یہ دن ہمیں اُن بزرگوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے اپنے
کمزور کندھوں اور کانپتے ہاتھوں میں اپنے جوان بیٹوں کی لاشوں کو
اُٹھایا۔یہ دن ہمیں اُن ماؤں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے پاکستان کی خاطر
اپنے لخت جگر کو خون میں لت پت دیکھا۔یہ دن ہمیں اُن بہنوں، بیٹیوں کی یاد
دلاتا ہے جنہوں نے پاکستان کی عزت اور آزادی کے لیے اپنی عصمتوں کی قربانی
دی۔اپنا گھر بار، دولت، جائیداد سب چھوڑ کر اس سر زمین پاک کو اپنا مسکن
بنایا۔آزادی کی خاطر اپنی جوانیوں کو پاکستان پر قربان کیا۔یہ ملک خدا داد
ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا گیا۔ یہ تجدیدعہدِ وفا کا دن بھی ہے۔ آج کے
دن ہمیں اسلامی طرزِ حیات اور قائداعظم کے اصولوں پر چلنے کا وعدہ کرنا ہے
اور اپنے اتحاد کو قائم رکھنا ہے، آج ہمیں ان عظیم ہستیوں کو خراجِ عقیدت
پیش کرنا ہے جن کی انتھک محنت، کوششوں اور قربانیوں سے ہم آزاد فضامیں سانس
لے رہے ہیں۔آج ہمیں اُن طالبعلموں کو خیراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے
ہندؤں کے ظلم و ستم کو سہا بندے ماترم ترانہ نہ پڑھنے پر سخت سے سخت
پریشانیوں اور سزاؤں کا سامنا کیا ، لیکن ترانہ پڑھنے سے انکار کرتے رہے ۔
ہمیں سلام پیش کرنا ہوگا اُن بھائیوں کو جن کی آنکھوں کے سامنے بہنوں کی
عصمتوں کا تا ر تار کیا جاتا رہا۔ آج کے دن قائد اعظم کے ساتھ شانہ بشانہ
چلنے والے نوجوانوں کو سلام پیش کرنا ہے ۔ یہ دن ہمیں محبت ،یگانگت ،
مساوات کا درس دیتا ہے ۔آج ہمیں سوچنا ہوگا۔ ہم نے پاکستان کے لیے کیا
کِیا؟ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟عداوتیں ، نفرتیں ، اختلافات بھلا کر ہمیں
صرف پاکستان کے بارے سوچنا ہوگا۔ پاکستان کا مطلب سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ
کے اوراق پلٹنا ہونگے اور علمِ کے بحر میں غوچہ لگا نا ہو گا پھر ہمیں پتہ
چلے گا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے آزادی حاصل کرنے میں کیا کیا باتیں سنی
کیا کیا تکالیف برداشت کیں۔1925 سے 1927ء تک ہندومہا سبھا کے پلیٹ فارم پر
ہونے والی تقاریر میں مسلمانوں کے بارے کیا کیا خیالات کا اظہار کیا جاتا
تھا۔ــ" مسلمان باہر سے آئے تھے، یہاں یہ ایک غیر قوم ہیں ، ہندوستان کے
ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہیں اگر وہ اس کو چھوڑنا چاہیں تو خوشی سے اپنی راہ
لیں،اگر یہاں رہنا ہو توہندو بن جائیں اور ہندو معاشرے میں اپنے آپ کو جذب
کر لیں، ورنہ ان کا بھی وہی حشر ہو گا جو چند سو سال پہلے سپین کے مسلمانوں
کے ساتھ ہوا تھا، حکومت مسلمانوں پر متواتر مہربانیاں کرتی جاتی ہے ، جو
رعایتیں ان کو دی جاتی ہیں اس سے ہندوؤں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ہندوؤں کے لیے
لازمی ہے کہ انگریزوں اور مسلمانوں کے گٹھ جوڑ کے خطر ناک نتائج سے خبردار
رہیں ـ"انگریزوں کے لگائے ہوئے مارشل لاء میں عوام کوہر طرح کے ظلم ستم کا
نشانہ بنایا گیا۔کرفیو آرڈر کی خلاف ورزی کرنے والوں کو فی الفور گولی سے
اڑا دیا جاتا، بعض گلیوں میں لوگوں کو پاؤں پر چلنے کی ممانت تھی، وہاں سے
گذرنے والے لوگ پیٹ کے بل رینگتے ہوئے راستہ طے کرتے ۔لاہور کے شہریوں سے
ان کے بائسیکل اور بجلی کے پنکھے چھین لیے جاتے، طالبعلموں کو دن میں چار
مرتبہ فوج کے سامنے حاضری دینا پڑتی اور انگریز کو آگے بڑھ کر سلام کرنا
پڑتا، معمولی معمولی خطاؤں پر لوگوں کو بجلی کے کھمبوں سے باندھ کر وحشیانہ
سزائیں دی جاتی تھیں۔آج کی آزادی کو دیکھ کر اُس بہن کی یاد آتی ہے جس کے
بھائی نے اپنی بہن سے سبز حلالی پرچم کو چھت پر لگانے کی آرزو کی لیکن
ہندوؤں کے مظالم اس قدر تھے کہ کچھ پاس نہ بچا تھا سوائے عزت کے، بہن نے
اپنے سبز رنگ کے دوپٹے کو کاٹ کر بھائی کی خواہش کو پورا کیا اور بھائی نے
وہ سبز حلالی پرچم اپنی چھت پر لہرا دیا۔ کیا خبر تھی اس سبز پرچم کو
لہرانے کی اس قدر بھیانک سزا ہو گی اگلے دن اُس بہن کی بے آبرو برہنہ لاش
ملی ، جس کو اُسی پرچم میں لپیٹ کر گھر لا یا گیا۔آج ہم آزاد ہیں لیکن
ہماری سوچ آج بھی غلام ہے ، آج ہم اُسی انگریز اور ہندو ؤں کی رسموں کو نقل
کر کے خود کو مارڈرن کہلاتے ہیں۔اسلاف نے اس مملکت خداداد کو حاصل کرنے
کیلئے اپنے جان و مال کی بے مثال قربانیاں دیں، اس کی حفاظت اب ہمارا قومی
فریضہ ہے، پاکستان کی ترقی اور مضبوطی کیلئے تمام سیاسی ، عسکری اور عوامی
قوت کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ہمارے بزرگوں نے ہمیں یہ پیارا
پاکستان دیا جس میں آج ہم آزاد سانسیں لے رہے ہیں ، 14 اگست ہماری یوم
آزادی کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریات کی فتح کی علامت بھی ہے اس لئے ہمیں اس
بابرکت اور پرمسرت موقع پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے ہمیں
ایک آزاد خطہ زمین عطا کیا ۔ آج جب کھُلے بال ننگے سر بہنوں کو گاڑیوں سے
سر نکالے وکٹری کا نشان بنائے آزادی کا جشن مناتے دیکھتے ہیں تو سر شرم سے
جھک جاتے ہیں ،کیا اس لیے پاکستان کو حاصل کیا گیا تھا؟ کیا یہ علامہ ڈاکٹر
محمد اقبال کا خواب تھا جس کو قائد اعظم نے اپنی مدبرانہ صلاحیتوں سے حاصل
کیا اور ہمارے بزگوں نے عزتوں ، مال اور اپنے خون کی قربانیاں دیں۔ یہ ملک
جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیاگیا تھا، وہ نعرہ ، پاکستان کا مطلب کیا ،
لاالہ الا اﷲ، کیا آج ہم اُسی پاکستان میں سانس لے رہے ہیں ؟جب مسلمان
لڑکیوں کی عزتوں کو پامال کیا جاتا تھا اور آج ہم آزا د ہو کر بھی اس ذلت
کا سامنا کر رہے ہیں، آج ہم آزاد ہیں لیکن بہنوں ، ماؤں ، بیٹیوں کی عزتیں
محفوظ نہیں ، بچوں کے ساتھ بد فعلی جیسے واقعات ہمارے لیے با عث شرم ہے ۔
جس مثالی مملکت کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا، ہم اسے پورا کرنے میں
ناکام ہو گئے ہیں۔ہمارے آباواجداد کوامید ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ نسل نو
اس ملک کی آب یاری کرے گی، اسے کامیابیوں کے افق پر پہنچائے گی،اپنے ملک و
قوم کے بارے میں سوچے گی، مگر صورت حال اس کے بر عکس ہے۔ہمارے نواجوان کے
بارے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا!
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟
ہمیں اپنے آپس کے جھگڑوں کو ختم کر کے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے
مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ 14اگست تجدید عہد وفا کا دن ہے اس دن کو بھرپور
طریقے سے منانا چاہیے۔ اپنے گھروں، گلیوں اور بازاروں کو پاکستانی جھنڈوں،
جھنڈیوں، قمقوں سے خوب سجانا چاہیے اور آپس میں محبت، اخوت ، روادری اور
اتجاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں اگر خدا نخواستہ
پاکستان نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔آج ہمیں دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم وہی
قوم ہیں جس نے اپنی جانوں کے نذرنے پیش کر کے پاکستان کے قیام کے خواب کو
پورا کیا تھا، ہم وہی غیور قوم ہیں جس نے اپنے قائد کی رہنمائی میں دو قومی
نظریے کو سچ ثابت کرکے دکھایا تھا ہمیں قرار داد پاکستان کی روشنی میں ملک
کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے انفرادی و اجتماعی طور پر علامہ اقبال کا شاہین
بننا ہوگا۔کیوں کہ سب سے پہلے پاکستان۔
بقول شاعر!
زلزلوں کی نہ دسترس ہوکبھی
اے وطن تیری استقامت تک
ہم پہ گزریں قیامتیں لیکن،
تو سلامت رہے تو سلامت رہے
|