یوں تو تھک جاؤ گے میری جان

آج سے تقریباً25 سال قبل میں ایک بچہ تھا اور نہ سمجھ بھی تھا ۔ مجھے اس وقت نہیں معلوم تھا کہ میرے بزرگ خاص طور پر بابا سائیں صوبہ سرائیکستان کسے کہتے ہیں ؟ یہ صوبہ ہوتا کیا ہے ؟ مجھے ان باتوں سے کچھ غرض نہ تھی اور یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ صوبہ کی ڈیمانڈ کیوں کرتے ہیں ۔ میں جیسے جیسے جوان ہوتا گیاصوبہ سرائیکستان کی تحریک بھی میری سمجھ میں آتی گئی اور میں سمجھنے لگا کہ میرے بزرگ اور میرے بابا سئیں صوبہ کیوں مانگ رہے۔ یہ صوبہ کیا ہوتا ہے ۔ اس وقت میں نے اپنے گھر کے باہر لکھا دیکھا جاگ سرائیکی جاگ پئے غیر کریندن راج اسی طرح اپڑیں نگری آپ وسا توں پٹ انگریزی تھانے ۔ یہ سب باتیں میری سمجھ سے باہر تھیں بس یہ یادہے کہ جب صوبہ سرائیکستان کی بات ہوتی تو میرے بابا کے چہرے پر ایک بہت ہی دلکش خوشی رونما ہوتی ان میں ولولہ ہوتا اور ان کو دیکھ کر میں بھی خوش ہوتا تھا۔ میرے بابا جب بھی کسی دوست کے ساتھ خاص طور پر کامریڈ ملک منظور احمد بھوہڑ کے ساتھ بات چیت کرتے تو بہت زیادہ جذباتی نظر آتے اور خوش ہوتے تھے۔ مختلف پلان بناتے رہتے کہ آج ہمیں فلاں کو ملنا ہے آج فلاں کے ہاں میٹنگ ہے خاص طور پر جتوئی میں ڈاکٹر اعظم خان پتافی، فرمان خان، ڈاکٹر خالد پرویز صاحبان کا ذکر ضروری ہے کیونکہ اس علاقہ میں صوبہ سرائیکستان کی تحریک کو پروان چڑھانے میں ان ہستیوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔
ایک وہ وقت بھی آیا جب اس علاقے میں جشن فرید سرائیکی میلہ منعقد کرایا جاتا تھا۔جیسا کہ آج بھی مہرے والا میں پچھلے 20-25 سالوں سے منعقد ہوتا چلا آرہا ہے ۔ ان میلوں کا مقصد لوگوں کا اکٹھا کر کے ان کے اندر سرائیکی صوبے کا شعور بیدار کرنا ہوتا تھا ان میلوں میں سرائیکی ثقافت واضح نظر آیا کرتی تھی ۔ کشتیاں، جھمر، ڈھول پر رقص، کبڈی، مشاعرہ، موسیقی اس میلے کی رونق اور اوزار ہوا کرتے تھے اسکے علاوہ تقاریر بھی ہوا کرتی تھیں ۔ ان میلوں میں سرائیکی تحریک کے رہنما شرکت کرتے اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے اور لوگوں میں شعور بیدار کرتے انہیں بتاتے کہ ہم سب کے مسائل کیا ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ آج بھی لوگوں کو صحیح معنوں میں اپنے مسائل کا احساس نہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ آج بھی کہتے ہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے ہم نے تو یہی کاروبار کرنا ہے مگر تبدیلی آئی ہے اور بہت بڑی تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی انہی بزرگوں مرہون منت ہے۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ حالیہ مردم شماری اعداد و شمار بتا رہی ہے کیونکہ یہاں کے باسی اب خود کو سرائیکی بولنا اورلکھنا اور سمجھنے لگے ہیں ۔ جب یہ تبدیلی مکمل طور پر آجائے گی تو لوگ حکومت وقت سے لڑ کر مرکر بھی صوبہ چھین لیں گے۔

سرائیکی تحریک کے رہنماؤں نے محسوس کیا کہ شعور وآگاہی سے بڑھ کر لوگوں کیلئے کچھ کرنا چاہیے۔ اس وجہ سے بہت ساری نئی پارٹیاں بننے لگیں ۔سرائیکی رہنماؤں میں معمولی اختلافات پر نئی پارٹی معرض وجود میں آتی پھر درجنوں پارٹیاں بن گئیں یہ بھی اس تحریک کا ایک اگلا قدم تھا۔ اس ساری صورتحال کو ورکرز اچھی طرح دیکھ رہے تھے ورکرز نے محسوس کیا کہ اس طرح تو ہم اپنی منزل کھو دینگے۔ اس لیے انہوں نے ان پارٹیوں کو یکجا کرنے میں مصروف ہو گئے۔اسی دوران بڑی پارٹیوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی رجسٹرڈہونے کی تیاریاں شروع کر دیں تاکہ الیکشن میں حصہ لیکر خود کو منوایا جا سکے اور میری معلومات کے مطابق سرائیکی پارٹیوں میں سب سے پہلے الیکشن کمیشن میں پاکستان سرائیکی پارٹی رجسٹرڈ ہوئی مگر اس کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ پھر خواجہ غلام فرید کوریجہ نے ایک پارٹی رجسٹرڈ کرائی الیکشن میں حصہ لیا اور کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔ چند سال قبل سرائیکی خطہ میں فرزند سرائیکستان رانا فراز نون اور آصف خان نے ایک سرائیکستان ڈیمو کریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی یہ پارٹی بہت تیزی سے پروان چڑھی 2013 کے الیکشن کے بعد الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرائی گئی اور 2018 میں دیگر پارٹیوں سمیت اس پارٹی نے بھی حصہ لیا اور نتیجہ سب کی طرح صفر رہا ۔ مگر اس الیکشن میں سرائیکی پارٹیوں کی ایک جیت ہوئی کہ تمام امیدواران نے کسی کے حق میں بھی دستبرداری نہ دی۔ اور آخری حد تک کوشش جاری رکھی جو ان پارٹیوں کی کامیابی سمجھی جا رہی ہے۔

اس الیکشن سے چند ماہ قبل ان تمام چھوٹی اور بڑی پارٹیوں کو یکجا کرنے والے ورکرز بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے اور 2 بڑے گروپ سامنے آئے جن میں سرائیکستان صوبہ محاذ اور سرائیکستان گرینڈ الائنس جس کی کمان بالترتیب خواجہ غلام فرید کوریجہ اور رانا فراز نون نے سنبھالی۔ یہ دونوں گروپ بھی کچھ خاص کامیابی حاصل نہ کر سکے کیونکہ ان گروپس کی الیکشن کے حوالے سے تیاری نامکمل تھی۔ ان گروپس کی ساری جدو جہد، بہت ساری محنت کا صلہ ملا صرف چند سو ووٹ۔ کیا وجہ ہے ؟ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اور کہاں کمی ہے جو ہماری پارٹیاں اچھا ووٹ بینک نہیں بنا سکیں۔ جی ہاں یہ ہمارے لیے سوچنے کی بات ہے اگر ہم ایسے چلتے رہے تو ہم تھک جائیں گے۔ ہمیں سوچنا ہوگا ہمیں مل بیٹھنا ہوگا۔ ہمیں اگلے الیکشن کی تیاری ابھی سے کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنی جماعتوں کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اس سب کیلئے ضروری ہے مل بیٹھنا اور آپسی اختلافات کو ختم کرنا ۔ اب مجھے کوئی گالیاں دے، غلط کہے تو اس کی مرضی مگر یہ حقیت ہے کہ ہم مل کر ایک جگہ پر بیٹھنا نہیں چاہتے ۔

اگر اگلے الیکشن میں کامیابی چاہیے تو مل کر بیٹھیں اس حوالے سے فرزند سرائیکستان رانا فراز نون، ان کے بنائے گئے سرائیکستان گرینڈ الائنس اور کرنل عبدالجبار خان عباسی صوبہ سرائیکستان محاذ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر ایسے ہی چلتا رہے گا اور ایک دن سب کہیں گے ہم تھک گئے ہیں ۔ لوگ ناامید ہو جائیں گے۔ اپنے لوگوں کو ناامید نہ ہونے دیں۔ لوگ آپ پر بھروسہ کرتے ہیں کیونکہ اس کی تازہ مثال ہے کہ ہمارے لوگ نکلے شہباز شریف کے خلاف کمپین کی لوگوں نے خوش آمدید کہا اور شہباز شریف کو اس وسیب سے نکال باہر کیا یہی موقع ہے اب ہمارے رہنماؤں کو خطہ سرائیکستان میں بسنے والے لوگوں کو یقین دلانا ہوگا۔ انہیں ناامیدی سے نکالنا ہوگا۔ ورنہ تو ایسے ہی چلتا رہے گا اور سب ہی تھک جاؤ گے میری جان۔ اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

Imran Zafar Bhatti
About the Author: Imran Zafar Bhatti Read More Articles by Imran Zafar Bhatti: 24 Articles with 23668 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.