زرا سوچو تو

خالق کائنات نے اپنی لاریب کتاب میں انسان کو احسان کا بدلہ احسان سے دینے کی تلقین کی ہے اور انسانی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جن قوموں نے اپنے محسنوں کی قدر نہیں کی رسوائی ان کا مقدر ٹھہری۔ 2014کے وسط میں یہ خاکسار یونیورسٹی آف سرگودھا کے شعبہ حیاتیات (Biological Sciences) میں اسسٹنٹ پروفیسر تھا جب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ڈاکٹر اکرم چوہدری وائس چانسلر کی دعوت پر یونیورسٹی تشریف لائے اور سیمنار سے خطاب کے بعد سائنسدانوں اور فیکلٹی ارکان سے ملاقات کی جسکا شرف بندہ ء ناچیز کو بھی حاصل ہوا ۔ اپنے خطاب میں بھی اور فیکلٹی سے بات چیت میں بھی ڈاکٹر صاحب خاصے دل گرفتہ دکھائی دے رہے تھے اور انکے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جو کسی ٹوٹے دل والے شخص کے چہرے پر اپنے ہمدرد ا ور غمگساروں کے درمیاں آکر ابھرتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے برملا اعتراف کیا کہ پاکستان کے تین وزرا ئے اعظم یعنی زویلفقار علی بھٹو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے اپنے اپنے ادوار میں انکی حوصلہ افزائی بھی کی بے پناہ احترام بھی دیا اور ممکنہ حد تک تعاون بھی کیا اور ملک کو اٹمی قوت بناے کا کریڈ ٹ بھی انھی تینوں کو دیا مگر واقعات کے تسلسل میں جب پرویز مشرف کا زکر آیا تو انکا چہرہ ر وہانسا ہو گیا آواز بھرا گئی جسے سنبھالا دینے کے لیے رسول اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ کا حوالہ دیکر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اﷲ کی مخلوق کی بہتری اور فلاح کا درد سینے میں رکھنے والوں کو ایذا دینا دنیا والوں کی پرانی روایت ہے مگر اﷲ اور روز مکافات پر یقین رکھتے والے لوگ اپنی جد و جہد اور کاوشوں کے صلہ کی توقع انسانوں سے نہیں بلکہ یوم حساب کے مالک سے رکھا کرتے ہیں اور کئی ایک صھابہ ء کرام پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ناانصافیوں کا زکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے صحابہ بھی تو تھے جن پر انھی لوگوں نے ان کنو وئں کا پانی بند کر کے انہیں قتل کردیا جن لوگوں کی خاطر ان عظیم ہستیوں نے اپنی زاتی جیب سے وہ کنوئیں کھدوائے تھے اور مزید فرمایا کہ انھوں نے پرویز مشرف سے مطالبی کیا کہ پینتالیس ملین ڈالرز کی معمولی رقم سے ہم بھارت کے مقابلے میں زیادہ موثر سپیس Space ٹیکنالوجی متعارف کروا کر ملک کو ناقابل تسخیر بنا سکتے ہیں مگر مشرف نے نہ صرف رقم دینے سے انکار کر دیا بلکہ مجھے مجرم بنا کر ناکردہ گناہوں کا یعتراف کرنے پہ مجبور بھی کیا اور بھرائی آواز میں فرمایا کہ مجھے اپنی زاتی ازیتوں کا دکھ نہیں لیکن زندگی بھر یہ دکھ ضرور رہے گا کہ ہم فضا سے میزائل داغنے کی ٹیکنالوجی میں بھارت سے پیچھے رہ گئے ۔محسن پاکستان کی زبان سے سنی انکی اور اپنے وزرائے اعظم کی داستان میری یاداشت کا ایک تلخ حصہ ہے جو کسی پرانے درد کی طرح جاگ کر گزشتہ دو دنوں سے میرے قلب و زہن میں وہ محشر برپاکیے ہوئے ہے کہ کئی بار مجھے اپنی روح کے ٹانکے ادھڑتے محسوس ہونے لگتے ہیں، میرے زخمی ا حساس سے خوں کے فوارے ابل رہے ہیں کہ جس بھٹو کی سیاسی بصیرت سے یہ پروگرام شروع ہوا اسے سولی پہ چڑھا دیا گیا ، جس نے اس کا آغاز اور اس کی تکمیل کی اسے طرح طرح کی ایذائیں دینے کے بعد عادی مجرموں کی مانند میڈیا پر لا کر بد دیانت اور مجرم ہونے کا اقرار کروایا گیا اور جس نے عالمی سطح پر پاکستان کے نیوکلیر پروگرام کا ایسے مدلل انداز میں دفاع کیا کہ دنیا کے بڑے بڑے حکمران انکی دلیل و منطق کے سامنے ہار مان گئے اس صنف نازک بے نظیر کو ملک کو بین الاقوامی سطح پر با عزت مقام دلوانے کے جرم میں سڑک پر آگ و خون میں نہلا کر لقمہ ء اجل بنا دیا گیا ۔ ملک کو ایٹمی قوت بناے کے آخری مجرم میاں نواز شریف ہیں جنکے جرائم کی فہرست یوں تو بہت طویل ہے مگر انکے زوال کا بڑا سبب وہی ایٹمی دھماکے تھے جن کے نتیجے میں مملکت خداداد دنیا کے نقشے پر ایٹمی قوت کے طور پر لکھی اور پکاری جانے لگی تھی لہذا دو تہائی اکثریت سے منتخب ہونے والی حکومت کو ایک کمانڈو چھاتہ بردار نے فضائی حملہ کر کے تہس نہس کرتے ہوئے آئین و قانون یر غمال بنالیا اور آئینی وزیر اعظم کو ہتھکڑیاں پہنا کر زندان میں ڈال کر High treason یعنی سنگین بغاوت کا مقدمہ چلایا جسکے نتیجے میں مجرم کو دو بار عمر قید ، مجموعی طور پر 69سال قید با مشقت ہمیشہ کے لیے نااہل اور جرمانے کی سزائیں سنا دی گئیں مگر اسکے باوجود کمانڈو صاحب کو ملکی سر حدوں کے اندر مجرم کا وجود بوجھ محسوس ہونے لگاجس سے جان چھڑانے کے لیے انھیں جلا وطن کر دیا گیا ۔بے نظیر بھٹو پر پہلے ہی ناکردہ گناہوں کی پاداش میں عرصہ ء حیات اتنا تنگ کر دیا گیا تھا کہ کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والی بی بی غیر اعلانیہ جلا وطنی اختیار کر چکی تھی لہذا کمانڈو صاحب نے ایٹمی ملک کی اندھیر نگری میں چوپٹ راج قائم کرنے کے لیے آمروں کے نسلی وفادار شیخ رشیدوں اور ظفراﷲ جمالیوں پر مشتمل سیاسی "لگڑ بگڑ"کا ایک ایسا لشکر تیار کیا جو برسات کے مینڈکوں کی مانند آواز کے ساتھ آواز ملاتے ہوئے اتنی عقیدت اور نیاز مندی کے ساتھ" مشرف بہ پرویز "ہوا جیسے اسکے ہاتھ میں کوئی آسمانی صحیفہ ہو ۔سید پرویز مشرف کے دست "حق پرست "پر بیعت کرنے والوں میں موجودہ دور کے خیالی "مہاتیر" جناب عمران خان اور خود ساختہ شیخ الاسلام طاہر القادری کینیڈی وہ مجاہدین تھے جو مارشل لا کے د نیوی و ا خروی "فیوض و برکات " عو ام الناس کو سمجھانے کے لیے باقاعدہ پمفلٹ اور پوسٹر ز چھپوا کر کوچہ و بازار میں پھیل گئے اور اسکے بدنام زمانہ ریفرینڈم کو کامیاب کروانے کے لیے دن رات ایک کر دیا کیونکہ دونوں اپنی اپنی جگہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ شاید مشرف کی نظر کرم ان پر پڑجائے اور عقابوں کے مقبوضہ نشیمن پر ان زاغوں کو بٹھا دیا جائے مگر وہ اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ نسل در نسل آمروں کے ساتھ وفا داری نبھانے والوں او ر انکی اولادوں کی ایک طویل فہرست ہر آمر کی جیب میں ہوتی ہے جس سے ظفراﷲ جمالی جیسا تابع فرمان تلاش کیا جاتا ہے جس کی وفا داری کا یہ عالمہوتا ہے کہ وزیر اعظم کی کرسی سے بلا و جہ اتا ر دیے جانے کے باوجو د دیہاڑی دار کی طرح ایوان اقتدار سے نکلتے ہوئے مشرف کو سلوٹ کر کے یہ کہتے ہوئے گھرچلا جاتا ہے کہ" جناب آئیندہ بھی میرے لائق کوئی حکم ہوا ضروریاد فرمائیے گا" ۔پیدائشی گونگوں اور بہروں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئی اس حکومت کے دوران مشرف صاحب نے فرمایا کہ بے نظیر اور نواز شریف میری لاش سے گزر کر ہی اب اس ملک میں واپس آسکتے ہیں جیتے جی انکو نہیں آنے دوں گا مگر جسٹس افتخار چوہدری کے ایک انکا ر نے اندھیر نگری پر چوپٹ راج کی چولیں پلا دیں اور ظلم و جبر کی بنیادوں پر کھڑا اقتدار ریت کی دیوار ثابت ہو کر زمین بوس ہو گیا اور جلا وظن وزرائے اعظم اپنے ملک میں واپس آگئے ۔ بے نظیر کو صفحہ ء ہستی سے ہی مٹا دیا گیا کہ وہ اب عالمی سامراج کی آنکھوں کا بھی کانٹا بن چکی تھی مگر نواز شریف بجلی اور گئیس کی لوڈ شیڈنگکا کربناک عزاب جھیلنے والی گھپ انھیروں میں ڈوبیقوم کو روشنیوں کی طرف لے جانے، لاقانونیت اور دحشت گردی کی دہکتی آگ کے الاؤ میں جلکر ہزاروں کی تعداد میں لقمہ ء اجل بننے والی عوام کو امن اور آشتی کا گہوارہ بنانے، ملک کو ایٹمی قوت بنانے سٹاک ایکسچینج کو تاریخ کی بلند ترین سطح پر لے جانے غریبوں کے لیے مفت ادویات اور علاج عام کرنے میٹرو اور اوریج ٹرین جیسی دور رس اہمیت کی حامل سہولیات میعارف کروانے اور سی پیک جیسا منصوبہ شروع کرنے جیسے" سنگین جرائم" کی سزا بھگتنے کے لیے ملک کی سڑکوں پرخوار ہو رہا ہے اور یہی نہیں بلکہ عالم آب و گل سے رخصتی کے لیے زندگی کی آخری ہچکیاں لیتی رفیقہ حیات کو بستر مرگ پر الوداع کہہ کر ہتھکڑیاں پہننے کے لیے سینہ تان کر واپسی کی راہ لینے والے نا اہل، بد دیانت اور غدار کو نا معلومذید کتنا رسوا کیا جائے گا کیونکہ اس نے آئین و قانون کو بوٹوں تلے روندنے والے پر مقدمہ چلانے کی" حماقت "جو کی تھی لہذا وہ بھی ستر سالہ تاریخ کے قومی غداروں کو دی گئی سزاؤں کا حق دار ہے ۔

 

DR ABDUL HAMEED HAMID
About the Author: DR ABDUL HAMEED HAMID Read More Articles by DR ABDUL HAMEED HAMID: 14 Articles with 11035 views Professor Doctor of Biosciences, Quaid e azam University Islamabad.. View More