میرے محبوب وطن تجھ پہ اگرجاں ہونثار
میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہ ِتن
میراپاکستان پھولوں سے خوشبوئیں بکھیرتا ہوا،مہکتا پھلوں سے
لدا،جھرنوں،آبشاروں،پہاڑوں جھیلوں،جنت کی نظیروادیوں سے بھرا،ولیوں کے
شہرکی زمین،اورہمیں ہرآسائش دینے والا وطن ہمیں ایسے نہیں ملا بلکہ بے پناہ
جدوجہد،قربانیوں مسافتوں،مصیبتوں دکھوں،ماں بہن کی عزت کے عوض ہمیں ملا
ہے۔ہندوستان سے ہم نے اس لیے الگ ملک کیا کیونکہ ہندوستان یعنی ہندوؤں کی
سرزمین تو وہاں ہم مسلمان کیسے رہ سکتے تھے ان کے رہن سہن،عبادت،کھانا پینا
سب ہم سے جدا ہے وہ حرام حلال میں فرق نہیں رکھتے مگرہم مسلمان کسی حرام
چیز یعنی حرام جانورشراب وغیرہ کو چھوتک نہیں سکتے۔ہندوؤں کے لیڈرانگریزون
کی چاپ لوسی کرکے ان کی ہمدردیاں لے لیتے اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کی
حدیں کراس کرتے جاتے مسلمان اکابرین نے ہندؤوں کے جذبات،متعصبانہ فلسفے اور
دشمنی کوبھانپ لیامسلم اکابرین کو ڈرتھا کہ ہم پہلے انگریزوں کے ہاتھوں
پستے رہے اب ہمیں ہندوؤں کے ظلم کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے
۔30دسمبر1906میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی جس میں مسلم وہند کے
لیڈرشام تھے 1915کو اجلاس جواہرلال نہروکے گھرہوا جسمیں ہندؤوں کوخودمختاری
دی جانے کا مطالبہ کیا گیاجسے کچھ دستاویزات کی بنا پر مسلمانوں نے قبول
کرلیا مگرہمیشہ کی طرح ہندؤوں نے پیٹھ پیچھے چھراگھونپتے ہوئے 1919میں ہونے
والے پرامن جلسہ میں گولیوں کی بوچھاڑسے کئی نہتے مسلمانوں کو ابدی
نیدسلادی اس کے بعدقائداعظم محمدعلی جناح نے چودہ نکات پیش کیے حالانکہ آل
انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدرروقارالملک نے مسلمانون کے مستقبل کے متعلق
فکرزدہ ہوکرکہا کہ جب انگریز حکومت ہندوستان سے جائے گی تو اقتدار اعلٰی
ہندوؤں کے پاس چلا جائے گا کیونکہ وہ چارگنا ہم سے زیادہ ہیں تب ہماری
زندگیاں،ہماری املاک،ہمارامذہب سب خطرے میں پڑجائے گا اور یہ ان کی بات
بالکل سچ ثابت ہوئی تب قائداعظم نے چودہ نکات پیش کیے جہاں سے دوقومی نظریہ
کی ابتداہوئی کیونکہ مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں ایک ساتھ نہیں رہ
سکتے نہ ہی ایک دوسرے کے رسم ورواج میں رہ سکتے ہیں اسی لیے ان کا الگ
رہوجانا دونوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگا 1928 میں نہرورپورٹ پیش کی گئی جس
پر اگرعمل ہوتا تو مسلمانوں کے حقوق متاثرہونے کا خدشہ تھا1929میں قائداعظم
نے گیارہ نکات پیش کیے جس میں انہوں نے واضع کردیا کہ مسلم اورہندو دو الگ
قومیں ہیں ان کے رہن سہن، عبادتیں الگ حالانکہ ہرلحاظ سے الگ ہیں اسی وجہ
سے یہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے جہاں دیگرمسلم رہنماء ہندوقوم سے سرگرداں تھے
وہیں ڈاکٹرعلامہ محمداقبال جواسلام کی تاریخ اور ثقافت میں دورس نظررکھتے
تھے آپ نے قائداعظم محمدعلی جناح کو خط لکھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
ہندوستان میں رہنے والے مسلمان آپ کو صرف آپکو دیکھیں گے کیونکہ آپ ہی ان
کی آخری امید ہیں کہ آپ ہی ان کی کشتی کو ساحل پرلے جاسکتے ہیں اسی وجہ سے
1930میں علامہ محمداقبا نے الگ مسلم ریاست کا مطالبہ کیا اسی طرح21مارچ
1940میں منٹوپارک میں تقریباًایک لاکھ آزادی کے متوالے شریک ہوئے اسکے دودن
بعد 23مارچ 1940کو آل انڈیا مسلم لیگ کا لاہور میں اجلاس ہوا جس میں
قرارداد پاکستان منظورہوئی اس قراردادنے قیام پاکستان میں اہم کردارادا
کیااور اسی جدوجہد کی وجہ سے 14اگست 1947کولارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آل انڈیا
ریڈیو سے خطاب کے دوران ہندوستان اور پاکستان کوالگ کرنے کا اعلان کیا یوں
پاکستان معرض وجود میں آیا مگراسے کے بعد بھارت سرکارکی طرف سے مسلمانوں پر
انتقامی کاروائیاں ہونا شروع ہوگئی اور پاکستان کے خلاف خون کی ہولی کھیلنا
شروع کردی جس کو یاد کرکے دل خون کے آنسوروتا ہے پاکستان کے بننے کے
بعدبھارت نے مسلمانوں کے خلاف ایک تحریک سے چلا دی کہ آپ کا الگ وطن بن گیا
ہے ہمارا ملک چھوڑکرچلے جاؤ تو کئی جانی ومالی قربانیاں دے کر مسلمانوں نے
پاکستان کا رخ کیامگرراستے میں مسلح ہندو مسلمان عورتوں کی عزتوں کو پامال
کرتے اور مردوں کوشہیدکردیتے ٹرینوں کو سٹیشنوں پر روک کر مسلمانوں کو قتل
کردیتے اور جب ٹرینین پاکستان پہنچتیں تو ٹرینوں میں مسلمانوں کے بجائے خون
ملتا جوزخمی حالت میں بچ جاتے وہ اپنے ملک کی مٹی اورآزادی کی خوشی محسوس
کرلیتے ۔پاکستان کے بننے کے بعد بھارت سرکار نے یہ کہنا شروع کردیا کہ
پاکستان نوزائیدہ مملکت ہے اور زیادہ دیر نہیں چل سکے گا ان کا نظریہ اپنی
جگہ ٹھیک تھا کیونکہ پاکستان کے حصہ میں جو مال وزر آیا وہ کسی بھی مملکت
کیلئے زیادہ نہ تھا اور جو مسلمان پڑھے لکھے تھے وہ اس علاقوں کے تھے جو
ابھی پاکستان کا حصہ نہیں بنے تھے مگراﷲ پاک نے قائداعظم جیسے محسن لیڈروں
سے نوازا قائداعظم نے فرمایا اﷲ نے پاکستان کی سرزمین میں کسی چیز کمی نہیں
رکھی اس سرزمین میں زبردست خزانے چھپے ہیں مگرہمیں اسلامی ریاست بنانے
کیلئے محنت کرنا ہوگی اوراپنی محنت کے ذریعے ذحیرے کا ایک ایک ذرہ صرف کرنا
پڑے گامجھے امیدہے اس کارخیرمیں ہرکوئی دل وجان سے حصہ لے گا اسی محنت کی
وجہ سے بھارت کی خواہش پوری نہ ہوسکی اور آج پاکستان دنیا کے نقشے پر ایٹمی
طاقت بن کے نظرآرہا ہے مسلمانوں نے اس وجہ سے بھارت کو چھوڑا اپنی جانی
ومالی قربانیاں دیں کہ ایک ایسی ریاست قائم ہوجہاں اسلامی نطام ہو اور
اسلامی قانون کے مطابق عبادت گاہیں ہوں 1947سے پہلے ہم ایک قوم تھے مگر آج
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد آج ہم پاکستانی تو ہیں مگرایک قوم
نہیں ہیں کیونکہ آج ہم آپس میں تفریق ہوچکے ہیں اور فرقہ پرستی میں پڑکے
ایک دوسرے کو ہندوکافراور بھارت کا ایجنٹ کہتے رہتے ہیں اس کے علاوہ آج ہم
پاکستانی کے بجائے پنجابی،سرائیکی،مہاجر،سندھی ،بلوچی کہلوانے میں زیادہ
فخرمحسوس کرتے ہیں ۔قائداعظم محمدعلی جناح نے خودحضرت محمدﷺ کے اسوہ حسنہء
امانت،دیانت،صداقت،شجاعت پرعمل کردکھایایہ آزادی میں کسی تھال میں رکھ
کرنہیں دی گئی بلکہ اس کیلئے ہمیں کئی قربانیاں دے کرحاصل کی ہے یہاں تک کہ
نئی نویلی دلہنوں نے اپنے سہاگ خوشی خوشی قربان کردیے تاکہ آنے والی نسلین
آزادی کی زندگی گزارسکیں ہم صرف 14اگست کو ہی پاکستانی کیوں بن جاتے
ہیں؟ہمیں پہلے اپنے ملک کی محبت کیوں یاد نہیں ہوتی،اس آزادی کے موقع پر
ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے اپنے ملک پاکستان کیلئے کیا کیا ہے ؟پاکستان
دنیا میں ہماری آخری پناہ گاہ ہے اسکی ترقی تحفظ اور بقاء کیلئے ہم نے کتنی
جدوجہد کی؟آج ہم یہ عہد کریں کے آنے والے دنوں میں کسی قربانی سے دریغ نہیں
کریں گے اور ملک کی ترقی بقاء کیلئے کوئی کسرنہ چھوڑیں گے اگرپاکستان ہے
توہم ہیں ۔پاکستان کا مطلب کیا؟؟؟؟ لاالہ الااﷲ۔
|