وادی آڑن کیل (آزاد کشمیر پاکستان)
بلندو بالا پہاڑ آسمانوں کو چھوتی ہوئی برف پوش خوبصورت چوٹیاں کشمیر کی
خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان چوٹیوں پر پاکستان کے سوہنے، قدآور،
نڈر، جرأت مند، اسلام کے مجاہد، دنیا کی بہترین فوج پاکستان کے بہترین
سپاہی جذبہ اسلام سے سرشار اپنی قوم کے دفاع کے لیے چیک پوسٹیں سجائے ہوئے
ہیں۔ تاکہ دشمن کی طرف سے نکلنے والی گولی پہلے مجھے سینے پر لگے اور میری
قوم اطمینان سے اپنی پر آسائش زندگی گزار ے اور بے فکری کی نیند سوئے۔
آڑن کیل آزاد کشمیر کا ایک بلند مقام ہے یہ وادی پہاڑ وں کی چوٹیوں کے
درمیان چوٹی پر نئی نویلی دلہن کی طرح خوبصورتی میں اپنا منفرد مقام رکھتی
ہے۔ انتہائی پر فضا مقام، جنت نظیر وادی اور دور دراز سے آنے والے سیاحوں
کے لیے ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ وادی آڑن کیل مظفر آباد سے تقریباً دو سو
اٹھائیس کلومیٹر ہے، آٹھ گھنٹہ کی مسافت، اونچائی تقربیاً بائیس سو چون
میٹر ہے۔
مجھے خود(قلمکار)کنٹرولر جوائنٹ فورسز پبلک سکول چیچہ وطنی اپنی فیملی کے
ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔ وادی آڑن کیل تک کا سفر سیاحت بھی ہے ایک ایڈونچر
بھی۔ یہ زمین راستہ کوئی خاص آرام دہ سفر نہیں ہے۔ لیکن وادی کشمیر دیکھنے
کی جگہ ہے ضرور جانا چاہیے۔
اپنی فیملی کے ساتھ چیچہ وطنی سے اسلام آباد پہنچے وہاں پہلے سے موجود ٹورز
پارٹی کے ساتھ تمام سفر اور دیگر سہولیات طے تھیں۔ فیض آباد سے پجارو۔ فرسٹ
ٹائم ان دیکھے معاملا ت طے ہوئے تھے ایک ذہنی خوف تھا۔ خیر اللہ کا نام لے
کر سفر شروع کیا، مظفر آباد پہنچ کر ناشتہ کیا۔ ناشتہ کرنے کے بعد دریائے
نیلم کے ساتھ ساتھ اپنی منزل کی طرف چل دئیے گرمی تھی اور ہوتی ہے کیونکہ
مظفر آباد پہاڑوں کے دامن گہرائی میں ہے۔ مختلف مقامات پر ٹھہرتے ہوے اور
نائٹ سٹے کرتے ہوئے آڑن کیل پہنچے۔ آڑن کیل تک پہنچے کے لیے کوئی گاڑی کا
رستہ نہیں۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے ایک ڈھولی نما چیئر لفٹ جو کہ زیر
نگرانی، انتطامات پاک آرمی سروس مہیا کرتی ہے۔ وہاں چیئر لفٹ میں بیٹھ کر
دوسری طرف پہاڑ پر پہنچے۔ اس جگہ سے آڑن کیل ہائیکنگ تقریباً پندرہ سو فٹ
اوپر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ جوان اور صحت مند سیاح تقریباً تیس سے پنتالیس منٹ
میں بآسانی ہائیکنگ کرتے ہوئے وادی آڑن کیل پہنچ جاتے ہیں جبکہ ذرا کمزور،
زیادہ عمر والے خاص طور پر لیڈیز کے لیے ذرا مشکل ہے۔ آکسیجن کی بھی کمی ہے
اور تھکاوٹ بھی ہو جاتی ہے۔ لہذا اپنے ساتھ پانی رکھیں اور آہستہ آہستہ
بغیر شرارتوں کے ہائیکنگ کرتے ہوئے اوپر چلتے جائیں۔ اوپر جانے اور پھر
واپس نیچے آنے کے لیے ہائیکنگ سٹک استعمال کریں۔ میرے گروپ میں بچے اور
جوان جلدی پہنچ گئے لیکن لیڈیز کی وجہ سے سفر مشکل ہو گیا پھر خاص کر بھاری
بھرکم جسم والی خواتین کے لیے سانس کا مسئلہ بھی بنتا ہے۔ خیر ہم وادی آڑن
کیل پہنچے۔ پہنچ کر جو جنت نظیر نظار ہ دیکھنے کوملا ہائیکنگ والی ساری
تھکاوٹ بھول گئے۔، سہنا موسم، خوبصورت لکڑی کے بنے ہوئے گھر اپنا الگ ہی
نظار پیش کر رہے تھے۔
وادی آڑن کیل کی دریافت کے متعلق وہاں کے رہائشی سے پوچھا! تو انہوں نے
بتایا کہ وادی کاغان سے مغل قبیلے کے چند لوگ آگئے انہوں نے ہی یہ رستہ
تلاش کیا اور جہاں آکر ٹھہرے۔ یہ ایک خوبصورت میدانی علاقہ ہے اس کے اردگرد
بلندو بالا پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔ آسمان کو چھو لینے والے درخت اپنی مثال آپ
ہیں۔ وہاں ایک ہیلی پیڈ بھی موجود ہے۔ جو ایمرجنسی کی صورت میں استعمال
ہوتا ہے۔ لکڑی سے تیار کردہ گھر، گیسٹ ہاؤسز، سرکاری سکول موجود ہیں۔ ناران
کاغان کی نسبت کھانے اچھے اور کم قیمت پرملتے ہیں۔ لوگوں کا حسن سلوک،
مہمانوازی اپنا علیحدہ مقام رکھتی ہے۔ وہاں پر چند قبریں بھی موجود ہیں جن
میں ایک قبر شہید کی بھی ہے جو کوئٹہ کے کسی مقام پر شہید ہوا۔ اللہ نے
فاتح پڑھنے کا بھی موقع دیا۔ الحمد اللہ۔وہاں گورنمنٹ سکول میں ہونے والی
مارننگ اسمبلی بہت اچھے انداز میں تھی۔ سب بچوں نے اونچی آواز میں قومی
ترانہ اور لب پہ آتی۔دعا پڑھی۔ ایک گورنمنٹ مڈل سکول کی عمارت بھی ہے جو
پختہ ہے (بلاک سے تیار کی گئی ہے)
وادی آڑن کیل پر ایک پرانی سی گاڑی کام کرتے ہوئے ملی تو پھر اسی بزرگ سے
پوچھا یہ گاڑی یہاں کیسے پہنچی تو انہوں نے بتایا کہ دریائے نیلم کا پانی
کم ہوتا ہے تو اس وقت اس گاڑی کو کھول کر، پرزہ پرزہ کر کے اوپر لائے اور
پھر جہاں آکر پھر اس کو جوڑا گیا۔وہاں ایک ٹریکٹر نظر آیا شاید وہ بھی ایسے
ہی آیا ہو گا۔
یونیفارم میں دو فوجی جوان نظر آئے میں بھاگ کر ان کے پاس گیاادب سے سلام
کہا، کیوں وہ میرے اور میر ی قو م کے محافظ تھے، ان سے چند سوالات کئے۔ ایک
سوال یہ تھا کہ آپ کو اپنی چیک پوسٹ آتے ہوئے کتنا وقت لگا انہوں نے کہا
پیدل آتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا ابھی نیچے ہائیکنگ کرتے ہوئے واپس یونٹ
میں پہنچنا ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ ہم نے آڑن کیل نائٹ اسٹے
کیا صبح واپسی کے لیے چل دئیے۔ بارش ہونے سے ہائیکنگ خطرناک ہوتی ہے۔ اس کا
خیال رکھا جائے۔ وادی آڑن کیل ایک بہت ہی خوبصورت وادی ہے ضرور جانا چاہیے
وہاں کم از کم دودن قیام کریں خوب انجوائے کریں۔
دو دن اور ایک رات وہاں ٹھہرنے اور مظفر آباد سے آڑن کیل تک کے سفر سے جو
نتیجہ اخذ کیا اس پر اہل ثروت، سرمایہ داروں اور تاجر حضرات کو مشورہ دینا
چاہوں گا پسند آجائے تو مہربانی ورنہ مشورہ واپس۔ کشمیر میں رہنے والوں کی
زندگی اور خوشحالی دیکھ کر انداز ہ ہوتا ہے کہ کوئی خاص نہیں۔ بچے مانگے پر
مجبور ہیں۔ تعلیم کا شوق ہونے کے باوجود روزگار کی زیادہ فکر ہے۔ کیونکہ
وہاں کوئی چھوٹی موٹی انڈسٹری نظر نہیں آئی۔ میری سرمایہ داروں سے درخواست
ہے کہ مظفر آباد سے لے کر دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ چند دن کا سروے کیا
جائے اور وہاں کے حالات کے مطابق سمال انڈسٹریز کو فروغ دیا جائے تاکہ وہاں
کی عورتیں یا بچے بچیاں ایک محفوظ مقام پر ایک معقول معاوضہ پر اپنی خدمات
سر انجام دیتے ہوئے روز گار حاصل کریں۔ ان سمال انڈسٹریز سے تیار شدہ مال
مظفر آباد، یا پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں فروخت کرے ایک کاروبار کیا جا
سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہم سب کو توفیق دے کہ ہم
وادی کشمیر اور پاکستان کے دیگر پر فضا مقامات کی سیر کو جائیں اس سے نہ
صرف پاکستان کی علاقائی، جغرافیائی معلومات ملیں گی بلکہ وہاں کے رہنے
والوں کا طرز زندگی کا علم ہو گا اور ان کے مسائل کا بھی۔ سیاحوں، ٹورز،
ٹورزم کی بدولت وہاں کے لوگوں کے لیے ایک چھا خاصا سرمایہ خرچ ہو گا جو ان
مقامی لوگوں کے لیے بہتر ثابت ہو گا۔
|