وزیراعلیٰ اور جنوبی پنجاب!

عمران خان کے فیصلے نے سب کو چونکا دیا، کسی کا اندازہ نہیں تھا کہ پنجاب کے پسماندہ ترین علاقہ سے اس صوبے کا سربراہ منتخب کر لیا جائے گا۔ غیر روایتی سیاست کا یہ واقعی اہم فیصلہ تھا۔ اس کے لئے انہوں نے بعض میرٹ بھی بیان کئے۔ اُن کے گھر میں بجلی نہیں، وہاں نہ سڑکیں ہیں، نہ سکول اور نہ ہی ہسپتال۔ اور یہ بھی بتایا کہ اپنے نمائندہ پر مجھے اعتماد بھی ہے اور اس کے اخلاص پر بھی کوئی شک نہیں، یہ فیصلہ نہایت سوچ وبچار کے بعد کیا گیا ہے۔ خان صاحب کے اس ’چھکے‘ کے بعد سب سے پہلا تاثر یہی ابھرا کہ نئے آنے والے وزیراعلیٰ پنجاب نام کے تو تنہا وزیراعلیٰ ہوں گے، مگر ان کے اوپر اور دائیں بائیں مرئی اور غیر مرئی مشیروں کی بھیڑ رہے گی، مشیر بھی ایسے جو صرف مشورہ ہی نہیں دیں گے بلکہ فیصلہ سازی میں حکم کے قریب درجہ رکھتے ہوں گے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ موصوف خود بھی کچھ فیصلے کرنے کی پوزیشن میں آجائیں۔ مگر ایک پسماندہ تحصیل کا ناظم ہونے کا تجربے اور ایک بہت وسیع اور بڑا صوبہ چلانے کا معاملے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی باقاعدہ نامزدگی کے بعد جب میڈیا کے سامنے ان کی رونمائی ہوئی، تو دلچسپ مناظر دیکھنے کو ملے۔ ان سے کوئی بھی سوال کیا جاتا تو ان کے دائیں بائیں اور پیچھے کھڑے لوگ بولنے لگ جاتے۔ شاید انہیں یہ خدشہ تھا کہ بھائی صاحب کی زبان نہ پھسل جائے، یا لقمہ دینے والے یہ سمجھتے تھے کہ وہ نامزد وزیراعلیٰ سے زیادہ بہتر جواب دے سکتے ہیں۔ خیر وقت بہت کچھ سکھا دے گا۔

وزیراعلیٰ کے بارے میں عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ اس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا، جہاں تک اُن پر مقدمات کا مسئلہ ہے تو ایسی پٹاریاں چند روز تک کھلتی رہیں گی، معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ تاہم ایک نظر دیکھنے سے ہی موصوف بہت متحرک، معاملہ فہم، تیز اور متاثر کن شخصیت کے حامل دکھائی نہیں دیتے۔ اس کا پہلا ثبوت وہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ وہ میڈیا کے جواب کے لئے بھی ہمسایوں کے محتاج تھے، ان کا پہلا تاثر بہتر کرنے کے لئے ان کی پہلے سے تربیت تو کی جاسکتی تھی، عین میڈیا کے سامنے اُن کے منہ میں الفاظ ڈالنا مناسب عمل نہیں تھا، موصوف نے بھی مشیروں کو مایوس نہیں کیا، ان کی بات سنی اور وہی دہرا دی۔ عمران خان کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب پر انہیں پورا اعتماد ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ عثمان بزدار حالیہ دو دہائیوں میں تیسری پارٹی جوائن کر چکے ہیں (یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی کے لئے پارٹی بدل کر آنے والے ایشو کی کوئی اہمیت نہیں رہی) تاہم چند ماہ قبل پارٹی میں آنے والوں پر اس قدر اعتماد کرنا بڑی ہمت کی بات ہے، شاید اس ہمت کے پیچھے کوئی راز بھی پوشیدہ ہو۔ باصلاحیت لوگ دوسروں کو اپنے ساتھ چلاتے ہیں، مگر جن میں صلاحیت کا فقدان پایا جائے تو اسے دوسرے ہی راستہ دکھاتے ہیں، کوئی اس کے کان میں بات کرتا ہے، کوئی اس کو آنکھوں سے اشارے کرتا ہے، کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر چلاتا ہے۔ بہاول پور سے تعلق رکھنے والا ان کا ایک ساتھی ایم پی اے کہ جنہوں نے اپنی نوجوانی میں ن لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی اے بننے کا اعزاز حاصل کرلیا تھا، برے وقتوں میں بھی وہ پارٹی کا وفادار رہا، نواز شریف کی 1999ء والی حکومت میں اپنے وزیراعظم کے حق میں عدلیہ مخالف تقریر کرنے کی پاداش میں نااہل ہوا،13ء کے الیکشن میں اس کی زوجہ کو خواتین کی مخصوص نشستوں پر ایم پی اے بننے کا اعزاز بھی ملا، اب یکایک جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے جہاز پر بیٹھ کر پی ٹی آئی میں ضم ہو گیا ہے، وہ بھی بہاول پور اورجنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں وزیراعلیٰ کے سے اختیار ہی استعمال کرے گا۔

بجلی، سڑک، سکول اور ہسپتال نہ ہونا میرٹ نہیں، یہ نہ صرف عثمان بزدار کی نااہلی ہے بلکہ اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ان کی بصیرت کہاں تک دیکھ سکتی ہے، آیا مقامی فیصلوں اور لوگوں سے میل جول ہی سیاست ہے؟ یا اختیار ملنے کے بعد علاقے کے لوگوں کے لئے ضروری اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا فرض بھی ادا کرنا ہوتا ہے؟ اگر موصوف کے والد بھی متعدد مرتبہ ایم پی اے رہے ہیں اور خود بھی ایک تحصیل کے ناظم ہوتے ہوئے علاقے کے لئے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کر سکے تو ڈیڑھ سو کے قریب تحصیلوں پر مشتمل صوبے کو کیسے چلائیں گے؟ ویژن کیا ہوتا ہے، اگلے پچیس تیس سالوں کو نگاہ میں رکھ کر منصوبہ بندی کیا ہوتی ہے؟ یہ اُن کی بلا جانے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اُن کے وزیراعلیٰ کو علم ہے کہ لوگ غربت کی زندگی کیسے بسر کرتے ہیں، واقعی یہاں تک تو سچ ہے، مگر وہ خود کروڑ پتی ہی ہیں، انہیں تمام تر سہولتیں میسر ہیں جو پسماندہ علاقوں میں چھوٹے بڑے جاگیر داروں کے پاس ہوتی ہیں۔ وزیراعلیٰ کے لئے چاہیے تو یہ تھا کہ وہ مڈل کلاس کا آدمی ہوتا، متحرک اور بابصیرت ہوتا۔ اس کا پارٹی کے ساتھ کچھ سالوں کا ساتھ ہوتا۔ مگر یہاں سب کچھ مختلف ہے، شاید یہی تبدیلی ہے۔ اندازہ یہی لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ کو لاہور میں گورنر پنجاب چوہدری سرور کی بھر پور ’’مشاورت‘‘ حاصل رہے گی۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں ہی موصوف تحصیل ناظم تھے، اس لئے اُن کا دستِ شفقت (عمر میں بڑے اور پرانے باس ہونے کے ناطے) بھی حاصل ہوگا۔ یہ دونوں عہدے تو غیر جانبداری کا تقاضا کرتے ہیں کہ مشاورت اور شفقت سب کے سامنے نہیں ہو سکتی، اس لئے ظاہر میں بھی یہ کام کرنے والے موجود ہوں گے، جن میں علیم خان اور لاہور سے دیگر ممبران اسمبلی ہوں گے۔ جنوبی پنجاب میں بھی سرپرستی کرنے ، کانوں میں پھونکیں مارنے اور ہر وقت چِپکے رہنے والے ممبران کی کمی نہیں۔ یوں موصوف کو خود سوچنے اور کچھ کرنے کا موقع کم کم ہی ملے گا۔ جبکہ ان کا واسطہ گزشتہ ایک عشرہ تک یہاں حکومت کرنے والے شہباز شریف کے معاملات سے ہے۔ سب سے آخری اور اہم بات یہ کہ پی ٹی آئی نے تو جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے، اس کا کیا بنے گا؟ جواز موجود ہے کہ اسمبلی میں قانون سازی کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں اس لئے عملی طور پرفی الحال صوبہ نہیں بن سکتا ہے، جنوبی پنجاب کو وزیراعلیٰ دے دیا ہے، اسی پر اکتفا کریں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 424505 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.