اِس مرتبہ جب یوم آزادی منائی جارہی ہے اِن لمحات میں
پاکستان ایک اہم دوراہے پر ہے۔ گذشتہ چالیس سال سے ملک کے اقتدار پر فائز
طبقہ اپوزیشن کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یوں نواز شریف کی سیاست جو جنرل
ضیاء کے دور سے شروع ہوئی اِس وقت منجدھار میں ہے۔ عمران خان جو گزشتہ با
ئیس سال سے سیاست میں ہیں اِس وقت وہ اپنے عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ اِس سے
پہلے پچھلے سال اُن کی پارٹی کے پاس خیبر پختون خواہ کی حکومت تھی۔ نواز
شریف کی حکومت کا خاتمہ اور عمران کی مرکزی حکومت کا آغاز ۔ یہ ہے وہ
پاکستان جو آج کا پاکستان ہے۔ نواز شریف کو پہلے نااہل قرار دیا گیا اور
بعد ازاں بیٹی اور داماد سمیت اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا۔ پاکستان ایک ترقی
پذیر ملک ہے ۔ معاشی استحکام بھی نہیں اور سیاسی استحکام بھی نہیں۔نواز
شریف کے حالیہ ختم ہونے والے دور میں پاکستان آرمی کے ساتھ زبردست محاذ
آرائی کی گئی۔ فوج کو سرعام باتیں سُنائی گئیں۔ نواز شریف کا بیا نیہ جو ں
جوں پاک فوج کے خلاف ہوتا چلا گیا بھارت مینں نواز شریف کے بیانیے کو
پذیرائی ملتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ نواز شریف نے اپنی نااہلی کے بعد سرعام یہ
کہہ دیا کہ ممبئی حملے کے لیے راولپنڈی نے دہشت گرد بھیجے تھے۔ جوں جوں نیب
کا نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ ہوتا چلا گیا نواز شریف کبھی شیخ مجیب
الرحمان بن کر پاک فوج کو ڈراتا رہا اور کبھی مودی کی زبان بول کر پاکستانی
آئی ایس آئی کو دُنیا بھر میں بدنام کرتا رہا۔ نواز شریف کی سیاست ہمیشہ
دائیں بازو کی سیاست رہی ہے۔ لیکن جلاوطنی کے بعد نواز شریف کے رویے میں
تبدیلی آتی چلی گئی اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو اِس انداز میں اہمیت دی
گئی کہ باردڑ کو بھی ایک لکیر قرار دے دیا گیا اور سیفما کے ایک اجلاس میں
پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ کو بھی اپنی دانشور یکی بھینت چڑھا دیا گیا۔
اِس طرح نواز شریف جو کبھی دائیں بازور کی سیاست کا سُرخیل تھا وہ اچکزئی
نظریہ کا حامی بن گیا اور پاک فوج کو وہ خدا نخواستہ کسی دُشمن ملک کی فوج
قرار دے بیٹھا۔اپنے آخری دور میں ماڈل ٹاون میں خون کی ہولی، ممتاز قادری
کو پھانسی ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کرنے کو کوشش ناتمام نے بھی نواز
شریف کو اپنی ہی عوام کے لیے اجنبی بنا ء ڈالا۔ نواز شریف جو گزشتہ چار
دہائیوں سے پاکستانی سیاست کا بہت اہم کردار تھا۔ وہی نواز شریف عوام کی
نبض کو نہ سمجھ سکا۔ حالیہ الیکشن مین عمران خان کی کامیابی اور نواز شریف
کی ناکامی کو اگر اِس پس منظر میں دیکھا جائے کہ پاک فوج کے خلاف ہرزہ
سرائی، پانامہ اور اقامہ کے تحت نااہلی اور ایوین فیلڈ ریفرنس میں لمبی سزا
یقینی طور پر یہ بات عیاں ہے کہ نواز شریف نے اُن کو پیر امیٹرز کا پاس
نہیں رکھا جس کی پاکستان کی جغرافیائی صورتحال متقاضی ہے۔ اِن حالات میں
اگر مسترد شدہ اچکزئی، سراج الحق، فضل الرحمان، شور مچا رہے ہیں تو مچاتے
رہیں شور۔ پاکستان کے ساتھ غداری کو تو کوئی محب وطن برداشت نہیں کر
سکتا۔پاکستان کے اندر ہونے والی دہشتگردی کی کاروائیوں میں بھارت امریکہ
اسرائیل تینوں ملوث ہیں۔ منصف بننے کا دعوئیدار امریکہ خود لُٹیرا ہے ۔
پاکستانی حکومت کو کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اُٹھانی چاہیے لیکن اِس آواز
کو کون سنتا ہے۔چین نے یہ پالیسی بنا رکھی کہ اُس نے اپنی معیشت کو استحکام
بخشنا ہے اور کسی کے ساتھ جنگ نہیں کرنی۔روس کے ساتھ سرد جنگ کے دنوں سے
ہماری مخالفت ہے اور جس طرح امریکہ نے روس کو توڑنے کے لیے پاکستان اور
اسلام کو استعمال کیا وہ سب کچھ روس کے سینے پہ ابھی تک مونگ دَل رہا
ہے۔پاکستان کو عجیب و غریب حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔پاکستان کا
اندرونی استحکام تو بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ چین کے عالمی سپر
پاور بننے کے عمل کی وجہ سے امریکہ بھارت یک جان دو قالب بنے بیٹھے ہیں۔ اِ
ن حالات میں کشمیریوں کا پرسان حال کیا ہوگا۔ ہمیشہ سے سُنا کرتے تھے کہ جس
کی لاٹھی اُسکی بھینس۔ لیکن جب قوموں کے متعلق تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے
کی سوچ پروان چڑھی تو شائد معصوم ذہنوں میں یہ بات کہیں اٹک کر ر ہ گی و ہ
یہ کہ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونا مہذب ہونے کی نشانی ہے۔ نبی پاک ﷺ
نے عرب کے وحشیوں کو جب مہذب بنایا اُن کی تربیت فرمائی تو یہ اُسی تربیت
کا اثر تھا کہ پوری دنیا کی مسلمانوں نے امامت فرمائی اور دنیا کو اچھی
حکمرانی کے طور طریقے سکھائے۔ حضرتِ قائدِاعطمؒ، حضرتِ علامہ اقبالؒ،مجدد د
ین و ملت حضرتِ مولانا امام احمد رضاء خانؒ،پیرجماعت علیشا ہ، حضرت مولانا
فضل خیرحق آبادیؒ، مولانا شبیر عثمانیؒ جیسے عاشقانِ توحید و سنت کے عظیم
علمبرداروں کی مساعی جمیلہ سے کفرستانِ ہندوستان میں نبی پاکﷺ کے حکم سے
بننے والی یہ پاک سرزمین جو 27 رمضان المبارک کی شب کی پرُ نور ساعتوں میں
وجود میں آئی ہو اُسکی حفاظت تو رب پاک خود کرتا ہے۔ حضرت علامہ اقبال ؒ نے
اسلامیان ہند کو پیغام خودی دیا۔ انہیں انتشار ونکبت سے جگایا او ایک قوم
کی شکل میں متشکل کر دیا۔ حضر ت قا ئد اعظم ؒ نے اسلامیان ہند کو اپنی
تقاریر، خطابات، اور علمی اور قانونی نظریات وارشادات کی روشنی میں
انگریزوں اور ہندؤں کی استعمار پسند انہ اور تشدد آمیز رویوں سے آگاہ کرتے
رہے اور انہیں اپنی اسلامی اقدار و رو ایا ت اور تاریخ کی روشنی میں تیار
رہنے کی ہدایت کرتے رہے۔ حضرت قائداعظم ؒ نے اسلامیان ہند کے قلوب واذہان
میں آزادی کی جو لو لگائی وہ الاؤ بن کر سامنے آئی اور پاکستان دنیائے
انسانیت کے نقشے پر بڑی شان وشوکت کے ساتھ ظہور پزیر ہوا۔ قائد اعظم ؒ نے
1944ء میں مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ) میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ نے
غور فرمایا کہ پاکستان مطالبہ کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کے لیے ایک
جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی۔ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس
کی وجہ نہ ہندوں کی تنگ نظری ہے۔ نہ انگریزوں کی چال، یہ اسلام کا بنیادی
مطالبہ ہے۔ اور یہی دراصل مطالبہ نظریہ پاکستان کی ترجمانی کرتا ہے۔مسئلہ
یہ ہے کہ تکلیف صرف اسلام سے ہے کیونکہ کسی غیر مسلم کے اسلام قبول کر لینے
کے بعد جس طرح اس کے زمین و آسمان بدل جاتے ہیں وہ عجیب کیفیت ہے، اس کے
خیالات و تصور ات اس کے جذبات و احساسات اور انسانیت کے جملہ تمام اطوار
یکدم وحدہ لاشریک کی ذات اقدس سے جڑ جاتے ہیں اور پھر اس کا رخ کلکتہ
اجودھیا دہلی اور بجنور سے مکہ اور مدینہ کی طرف ہو جاتا ہے اس روحانی اور
دینی تبدیلی کی مسٹر گاندھی کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔ ان سے پہلے ہو گزرے
مہاپرشوں کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی، ان مہا گرووں کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی،
اور نہ ہی آسکتی تھی اور اب یہ کیفیت کا فرما ہے مسٹر گاندھی عجیب مکاریت و
فریب کاری کے انداز گفتگو میں کہا کرتے تھے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک
سیدھا سادھا سا ہندو جب مسلمان ہو جاتا ہے تو دنگی، فسادی اور لڑاکا ہو
جاتا ہے۔ دنگئی تو وہ ہو جائے گا جب اسے اپنے نظریے کی پاسبانی کرنا پڑے گی۔
دنگئی تو وہ ہو جائے گا، جب ناموس رسالت ﷺ پر خدانخواستہ حرف آئے گا۔ دنگئی
تو لازمی ہو گا کہ جب وہ وحدہ لاشریک کی شان میں کوئی غیر قوم کا فرد
گستاخی کا مرتکب ہوگا۔ قرآن پاک پر رکیک حملوں کا جواب تو پھر وہ پنی جان
پر کھیل کر دے گا اور شہادت کے مقام اولیٰ کو مسکراتے ہوئے حاصل کرنا
اسلامی فریضہ سمجھے گا۔ یہی وہ جذبہ اسلام ہے، یہی وہ قرآنی برکت ہے یہی وہ
دو قومی نظریے کی بنیا د ہے۔ یہی دوقومی نظریہ اپنی روقحانی معنویت اور
اسلامی قومی نظریات و تصور کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے نظریہ
پاکستان کی شکل میں نمودار ہوا۔ پاکستان کی تخلیق میں لاکھوں اسلامیان ہند
نے شہادتوں کا خون عطا کیا لاکھوں مسلمان عورتوں اور بچوں نے قربانیاں دیں،
پاکستان کو انگریزوں اور ہندوں نے آسانی سے قبول نہیں کیا تھا۔ پاکستان
انگریز نے طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا تھا۔ تقسیم ہند نہ انگریزی
بادشاہت کو پسند نہ تھی، نہ برطانوی پارلیمنٹ، نہ برطانوی حکومت ہند، نہ
وائسرائے صاحبان، نہ انڈین نیشنل کانگریس، نہ مسٹر گاندھی، نہرو پٹیل اور
راجگو پال اچاریہ وغیرہ، لارڈ مونٹ بیٹن جو آخری وائسرائے ہند تھا۔ اسے
تقسیم ہند سے ویسے ہی چڑ تھی۔ جمیعت العلمائے ہند کی اکثریت مخالف چند اور
اسلام پسند گروہ بھی قائداعظم ؒ پر رکیک حملوں سے باز نہ آرہے تھے۔ اکثر
مسلمان اکابرین جو کانگریس کے متاثرین میں سے تھے یہ تقسیم پسند نہیں فرما
رہے تھے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی خاص طور
پر شامل تھے۔ یہ حضرت قائد اعظم ؒ کی سیاسی صداقت اور ولولہ انگیز قیادت
اور مومنانہ شان و شوکت کا اعجاز تھا کہ بڑے بڑے برج گرتے چلے گئے بڑے بڑے
طوفان اپنی اپنی راہ لیتے رہے بڑے بڑے پہاڑ چکنا چور ہو جاتے رہے۔ اور وہ
سرحدیں قیام پزیر ہوئیں جنھوں نے معرکہ بدرو حنین کی یاد دتازہ کردی۔ یہ
سرحدیں کچے دھاگے کی سرحدیں نہیں یہ اینٹوں گارے، سیمنٹ اور ماربل کی بنائی
ہوئی دیوار نہیں ’’لاالہٰ الاﷲ محمد الرسول اﷲ‘‘ کے اسلامی اور قرآنی نظریے
اور ایمان پر قائم کردہ دیواریں ہیں۔ جو قیامت تک قائم رہیں گی۔اب اعمران
خان کے ہاتھ میں رب نے اِس پاکستان کی باگ دوڑ دی ہے اﷲ پاک عمران کان کو
اِس ملک کو قائد اعظم ؒ کا پاکستان بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ قوم کو
عمران خان سے بہت سی توقعات ہیں۔ |