باجوڑ سے نکلتے ہوئے تقریباً 11بج چکے تھے جب ہم نے کیلاش
کی طرف سفر کا آغازکیا۔ پہاڑوں کے حسیں اور دشوارگزار راستے ہمارے منتظر
تھے۔ خان صاحب کے دعوؤں کے عین مطابق پولیس کانظام دیگر صوبوں کے پولیس کے
نظام سے بہت بہتر تھا،نہ کسی کو تنگ کیا جاتا ہے اور نہ ہر موڑ پے رشوت خور
پولیس کھڑی نظر آتی۔
اپردیر سے آگے راستہ انتہائی پُر خطر ہے۔ کچھ دیر بعد لواری ٹنل کا دیدار
نصیب ہوا۔ یہ ایسا عجوبہ ہے جس کا سنگ بنیاد آج سے چالیس سال پہلے رکھا گیا
تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سنگ بنیاد رکھا اور ایک سال پہلے سابق وزیراعظم
نوازشریف نے نو کلومیٹر پر محیط اس ٹنل کا افتتاح کیا۔ ٹنل کے افتتاح سے
پہلے چترال کے لوگ کم ازکم چھ مہینے کیلئے پاکستان سے جدا ہوجاتے تھے۔
پاکستان میں داخلے کے لیے افغانستان کا باڈر استعمال کرنا پڑتا تھا۔ٹنل کے
بعد روڈ کی حالت انتہائی خراب ہے۔ یہ وادی کیلاش اور چترال جانے والا واحد
راستہ ہے۔ اس روڈ پر گاڑیاں بھی جواب دے جاتی ہے عصر کا وقت داخل ہوجانے کے
بعد بھی ہمارا سفر جاری تھا ہم نے ارادہ وادی کیلاش جانے کا کیا تھا لیکن
ہم چترال پہنچ گئے۔ چترال بھی نہایت حسین مناظر کا حامل تاریخی شہر ہے ہم
نے رات کیلئے دریا کے کنارے ہم نے ایسے ہوٹل کا کمرہ بک کروایا جہاں سے
پورابازار آپ کے قدموں میں نظر آتا ہے۔رات گئے ہم دلفریب نظاروں اور ٹھنڈی
ہواؤں سے لطف اندوز ہوئے۔صبح ہوتے ہی تمام دوست تروتازہ ناشتے کی ٹیبل پر
موجود تھے اور ہر بندہ ایک ہی موضوع پر بات کررہا تھا۔ کافرستان مطلب کیلاش
کیسا ہوگا۔ وہاں کی ثقافت وہاں کی حسین جنت اور حسیناوؤں کا تذکرہ زبان
زدعام تھا۔ قدیم ترین تہذیب اور ثقافت سے بھرپور کیلاش کے خطہ کو پوری دنیا
میں ایک خاص مقام حاصل ہے تاریخ کے اوراق ٹٹولنے کے بعد آخری نقطہ یہ ہے کہ
اس میں دو آراء ہیں بعض لکھتے ہیں کہ یہ سکندراعظم کے سپائیوں کی اولاد ہیں
ایک اور رائے یہ ہے کہ یہ لوگ افغانستان کے ضلع نورستان سے اس وقت ہجرت
کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جب غازی آمان اﷲ خان نے نورستان پر حملہ آور ہوئے
اور ان کو اسلام کے طرف دعوت دی ان میں سے کچھ مسلمان ہوگئے جبکہ باقی
قبیلے نے اس علاقے کے طرف ہجرت کرلی ، یہ رائے تحقیق پر مبنی لگتی ہے۔
حقیقت جو بھی ہے لیکن کیلاش قبیلے کے انہونہی رسم و رواج دنیا کو ورطہ حیرت
میں ڈال رکھا ہے۔
ہم وادی کیلاش میں داخلے کے راستے کے طرف موڑ چکے تھے راستے میں پہلا اور
آخری گاؤں ایْون ہے ہم ایْون میں داخل ہورہے تھے ۔ایون دریائے چترال کے
کنارے آباد ایک خوبصورت گاؤں جو کہ مقامی لوگوں کے مطابق اکثر سیلاب کی زد
میں رہتا ہے۔رسوں سے لٹکتے لکڑی کے پُل پہ جیسے ہی ہماری گاڑی کا وزن پڑا
تو تختوں سے بنا پُل چر چڑکرنے لگا ڈولتے پل کو جیسے ہی گاڑی نے کراس کیا
تو دوسری جانب پولیس والوں نے خندہ پیشانی سے استقبال کیا ان سے اپنی منزل
کا راستہ معلوم کیا اور ایْون کے کچے پکے راستوں سے گزرتے ہوئے بمبوریت کی
طرف روانہ ہو گئے۔ قدرت کے حسین نظاروں سے بھرپور اور مشینی دنیا سے میلوں
دور کیلاش کا یہ علاقہ کسی شاہکار سے کم نہیں۔نیلے پانیوں، گہری سبز آنکھوں،
اجلے چہروں کو اپنی آنکھوں اور دماغ کے میموری میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کرنے
کے لئے کم و بیش بیس گھنٹے کے انتہائی دشوار گزاراور مسلسل سفر کے بعد لا
تعداد آرمی،ایف سی،لیویز اورپولیس چیک پوسٹوں پہ اندراج کروانے اور ان
پرخطر علاقوں سے ڈھلتے سورج کے سائے میں لواری ٹاپ کے پرخطر اور آسمان کو
چھوتے برفانی پہاڑوں کی بلندیوں سے گزرتے ہوئے بالآخر پریوں کے اس دیس میں
جا پہنچا جسے لوگ کافرستان کے نام سے جانتے ہیں۔
کافرستان جو کہ تین وادیوں پہ مشتمل مسکن ہے، ان نیلی و سبز آنکھوں والے
کافر چہروں کا،جنہیں لوگ کیلاش کے نام سے جانتے ہیں۔ نیلے پانیوں کی، سبز
آنکھوں کی،شفق چہروں کی، اجلی پیشانیوں کی، رنگوں کی، زندگی کی اور انہی
رنگوں اور زندگی میں اس طلسمی سرزمین پہ آ نکلا جسے لوگ کافرستان اور جس
میں بسنے والوں کوکیلاش کہتے ہیں۔ کیلاش کا علاقہ تین وادیوں پر مشتمل
ہے۔بمبوریت ، رمبور اور بریر۔بمبوریت سب سے بڑا گاوں ہے،جہاں مسلمان اور
کافر دونوں آباد ہیں، اسکے بعد دوسری وادی رمبور آتی ہے، جہاں مسلمان کم
اور کافر زیادہ ہیں، تیسری وادی بریر کافی دور ایل چوٹی پہ واقع ہے، جہاں
بہت کم کیلاش ہیں۔انتہائی ملنسار اور مہمان نواز لوگ جو کہ اپنی غربت و
افلاس والی مشکل اور انتہائی سادہ طرز زندگی کے باوجود خوش اور مطمئن نظر
آتے ہیں۔سال میں ان کے کئی تہوار ہیں جنہیں یہ لوگ نہایت پابندی سے مناتے
ہیں ان میں سے چلم جوش جسے مقامی لوگ چلم جوشٹ بھی پکارتے ہیں سب سے اہم
اور خوبصورت ہوتا ہے جس کو دیکھنے کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا سے
لوگ کیلاش کا سفر کرتے ہیں۔ موسم بہار کے آغاز سے پہلے ہی چلم جوش کی
تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ تہوار کے آخری تین دنوں میں جب تمام کیلاشی
بمبوریت میں اکٹھے ہوتے ہیں اور جشن منایا جاتا ہے۔ دوسرا تہوار اچل ہے یہ
تہوار کیلاش میں گندم اور جو کی کٹائی کے موسم میں ہوتا ہے۔ ان دنوں میں
خصوصی طور پر رقص اور کھانے پینے کی محافل کا انتظام کیا جاتا ہے۔جبکہ ایک
اور تہوارچاؤ ماؤس ہے چاؤ ماؤس کیلاشی قبائل کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے جو
کہ نئے سال کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ چاؤ ماؤس کی تقریبات کا آغاز
دسمبر کے آخری ہفتے میں ہو جاتا ہے۔کیلاشی قبائل میں خواتین بھی بہت اہم
اور منفرد مقام رکھتی ہیں۔ کیلاشی خواتین روزمرہ کے گھریلو کاموں کے
علاوہکاشتکاری، مویشیوں کی دیکھ بھالکرنے میں بھی پیش پیش ہوتی ہیں۔ عمومی
طور پر خواتین کالا لباس، مخصوص قسم کے ہار اور ٹوپیاں پہنتی ہیں جو مقامی
طور پر ہی تیار کی جاتی ہیں۔چلم جوش کے آخری دن لڑکے اور لڑکیاں اپنا جیون
ساتھی منتخب کرتے ہیں۔ اور موقع پر ہی ان کی شادی کی رسومات ادا کر دی جاتی
ہیں۔
کیلاش مذہب میں خدا کا تصور تو ہے مگر کسی پیغمبر یا کتاب کا کوئی تصور
نہیں۔انکے مذہب میں خوشی ہی سب کچھ ہے وہ کہتے ہیں جیسے کسی کی پیدائش خوشی
کا موقع ہے اسی طرح اسکا مرنا بھی خوشی کا موقع ہے۔چنانچہ جب کوئی مرتا ہے
تو ہزاروں کی تعداد میں مردوزن جمع ہوتے ہیں- ہمارے گائیڈ کا بیان تھا کہ
میت کو ایک دن کے لئے کمیونٹی ہال میں رکھدیا جاتا ہے، مہمانوں کے لئے ستر
سے اسی بکرے اور آٹھ سے دس بیل ذبح کئے جاتے ہیں اور شراب کا انتظام کیا
جاتاہے ۔تیار ہونے والا کھانا خالص دیسی ہوتا ہے۔آخری رسومات کی تقریبات کا
جشن منایا جاتا ہے ۔ان کا عقیدہ ہے کہ مرنے والے کو اس دنیا سے خوشی خوشی
روانہ کیا جانا چاہیے۔جشن میں شراب، کباب، ڈانس اور ہوائی فائرنگ ہوتی
ہے۔مرنے والے کی ٹوپی میں کرنسی نوٹ، سگریٹ رکھی جاتی ہے- پرانے وقتوں میں
وہ مردے کو تابوت میں ڈال کر قبرستان میں رکھ آتے تھے، آج کل اسے دفنانے کا
رواج ہے کیلاش میں ہونے والی فوتگی خاندان کو اوسطاَ تین ، چار لاکھ میں
پڑتی ہے جبکہ یہ کم سے کم سات لاکھ اور زیادہ سے زیادہ دس بارہ لاکھ تک بھی
چلی جاتی ہے۔فوتگی کی طرح انکے ہاں شادی اور پیدائش بھی حیران کن ہے- لڑکے
کو لڑکی بھگا کر اپنے گھر لیجانی ہوتی ہے۔ لڑکے کے والدین لڑکی کے والدین
اور گاؤں کے بڑوں کو اس کی خبر کرتے ہیں جو لڑکے کے ہاں آکر لڑکی سے تصدیق
حاصل کرتے ہیں کہ اسکے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی گئی بلکہ وہ اپنی مرضی سے
بھاگی ہے، یوں رشتہ ہو جاتا ہے ۔اسکے بعد دعوت کا اہتمام ہوتا ہے جس میں
لڑکی والے بطور خاص شرکت کرتے ہیں۔شادی کے چوتھے دن لڑکی کا ماموں آتا ہے
جسے لڑکے والے ایک بیل اور ایک بندوق بطور تحفہ دیتے ہیں، اسی طرح دونوں
خاندانوں کے مابین تحائف کے تبادلوں کا یہ سلسلہ کافی دن تک چلتا ہے۔حیران
کن بات یہ ہے کہ پیار ہونے پر شادی شدہ خاتون کو بھی بھگایا جا سکتا ہے اگر
وہ خاتون اپنی رضامندی سے بھاگی ہو تو اسکے سابقہ شوہر کو اعتراض کا کوئی
حق نہیں پہلا بچہ پیدا ہونے پر زبردست قسم کی دعوت کی جاتی ہے جس میں بکرے
اور بیل ذبح ہوتے ہیں۔یہ دعوت ہوتی لڑکی والوں کے ہاں ہے مگر اخراجات لڑکے
والوں کو کرنے ہوتے ہیں۔اگر پہلے بچے کے بعد اگلا بچہ بھی اسی جنس کا ہوا
تو یہ سب کچھ اس موقع پر بھی ہوگا یہاں تک کہ اگر مسلسل صرف لڑکے یا صرف
لڑکیاں ہوتی رہیں تو یہ رسم برقرار رہیگی، اس سے جان تب ہی چھوٹ سکتی ہے جب
مخالف جنس کا بچہ پیدا ہو۔اگر کیلاش لڑکے یا لڑکی کو کسی مسلمان سے پیار ہو
جائے تو شادی کی واحد صورت یہی ہے کہ کیلاش کو اسلام قبول کرنا ہوگا خواہ
وہ لڑکا ہو یا لڑکی حالیہ عرصے میں شادی سے قطع نظر کیلاش لڑکیوں میں اسلام
تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ان وادیوں میں پیدا ھونے والا بچہ رہتا تو کافرستان
میں ہی ہے لیکن اسے پیدائش کے ساتھ ہی کوئی یورپین گود لے لیتا ہے اور وہ
اسکے لئے ہر ماہ رقم بھیجتا رہتا ہے ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟اسے سمجھنا مشکل
نہیں- وادی کیلاش میں جس چیز نے مجھے نہایت رنجیدہ کیا وہ اس علاقے میں آنے
والے مسلمان نوجوان سیاح تھے جو کھلم کھلا کیلاشی خواتین کا بنایا جانے
والا شراب پیتے ان کے ساتھ بے ہودہ حرکتیں کرنے میں کھلے عام مصروف نظر آتے
دوسری بات یہاں کے لوگ سیاحوں سے بھیک کے عادی ہوگئے ہیں ان سے بات کرنے
کیلئے بھی آپ کو پیسے دینے پڑیں گے ان کے بچے راہ چلتے آپ کو پیسے دو پیسے
دو کے آوازوں سے تنگ کردیں گے۔محکمہ ثقافت اور سیاحت سے پرزور اپیل ہے کہ
اس معاملے کے حل کیلئے سنجیدگی کے ساتھ سوچیں اور کوئی راہ نکالیں۔ کیلاش
میں کئی گھنٹے گزارنے اور گھوم پھرنے کے بعد ہمارا یہ سفر رات گیارہ بجے
باجوڑ پہنچ کر بخیروعافیت ختم ہوا۔ قدرت کے حسین نظارے دیکھنے ہیں تو کیلاش
ضرور جائیں۔
|