ووٹ کی پرچی ہاتھ میں آتے ہی اسکی پیشانی پر لکھی بے بسی
اور بے حرمتی کی داستان جو اس لمحے بال کھولے بین کر رہی تھی نے سلگتے وجود
اور ابلتے ہوئے زہن سے ابھرنے والے آوارہ خیالات کو باغی بنا ڈالا جو
سوالات کے نشتر بنکر میرے زخمی احساس کو چھلنی کرتے مجھے دھکیل کر ماضی کے
قبرستان میں مدفون ووٹ کی طاقت کے تقدس کا رونا روتی سیاسی رہنماؤں کی
غداری کے کفن میں لپٹی تڑپتی لاشوں کے بیچ لے گئے جو ستر سالہ تاریخ کے
کونے کونے میں بکھری پڑی اپنی عوامی مقبولیت کی مظلومیت پر آنسو بہا رہی
تھیں ۔ٖٖ محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی کے بنائے ملک کو جمہوریہ پاکستان
سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ہو کر ووٹ کی طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کی سعی
میں اپنے ماتھے پر غداری کا ایسا داغ لگوا بیٹھی جو منوں مٹی تلے جانے کے
بعد بھی انکی روح کو تڑپا رہا ہے ۔ مولوی تمیز الدین کی زندگی ووٹ کی عزت
بحال کروانے کی امید دل میں لیے عدالتوں کے دھکے کھاتے تمام ہو گئی اور
انکی روح آج بھی نظریہ ضرورت ایسے غلیظ فلسفے پر ماتم کناں ہے جو انھیں
ہماری عدالت عظمیٰ نے دنیا سے رخصتی کے وقت تحفے میں دیا تھا۔ مجیب الرحمٰن،
زوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو ووٹ کے تقدس کی کو بحال کروانے کے گورکھ
دھندے میں اپنی عزت، مال حتیٰ کہ جان گنوا بیٹھے مگر ووٹ تو آج بھی اُسی
قبر میں پڑی ہے جس میں اسے سکندر مرزا نے اتارا تھا اور اسے دو ہی موقعوں
پر قبر سے نکالا جاتا ہے ایک جب کسی کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا مقصود ہو
یا پھر آئین و قانوں کو پیروں تلے روندنے والے کو تا حیات صدر بنانے کے لیے
ریفرنڈم کروانا ہو دیگر صورتوں میں اسکی حیثیت کاغذ کے ایک پرزے کے سوا کچھ
بھی نہیں جسے ان پر زوں کے زریعے اکثریت لینے والے سمیت اٹھا کر کو ڑا دان
میں پھینک دیا جاتا ہے ۔ مجیب الرحمٰن کی ووٹ کے حساب سے بھٹو کے مقابلے
میں دو گنا زیادہ نشستیں تھیں مگر اسی ووٹ کی پرچی نے مجیب الرحمٰن کے ساتھ
ووٹ کی پرچی پر انگوٹھا لگانے والوں کو بھی غدار اور وظن دشمن قرار دلوا کر
پرے کھدیڑ دیا تا کہ بچے کھچے پاکستان کو " اسلامی فلاحی مملکت "بنانے میں
کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔بھٹو کے پاس جب تک اکثریت نہیں تھی وہ اصل حکمرانوں کی
آنکھ کا تارا تھا مگر اسکے انقلابی منشور اور موثر عملی اقدامات نے اسے
عوامی مقبولیت کی انتہاوئں تک پہنچا دیا ووٹ کی کی طاقت سے حاصل کی گئی
مقبولیت اسے پھانسی کے پھندے تک لے گئی اور مرد مومن مرد حق نے ملک کے وسیع
تر مفاد میں بھٹو اور ووٹ دونوں کو قبر میں اتار کر ملک کو" اسلام کا
گہوارہ "بنا دیا ۔ گیارہ سال بعد بے نظیر بھٹو نے ووٹ کو قبر سے نکال کر
اسے دوبارہ سہمے ہوئے مظلوموں کے ہاتھوں میں تھما کر انکا حق راٗے دہی بحال
کروانے کی کوشش کی اور آخری سانس تک اسی جدو جہد کو اپنا نصب العین سمجھتے
آگ کی ندیوں میں تیرتی ہوئی داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں ۔ میرا ووٹ مجھ سے
برسوں سے بچھڑے ہوئے بچے کی مانند رو رو کر سوال پوچھ رہا تھا کہ تم جس
سکول میں کھڑے ہو یہاں تو کچھ عرصہ قبل مٹی کا دیا بھی میسر نہیں تھا بلکہ
لکڑیاں جلا کر ووٹ گنے جاتے تھے اور آج ان پہاڑوں اور جنگلوں کا ہر کونہ
بجلی کے قمقموں سے روشن ہے ، کیا تمہارا ووٹ اتنا طاقتور ہو گیا ہے کہ
تاریکیوں کو روشنیوں میں بدلنے والے کو زندان کی کال کوٹھڑی سے نکلوا سکے ،
وطن عزیز کی روشنیاں واپس لانے والا ، دھشتگردی اور خود کش حملوں سے سہمی
ہوئی قوم کو امن و آشتی کا تحفہ دینے والا مفت دوائیں اور علاج کی سہولیات
مہیا کرنے والا جیل خانے کی دیواروں سے پوچھ رہا ہے مجھے کس جرم کی سزا دی
گئی ۔ کیا میرا ووٹ قوم کے اس محسن کو انصاف دلوانے کی طاقت رکھتا ہے ؟میرے
ہر سوال کا جواب نفی میں تھا جسکی وجہ سے میرے منہ سے ہائے نکل گئی، میں نے
سر کو جھٹکا تو خیال آیا محکوم قوموں کے جوانوں کے زہنوں میں ایسے خیالات
کا ابھرنا بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے کہ انکو اپنے زہن سے سوچنے اور
اپنے ضمیر سے فیصلے کرنے کی اجازت نہیں ہوتی لہذا جو ہوا اور جو ہو رہا ہے
اسے مقدر سمجھ کر قبول کر لو ۔ ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں لگے نوجوانوں کے
خوبصورت چہروں پر اداسی اور بے بسی کی گہری لکیریں اور انکی آنکھوں میں
امید اور خواہشات کی چمک میرے قلب و زہن میں برپا محشر کی شدت میں اضافہ
کرنے لگیں ۔ غربت کے گھٹا توپ اندھیروں میں ڈوب کر دنیا کی ہر خواہش اور
امنگ سے مایوس بزرگوں اور عورتوں کے چہروں پر پھیلا ہوا عجیب و غریب کرب دل
و دماغ پر ہتھوڑے برسانے لگا ۔ آگ برساتے سورج کی کڑکتی دہوپ میں پگھلتی
ہوئی سڑکوں کیسنگلاخ کناروں پر پتھر توڑنے والے زخمی ہاتھوں کے مقدس
انگوٹھوں پر لگی سیاہی اور ووٹ سے وابستہ کھوکھلی امیدیں سیاستدانوں کے
جھوٹے وعدے اور زبانی دعوے ، اپنی ڈگریوں کا بوجھ کندھوں پر اٹھا کر بے
روزگاری کے صحراؤں میں بھٹکنے والے بے روزگار نوجوانوں کے اداس چہرے میرے
رگ و پے میں آگ لگا چکے تھے اور ایک ہی سوال ابھر رہا تھا ، کیا ووٹ اتنی
طاقتور ہو گئی ہے کہ غریبوں کے ان سلگتے مسائل کو حل نہ سہی کم از کم یہ
احساس دلا سکے کہ ہم ایک آذاد ملک کے باشندے ہیں ؟ جواب اس بار بھی نفی میں
تھا ۔ ووٹ سے نظر ہٹی تو مہر لگانے والے باکس کے بالکل ساتھ ایکمسلحنوجوان
پر پڑی جسنے بندوق کی نالی سے مجھے باہر کا راستہ دکھایا جس سے میں اور
میری ووٹ دونوں سہم گئے ، میں نے لرزتے ہاتھوں سے ووٹ کو پاس رکھے صندوق کے
سپہرد کیا اور زہن میں بھڑکتی حسرت و یاس کی جہنممیں مزید جلنے کی بجائے
اپنی سوچوں سے منقطع ہو کر مسلح نوجوان کی دکھائی راہ پر چل پڑا جو مجھے
چند گھنٹوں بعد ایک نئے پاکستانمیں داخل کرنے والی تھی جہاں ایک سال میں
ایک کروڑ نوکریاں ، پچاس لاکھ گھر ،ڈیڈھ ارب درخت ، تین سو پچاس ڈیمز ،
پٹرول پچاس روپے لیٹر ، بیرونی قرضوں سے نجات ایسی نعمتیں میری منتظر تھیں
۔ میرے زہن میں رہ رہ کر ایک ہی سوال چبھ رہا تھا کہ ہمارے اجداد نے جس
سہانے مستقبل کے خواب اپنی پلکوں پہ سجا کر لاکھوں کی تعداد میں اپنی گرنیں
کٹائیں تھیں انکے آدرش یہی تھے کہ انکی نسلیں ایک ایسے ملک میں زندگی
گزاریں گی جہاں ہر طرٖ انصاف ہو گا ، وہ اپنی مرضی سے اپنے نمائیندوں کا
انتخاب کیا کریں گے ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پتھروں کا سینہ چیر کر اپنے
بچوں کو حلال روزی کھلانے والے ہمارے بزرگ اس امید پر دنیا چھوڑ کر گئے تھے
کہ غربت کی انتہائی لکیروں سے نیچے زندگی کا عذاب جھیلنے والوں کی نسلوں کے
ہاتھوں کی لکیروں میں انکے مسلمان حکمران خوش قسمتی کا ایسا سیماب رواں
کریں گے کہ دو وقت کی با عزت روٹی کے ساتھ آذاد فضا میں سانس لے سکیں گے
مگر ان کو کیا خبر تھی کہ ان کی نسلیہں غربت ہی نہیں انسانیت کیانتہائی
لکیروں سے بھی نیچے نہ صرف جی رہی ہیں بلکہ اس عذاب مسلسل سے نکلنے کا سپنا
دیکھنے والے آج کے پاکستان میں غدار تصور کیے جاتے ہیں اور یہ تو ہمارے
اجداد بھی جانتے تھے کہ غداری کی سزا تو موت ہی ہوا کرتی ہے ۔ متلائے ہوئے
زہن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ مہدی حسن کی آواز میں حبیب جالب کی
غزل بج اٹھی جس نے میرے سارے سوالات کا جواب دو مصرعوں میں دے دیا جس سے
مفلسی کے جرم میں عمر قید کاٹنے والے مجھ ایسے سر پھرے کے زخمی احساسات بھی
سہمکر خاموشی اختیار کرنے کا مشورہ دینے لگے۔
تو کہ نا واقفِ آداب غلامی ہے ابھی ۔۔ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
|