دوسری منتخب حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد
انتخابات کا انعقاد ملک میں جمہوریت کی فتح ہے۔پی ٹی آئی ان انتخابات کی
فاتح ہے لیکن اس کی جیت پر بے شمار سوالات کھڑے ہو گئے ہیں جس میں الیکشن
کمیشن کی نااہلی سرِ فہرست ہے ۔اس جمہوری فتح میں پی پی پی کی قربانیوں سے
صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ہے ۔پی پی پی کی جمہوری جدو جہد اور قربانیوں سے
تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کے جبرکا سب کو اعتراف ہے اور
شائد یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بے پناہ طاقت کا ادراک کرتے ہوئے آصف علی
زرداری کی قیادت میں پی پی پی نے اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت سے توبہ کر لی ہے
لیکن اسٹیبلشمنٹ کی پیاس ہے کہ پھر بھی بجھنے کا نام نہں لے رہی ۔زمینی
حقائق کے بعد پی پی پی کو ادراک ہوچکا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ سے کچھ
ہاتھ نہیں آتا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی بے پناہ طاقت کے سامنے کسی کا ٹھہرنا
ممکن نہیں ۔وہ چاہے تو عدلیہ کی مدد سے کسی بھی طورخم خان کو ناکوں چنے
چبوا دے،وہ چاہے تو نیب کی وساطت سے کسی کو بھی مجرم ٹھہرا دے اور چاہے تو
کسی کے گلے میں نا اہلی کا پھندہ ڈال کر اسے سیاست کے میدان سے بے دخل کر
دے ۔ ہمارے کچھ سیاستدانوں نے بھی حصولِ دولت کی ہوس میں ایسے ایسے مخیر
العقول کارنامے سر انجام دئے ہیں کہ انسان ششدر رہ جائے۔اسٹیبلشمنٹ ایسے
گندے کارناموں کو طشت از بام کرتی ہے جس کے بعد سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ
میں مخاصمت کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔رونا صرف اس بات کا ہے کہ احتساب کا
محور صرف سیاستدان ہی کیوں ؟ کیا دوسرے ادارے احتساب سے بالا تر ہیں؟ کیا
وہ لوٹ مار کا حصہ نہیں ہوتے ؟سچ تو یہ ہے کہ عوام سب کو احتساب کے کٹہرے
میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کی دلی مراد کبھی پوری نہیں ہوتی کیوں کہ
ہماری مجبوریاں آڑے آ جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں انصاف کبھی حقیقی نہیں ہوتا بلکہ
یہ صرف اپنے مخالفین کیلئے استعمال ہوتا ہے جس سے ملک میں انارکی اور
انتشار کا ماحول جنم لیتا ہے۔آصف علی زرداری ملکی تاریخ کی اونچ نیچ،غلام
گردشوں کی حقیقت،اقتدار کے ہما کی اصلیت،ملکی ماحول اور اس میں فیصلہ کرنے
والوں کی نفسیات سے کما حقہ آگاہ ہیں تبھی تو انھوں نے اس راہ سے دور رہنے
کا فیصلہ کر رکھا ہے جس میں صیاد کا جال اپنے شکاریوں کیلئے ہمہ وقت کھلا
رہتاہے۔آصف علی زرداری نے اپنے عہدہِ صدارت کے پانچ سال ایسے ہی پورے تو
نہیں کئے تھے۔ایک ایک لمحہ کا حساب دیا تھا اور پور پور اسٹیبلشمنٹ کی ہاں
میں ہاں ملائی تھی تو پھرپانچ سال پورے کرنے کا اعزاز پایا تھا ۔مفاہمت کا
بادشاہ ایسے ہی تو نہیں بناجاتا۔بہت کچھ کھویا تھا تو تب یہ اعزا زپایا تھا
۔ یاد رکھیں کسی بھی اعزاز کیلئے بہت کچھ کھو نا پڑتا ہے ،بہت کچھ داؤ پر
لگانا پڑتا ہے،بہت کچھ برداشت کرنا پڑتاہے اوربہت کچھ سہنا پڑ تا ہے تو تب
کہیں جا کر مقتدر حلقوں کے دل میں رحم دلی کاعکس ابھرتا ہے۔،۔
۱۹۹۷کے انتخابات کے بعد میاں برادران کی خواہش تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو
کو سیاست سے ہمیشہ کیلئے بے دخل کر کے ملک میں شخصی اقتدار قائم کر دیا
جائے لہذا ایک سازش کے تحت انھیں نا اہلی کی سزا دلوائی گئی ۔ جسٹس قیوم
ملک کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نا اہلی کا فیصلہ سنایا اور پھر میڈیا
،اخبارات۔رسائل اور جرائد بی بی شہید کی نا اہلی پر ڈھونڈورچی بن کر سارے
عالم میں ان کی کردار کشی کرنے میں جٹ گئے۔بی بی شہید نے سپریم کورٹ میں
اپیل دائر کر رکھی تھی لیکن اس اپیل سے بھی کوئی خاص توقعات وابستہ نہیں
تھیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے جبر سے گلو خلاصی کروانا بڑا مشکل کام تھا ۔شیخ
رشید احمد اس زمانے میں میاں محمد نواز شریف کے خوشہ چین تھے لہذا ان کی
پھرتیاں دیکھنے والی تھیں۔ جنرل ضیا الحق کی باقیات کاپی پی پی سے خدا
واسطے کا بیر تھا اور اس میں میاں محمد نواز شریف سرِ فہرست تھے ۔خدا کا
کرنا ایسا ہوا کہ ایک آڈیو کیسٹ نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔جسٹس
قیوم ملک اور میاں شہباز شریف کی گفتگو والی ٹیپ نے سب کچھ تہہ و بالا کر
کے رکھ دیا۔اس کیسٹ میں میاں شہباز شریف جسٹس قیوم ملک کو ہدایات دے رہے
تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو سخت سزا سنانی ہے تا کہ ان کا سیاسی کیرئیر
ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے ۔ جسٹس قیوم ملک شہباز شریف کو یقین دلاتے ہیں کہ
جیسے کہا گیا ہے ویسے ہی ہو گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جیسا کہا گیا تھا
ویسا ہی ہوا ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کوسزا ہوئی اور وہ سیاست سے نا اہل ہو
گئیں جس کا صدمہ سہنا جیالوں کیلئے ا نتہائی مشکل تھا کیونکہ ان کی بے گناہ
قائد کو گٹھ جوڑھ کے نتیجے میں نا اہل قرار دیا گیا تھا۔میاں محمد نواز
شریف اور ان کے ہمنوا اس فیصلہ پر پھولے نہیں سما رہے تھے کیونکہ ان کی راہ
کا سب سے برا کانٹا لاہور ہائی کورٹ نے نکال دیا تھا۔مسلم لیگ(ن) کے اہم
رہنما شیخ رشید احمد کی خوشی تو سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی کیونکہ مسلم
لیگ (ن ) کا سب سے بڑا حریف عدلیہ کی شمشیر سے گھائل ہوچکا تھا ۔گلیاں ہو
گیاں سنجیاں وچ مرزا یار پھرے والا معاملہ تھا جبکہ پی پی پی حالتِ سوگ میں
تھی۔آڈیو کیسٹ کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو سنائی گئی سزا غیر موثر ہو
گئی اور جسٹس ملک قیوم کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا ۔یہ کھیل کا
ایساپہلو ہے جس سے ہماری سیاست کی زبوں حالی کا ندازہ کیا جا سکتا ہے۔چند
روز پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت صدیقی نے پاک فوج کے
سپہ سالار کو ایک خط لکھا ہے جس میں انھیں مطلع کیا ہے کہ ایجنسیوں کے کچھ
افراد ان پر فیصلوں کیلئے دباؤ ڈالتے ہیں اور اپنی پسند کے بنچ بنواتے ہیں
جس سے عدلیہ کی بدنامی ہو تی ہے ۔سپہ سالار نے ان کے اس بیان کا نو ٹس لیتے
ہوئے چیف جسٹس ثا قب نثار سے اپیل کی ہے کہ وہ جسٹس شوکت صدیقی کے بیان کا
جائزہ لے کر اس معاملہ کی تہہ تک پہنچیں کیونکہ اس سے عسکری شعبے کی بدنامی
ہورہی ہے۔اب جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف ریفرنس دائر ہو چکا ہے جس کی شنوائی
شروع ہو گئی ہے ۔کیا جسٹس شوکت صدیقی خود پر لگائے گئے الزامات کا بھر پور
دفاع کر سکیں گے ؟ نیب عدالت کے جج بشیر احمد نے میاں محمد نواز شریف کے
خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کے مقدمہ میں انھیں دس سال اور ان کی جواں سال بیٹی
مریم نواز کو سات سال کی سزا سنائی ہے۔فیصلہ میں واضح لکھا گیا ہے کہ
استغاثہ شریف فیملی کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں کر سکا لیکن پھر
بھی دس سال کی سزا سنادی گئی ہے جو سب کیلئے حیران کن ہے ۔ایسا کس کے ایماء
پر ہوا؟کون ایسا چاہتا تھا؟ کون اس کا پشت پناہ تھا؟کون ڈوریاں ہلا رہا
تھا؟اور کس کی دلی خواہش تھی؟ کیا سزا کا تعلق کسی پریشر اور دباؤ سے تھا
یا سزا قانون وانصاف کے تقاضے پورے کر کے دی گئی تھی؟ یہ کوئی سر بستہ راز
نہیں کیونکہ عوام سب جانتے ہیں ۔ اس غیر معمولی فیصلہ پر قانون دان حلقوں
میں سخت اضطراب پا یا جاتا ہے ۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اسے انصاف
کے خون سے تعبیر کیا ہے۔تاریخ میں کچھ بھی چھپا نہیں رہتا۔وقت آنے پر سب
کچھ ظاہر ہو جا تا ہے میاں محمد نواز شریف کے خلاف طیارہ اغوا کیس ہو،
ذولفقار علی بھٹو کی سزائے موت ہو یا بے نظیر بھٹو کے خلاف عدالتی فیصلے
ہوں حقائق کو منظرِ عام پر آنے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔ میاں محمد نواز
شریف فیملی کو سنائی گئی سزا کی حقیقت ایک دن کھل کر رہیگی لیکن اس وقت بہت
دیر ہو چکی ہو گی۔میاں محمد نواز شریف اس وقت اپنی عمر کے اس حصہ میں ہیں
جہاں آلام کو سہنا اور برداشت کرنا بڑا مشکل ہو تا ہے لہذا ووٹ کو عزت دو
ایک طویل بیانیہ ہے جسے آنے والے کل کے قائدین ہی پورا کریں گے ۔دنیا میں
جہاں کہیں بھی جمہوریت آئی ہے وہان پر مقتدر حلقوں نے روڑے اٹکائے ہیں لیکن
ایک دن یہ ساری رکاوٹیں اور روڑے عوامی طوفان میں بہہ جاتے ہیں کیونکہ
عوامی طاقت کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں یہ
ذولفقار علی بھٹو کا نعرہ تھا اور ووٹ کو عزت دو میاں محمد نواز شریف کا
نعرہ ہے دونوں میں کوئی فرق نہیں بجز اس کے کہ پہلے نعرے کے خالق ذولفقار
علی بھٹو کو سرِ دار کھینچ دیا گیا جبکہ دوسرے نعرے کے خالق میاں محمد نواز
شریف کو پسں ِ زندان ڈال دیا گیا ہے۔لیکن کب تک رہے گا جاری ،جال اور شکاری
کا یہ کھیل؟۔،۔ |