمران
خان کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ہمیں پارلیمان کو اہمیت دینی
ہے اور اس کی عزت میں اضافہ کرنا ہے۔ میں خود پارلیمان میں پیش ہونگا اور
جو اس دوران جس قسم کے سوالات کئے جائیں گے اس کا جواب دونگا۔ عمران خان کے
وزیر اعظم پاکستان بننے کے بعد ہندوپاک کے درمیان بہتر تعلقات کی توقع کی
جارہی ہے اگر واقعی عمران خان اور نریندر مودی کشمیر کے مسئلہ کو مذاکرات
کے ذریعہ حل کرنا چاہتے ہیں تو یہ دونوں ممالک کے لئے خوش آئند اقدام ہوگا
اور دونوں ممالک کے درمیان پھر سے ایک مرتبہ خوشگوار تعلقات سے معیشت
مستحکم ہوسکتی ہے اور دہشت گردانہ سرگرمیوں پر قابو پانے کیلئے مؤثر اقدمات
کئے جاسکتے ہیں۔ عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بننے سے قبل ہی ایران اور
امریکہ کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اور امریکی صدر نے
ایران کے ساتھ کسی بھی ملک کے بہتر تعلقات اور تجارت کرنے کے خلاف سخت
انتباہ دیا ہے ۔ جبکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسکے تعلقات سعودی عرب اور
ایران دونوں سے ہی بہتر ہے جبکہ سابق نواز شریف کی حکومت میں امریکہ اور
پاکستان کے درمیان تعلقات دہشت گردوں کو پناہ دینے کے سلسلہ انتہائی خراب
ہوچکے تھے اس سلسلہ میں امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی امداد بھی معطل
کردی تھی اب دیکھنا ہے کہ عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستان اور
امریکہ کے درمیان کس قسم کے تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ترکی کے ساتھ بھی پاکستان
کے تعلقات بہتر رہے ہیں ۔ اس وقت امریکہ کے تعلقات ترکی سے بھی کشیدہ ہے ان
حالات میں نئی پاکستانی حکومت اندرونی و بیرونی سطح پر کئی مسائل کا شکار
ہے جسے عمران خان کس نہج پر لے جاتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۰۰۰
کینیڈا کے خلاف سعودی عرب کی کارروائی
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورِ اقتدار میں مملکتِ سعودی عرب میں کئی ایک
تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ خواتین کو گاڑی چلانے کی پابندی ختم کردی
گئیں اور ہزارو ں کی تعداد میں خواتین کو لائسنس جاری کئے گئے اس کے علاوہ
سعودی عرب میں فٹبال میچ دیکھنے کیلئے خواتین کو اسٹڈیم جانے کی اجازت دی
گئی جبکہ فلم بینی کیلئے ٹھیٹرس کی اجازت بھی دیدی گئی ۔ سعودی عرب کے ملکی
قوانین آج بھی سخت اہم ہیں ، ملک میں کسی قسم کی آزادی نہیں ہے ، سعودی
عوام اپنے حکمراں کے خلاف کچھ کہہ نہیں سکتے اور نہ انہیں کسی قسم کے
احتجاج کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے سخت قوانین کے خلاف بین
الاقومی سطح کی حقوق انسانی کی تنظیمیں خصوصاً خواتین کی تنظیمیں سوشل
میڈیا کے ذریعہ آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ یوں تو کوئی بھی ملک اس کے اندرونی
معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرتا لیکن عالمِ اسلام کے ان ممالک میں
جہاں آج شدت پسند یا دہشت گرد تنظیموں کا وجود ہے امریکہ اور دیگر مغربی و
یوروپی ممالک کی اندرونی مداخلت کا ہی نتیجہ ہے کیونکہ یہ ممالک متحدہ طور
پر عراق، افغانستان، پاکستان یمن اور شام وغیرہ کے اندرونی معاملات میں
مداخلت اور مختلف الزامات عائد کرکے حملے کئے جس میں لاکھوں فرزندانِ توحید
ہلاک و زخمی ہوئے اور کئی لاکھ بے گھر ہوکر آج بھی بے یارومددگار ، بے
سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سعودی عرب میں شرعی قوانین نافذ
ہیں اور خواتین کی عزت و آبرو اور انکی بہتری کے لئے کئی قسم کی پابندیاں
عائد ہیں جس کی وجہ سے حقوق انسانی کی تنظیمیں مختلف موقعوں پر سوشل میڈیا
کے ذریعہ شاہی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ گذشتہ دنوں سعودی عرب نے
’’اندرونی معاملات میں مداخلت‘‘ کرنے پر کینیڈا سے نہ صرف اپنے سفیر کو
واپس بلالیا بلکہ کینیڈین سفیر کو بھی 24گھنٹے میں سعودی عرب چھوڑنے کا حکم
دے دیااورکینیڈا سے تمام تجارت اور نئی سرمایہ کاری بھی معطل کردی ہے۔دونوں
ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب سعودی ایئر لائن نے
ٹورونٹو کیلئے اپنی تمام پروازیں معطل کردی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سعودی حکام
نے اعلان کیا ہے کہ کینیڈا میں تمام اسکالر شپ ، تربیتی اور فیلو شپ
پروگرام معطل کئے جارہے ہیں اور یہ پروگرام کسی اور ملک میں منتقل کئے
جائیں گے۔وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا ہیکہ سعودی عرب نے کینیڈا میں زیر
تعلیم طلبہ کو دوسرے ممالک منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سعودی وزارت خارجہ
نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’’سعودی عرب نے اپنی تاریخ میں کبھی بھی داخلی
معاملات میں کسی ملک کی مداخلت یا احکامات کو تسلیم نہیں کیا ہے‘‘۔سعودی
وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب دیگر ممالک کے اندرونی
معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا
بھرپور جواب دیا جائے گا۔سعودی وزارت خارجہ نے کینیڈا کی خارجہ امور کی
وزارت کی جانب سے جاری کردہ بیان کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں ریاض پر زور
دیا گیا تھا کہ وہ خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو فوری رہا
کرے۔کینیڈا کے وزیر خارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے سعودی طلبہ کو کینیڈا میں
تعلیم سے روکنے کے عمل کو شرمناک قرار دیا۔کینیڈین وزیر خارجہ کا کہنا ہے
کہ تنازع اتنی تیزی سے کیوں بڑھا، سعودی عرب ہی جواب دے سکتا ہے۔ سعودی عرب
کے اس فیصلہ کے بعد اب دیکھنا ہیکہ دیگر عالمی طاقتیں اور خود کینیڈا سعودی
عرب کے خلاف کس طرح کے اقدامات کرتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے
گا۔واضح رہے کہ شاہی حکومت نے سعودی عرب پر تنقید کے الزام میں بلاگر رائف
بداوی کو 2012 سے قید کر رکھا ہے، گزشتہ ہفتے ان کی بہن سعودی نژاد امریکی
خاتون ثمر بداوی کو بھی گرفتار کرلیا گیا، جو نہ صرف حکومت پر تنقید بلکہ
خواتین کے حقوق کیلئے بھی سرگرم ہیں وہ سعودی عرب میں رائج مردوں کی
سرپرستی کے نظام کو ختم کرنے کیلئے آواز اٹھاتی رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں
خواتین کے حقوق کے حوالے سے سرگرم درجنوں کارکنوں کو قومی سلامتی کو نقصان
پہنچانے اور دشمن ممالک کے ساتھ تعاون کے الزام پر حراست میں لیا گیا، جن
میں سے بیشتر کو رہا کیا جاچکا ہے۔واضح رہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے
بعد بااثر ترین سمجھے جانے والے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک
میں کئی اصلاحات نافذ کی ہیں، جن میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے
سمیت دیگر ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے جیسے اہم اقدامات ہیں۔تاہم 32 سال
شہزادے کی جانب سے مرتب کی گئی خارجہ پالیسی کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا
جاتا رہاہے، جن میں قطر سے سفارتی تعلقات کی معطلی سمیت یمن میں ایرانی
حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی بھی شامل ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتا
ہے کہ جب سعودی عرب اپنے اندرونی معاملات میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں
کرتا تو اسے کیا حق حاصل ہیکہ وہ یمن اور شام میں مداخلت کرے۔ ہوسکتا ہیکہ
سعودی عرب کے خلاف یمن اور شام میں کی جانے والی کارروائیوں کے خلاف کینیڈا
اور دیگر عالمی طاقتیں آواز اٹھائے ۔
ترکی کی امریکہ کے خلاف جوابی کارروائی
امریکہ کے خلاف ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے جس طرح کا فیصلہ کیا ہے یہ
تو انہیں کرنا ہی تھا ۔ رجب طیب اردغان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک بھی
واشنگٹن کے اقدام کے جواب میں 2 امریکی عہدیداران پر پابندی عائد کر رہا
ہے۔دونوں نیٹو اتحادیوں کے تعلقات میں تلخی اس وقت پیدا ہوئی جب ترکی نے
دہشت گردی کے الزام میں اکتوبر 2016 میں امریکی پادری اینڈریو برنسن کو
گرفتار کیا تھا اور گزشتہ ہفتے انہیں گھر میں منتقل کر کے نظر بند کردیا
تھا۔انقرہ کے اقدام پر واشنگٹن نے دو ترک وزراء یعنی وزیر داخلہ سلیمان
سوئیلو اور وزیر انصاف عبدالحمیت گل پر پابندی لگادی تھی اور امریکہ میں
انکے کوئی اثاثے یا جائیداد ہونے کی صورت میں اسے منجمد کرنے کے احکامات
دیئے تھے اسکے علاوہ امریکی شہریوں کو ان کے ساتھ کاروبار کرنے سے منع کیا
گیا تھا ۔ امریکہ کے اس اقدام کے بعد ترکی صدر رجب طیب اردغان نے بھی جوابی
اقدام کا عندیہ دیا تھا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق رجب طیب اردغان نے ٹیلی ویژن
پر اپنی تقریر میں کہا کہ میں آج اپنے دوستوں کو امریکی وزرائے انصاف و
داخلہ کے اگر ترکی میں کوئی اثاثے موجود ہوئے، تو انہیں منجمد کرنے کی
ہدایت دوں گا۔تاہم انہوں نے واضح نہیں کیا کہ وہ کن امریکی عہدیداروں کے
حوالے سے یہ ہدایت دے رہے ہیں۔اس وقت امریکہ کے اٹارنی جنرل جیف سیشنز ہیں
اور چونکہ امریکہ میں ترکی کے طرز کی وزارت داخلہ نہیں ہے، سیکریٹری داخلہ
ریان زِنکے اور محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری کرسٹِن نیلسن ہیں۔
ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا دوبارہ نفاذ
ایران اور امریکہ کے درمیان گذشتہ دنوں تعلقات بہتر ہوتے دکھائی دے رہے تھے
کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے عمل کی بات کی
تھی۔لیکن ایک ہفتہ کے اندر ہی پھر حالات خراب ہوگئے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
نے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے تین ماہ بعد خصوصی حکم جاری کرتے ہوئے
ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا، جس میں ان کا
کہناتھا کہ امریکہ کی پالیسی ہے کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ معاشی دبا ڈالا
جائے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک بیان میں امریکی صدر
کا کہنا تھا کہ 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ایران پر سے جوہری سرگرمیاں
روکنے کے بدلے میں معاشی پابندیاں ہٹانا خوفناک یک طرفہ فیصلہ تھا ، جس کے
بعد مشرق وسطی میں جاری تنازعات میں ایندھن کو استعمال کرنے کیلئے ایرانی
حکومت کے پاس پیسے کی ریل پیل ہوگئی تھی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ
کا مزید کہنا تھا کہ ہم تمام اقوام پر زور دیتے ہیں کہ اس قسم کے اقدامات
کیے جائیں کہ ایرانی حکومت ان دوشرائط میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر
مجبور ہوجائے، یا تو وہ اپنا دھمکی آمیز، غیر مستحکم رویہ تبدیل کرتے ہوئے
عالمی معیشت کا حصہ بن جائے یا پھر مستقبل میں معاشی تنہائی کیلئے تیار
رہے۔اس کے ساتھ امریکی صدر نے دوبارہ پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان ممالک کو
بھی خبر دار کیا جو تاحال ایران سے معاشی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں، اور
انہیں سخت نتائج کی دھمکی دی۔ٹرمپ نے ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک
کو ٹوئٹر پر سخت تنبیہ جاری کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ممالک امریکہ کے ساتھ
تجارت نہیں کرسکیں گے۔اس حوالے سے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو
کاکہنا تھا کہ دوبارہ لگائی جانے والی معاشی پابندیوں پر سختی سے عمل کیا
جائے گا اور یہ اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ایرانی حکومت اپنے مزاج میں
بنیادی تبدیلیاں نہ کرلے۔امریکہ کا یہ فیصلہ کہ دیگر ممالک ایران کے ساتھ
تعلقات ختم کرلیں اس سے کئی ممالک بشمول انڈیا بھی متاثر ہوگاکیونکہ عراق
اور سعودی عرب کے بعد انڈیا کو تیل فروخت کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک
ایران ہی ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ امریکہ کی دھمکی کا جواب ایران اور دیگر ممالک
جو ایران کے ساتھ تعلقات استوار رکھے ہوئے ہیں کس قسم کا جواب دیتے ہیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ
سے ایک روز قبل تہران حکومت کو اٹلی اور فرانس کی مشترکہ ایوی ایشن کمپنی
کے تیار کردہ پانچ کمرشل طیارے موصول ہو گئے ۔ ایران نے اس اقدام پر یورپی
یونین کو سراہا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق یورپی کمپنی اے ٹی آر کے تیار کردہ
پانچ کمرشل طیارے تہران میں مہر آباد کے ایئر پورٹ پر اتارے گئے۔ اس موقع
پر ایرانی وزیر ٹرانسپورٹ عباس اخوندی نے 2015 میں ہوئی جوہری ڈیل کا حوالہ
دیتے ہوئے کہاکہ یہ ایک مثبت اور اہم اقدام تھا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ
یورپی یونین جوہری معاہدے کے حوالے سے کیے گئے اپنے وعدوں پر قائم ہے۔موصول
ہوئے پانچ طیاروں سمیت اب تک بیس میں سے کْل تیرہ کمرشل جہاز ایران کو دیے
جا چکے ہیں۔ پابندیاں عائد ہونے کی صورت میں امریکہ میں فعال یورپی کمپنیاں
بھی اس سے متاثر ہو سکتی ہیں۔چین، روس، فرانس، برطانیہ اور جرمنی اس عزم کا
اظہار کر چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ طے پانے والے اس جوہری معاہدے پر
قائم رہیں گے، تاہم امریکا کی طرف سے ایران کے خلاف تاریخ کی سخت ترین
پابندیاں عائد کرنے کے اعلان کے بعد ابھی اس بات کا حل تلاش کیا جانا باقی
ہے کہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں بین الاقوامی تجارت کو جو نقصان پہنچے
گا اْس کے اثرات کو کیسے کم سے کم کیا جائے۔ ادھر ایران پر دوبارہ پابندیاں
عائد کئے جانے کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ امریکہ ایرانی
عوام کے خلاف نفسیاتی جنگ لڑرہا ہے۔ اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں ایرانی صدر نے
کہا کہ امریکہ کی جانب سے نئے ایٹمی مذاکرات کی بات کرنی اور ساتھ ہی
دوبارہ پابندیاں عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایرانی
قوم کے خلاف نفسیاتی جنگ کرنا چاہتے ہیں اور عوام میں تفریق ڈالنا چاہتے
ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایران کے بچوں، مریضوں اور عوام پر پابندیاں عائد
کررہے ہیں۔ |