نادر آج پھر فرزانہ پر چیخ و پکار کرنے میں مصروف تھا ۔اس
کی آنکھیں غصے سے ابلی ہوئی تھیں ۔اس کی زبان سے مغلظات کا ایک طوفان نکل
رہا تھا ۔ اس کی تینوں بیٹیاں ڈر کر کمروں میں دبکی ہوئی تھیں ۔
آج پھر ان کے گھر میں معمول کا جھگڑا ہورہا تھا ۔ نادر اپنے بیوی بچیوں سے
زبانی کلامی محبت کا دعویدار تو تھا، مگر بیوی بچیوں کی جائز ضروریات پوری
کرنے کے لئے ان کو تڑپاتا ۔ بچیوں کی اسکولوں کی فیسوں کے لئے اتنی دیر
کردیتا کہ بچیوں کو اساتذہ اور دوسرے بچوں کے سامنے انتہائی شرمندگی کا
سامنا کرنا پڑتا ۔ وہ گھر والوں کے موسمی کپڑوں کو بھی ٹالتا رہتا ۔اکثر
اوقات اس کے گھر والے بدرنگ اور گھسے ہوئے کپڑوں میں وقت گزارتے ۔ کھانے
پینے میں بھی اس کی کنجوسی کمال پر تھی ۔گلی سڑی سبزیوں، سستے پھلوں اور
برائیلر مرغی کے علاوہ ان کے گھر اور کسی نعمت کا داخلہ ممنوع تھا ۔ وہ
صدقات وخیرات، زکوات کو بھی پیسے کا ضیاع سمجھتا۔اس کی تمام کمائی اس کے
پان سگریٹ، ہوٹلوں کے کھانوں، ریشمئ ملبوسات اور پرائی عورتوں کے عشوہ
طرازی پر اڑتی ۔
فرزانہ ایک کفایت شعار اور قناعت پسند عورت تھی۔وہ بچیوں کو بھی سمجھانے کی
کوشش کرتی، مگر بچیاں روز بروز نادر سے دور ہوتی جارہی تھیں۔
آج بھی وین والے نے کرایہ ادا نہ کرنے پر چھوٹی بیٹی کو اسکول لے جانے سے
انکار کیا ، تو فرزانہ نے نادر کو سوتا سمجھ کر اس کے بٹوے سے پیسے نکال کر
وین والے کو دے دئیے ۔نادر اٹھ کر تیار ہوا جیسے ہی بٹوا چیک کرنے پر اس کو
پیسے جانے کا ادراک ہوا تو اس نے لڑائی جھگڑا شروع کردیا ۔
آج نادر نے اخلاق باختگی کی تمام حدود پار کردیں ۔
تو آج فرزانہ کی ہمت بھی جواب دے گئی اور وہ بچیوں کو لے کر اپنی بیوہ ماں
کے پاس چلی گئی ۔
شروع کے دنوں میں تو نادر کو بیوی بچیوں سے جان چھٹ جانے کی خوشی ہی بہت
تھی۔اب اس کی آمدنی میں کسی کا حصہ نہیں تھا ۔
وہ سگریٹ پان کھل کر استعمال کرتا، ہوٹلوں سے مرغن کھانے کھاتا، مگر رفتہ
رفتہ اس کا دل ہر چیز سے اکتانے لگا ۔گھر میں ویرانی بڑھتی گئی ۔گندے کپڑوں
اور گندے برتنوں کے ڈھیر لگ گئے ۔دیواروں سے جالے لٹکنے لگے ۔اس کو اپنی
سگھڑ بیوی یاد آنے لگی، اس کو معصوم بیٹیوں کی چہکاریں یاد آتیں ۔ اس کا
ضمیر اس کو کچوکے لگاتا، مگر شیطان اس کی کمر تھپکتا ۔
آج دل بٹانے کے لئے اس نے ٹی وی چلا لیا، ٹی وی پر مولانا صاحب بخیل اور
بخل پر قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرما رہے تھے ۔نادر نے بھی ان کو
سننا شروع کردیا ۔
مولانا صاحب فرما رہے تھے ۔
ولایحسبن الذین یبخلون بما اتھم اللہ من فضلہٖ ھوخیراً الھم بل ھوشرلھم
سیطوفون مابخلوبہ یوم القیمۃ وللہ میراث السمٰوت والارض واللہ بماتعملون
خبیر(ال عمران۳:۱۸۰سے ۱۸۲)
ترجمہ :جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی
کنجوسی کو اپنے لئے بہترخیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لئے نہایت بدترہے ،
عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے ،
آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کے لئے اور جو کچھ تم کر رہے ہو،
اس سے اللہ تعالیٰ آگاہ ہے یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قول بھی
سناجنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم تونگر ہیں ان کے اس قول کو
ہم لکھ لیں گے اور ان کا انبیا کو بے درجہ قتل کرنابھی، اور ہم ان سے کہیں
گے کہ جلنے والا عذاب چکھو!
مولانا صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بخیل کا بیان کیا ہے جو اللہ کے دیئے ہوئے مال
کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتاحتیٰ کہ اس میں سے فرض زکوٰۃ بھی نہیں
نکالتا حدیث میں ہے کہ قیامت والے دن اس کے مال کو ایک زہریلا اور نہایت
خوفناک سانپ بنا کرطوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ سانپ اس
کی بانچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرامال ہوں ، میں تیراخزانہ ہوں
(صحیح بخاری)
جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور
فرمایا: من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا(البقرۃ:۲۴۵)’’کون ہے جو اللہ کو
قرض حسنہ دے ‘‘ تو یہود نے کہا اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!تیرارب فقیر
ہو گیا ہے کہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے ؟ جس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت
نازل فرمائی(ابن کثیر)
واعبدواللہ ولاتشرکوابہ شیاوبالوالدین احسانا الذین یبخلون ویامرون الناس
بالبخل ویکتمون ما اتھم للہ من فضلہٖ واعتدنا للکفرین عذابامھینا
(النسآء۴:۳۶۳۷)
ترجمہ :اور اللہ کی عبادت کرواور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرواور ماں باپ
کے ساتھ حسن سلوک کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور
قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو ے کے ساتھی سے اور راہ
کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام کنیز) یقیناً اللہ
تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسندنہیں فرماتاجو لوگ خودبخیلی
کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو
اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں ہم نے ان کافروں کے لئے ذلت
کی مار تیارکر رکھی ہے
مولانا صاحب نے بات کا رخ بیوی کے نان نفقہ کی طرف موڑا اور بولے۔
عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔
بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا
گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے، ارشاد باری
تعالی ہے کہ:
عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ(البقرہ:۲۳۶)
خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق
معروف طریقے سے نفقہ دے۔
(۲) مہر: عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ
تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:
وَآتُواْ النَّسَاءَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن
شَیْْءٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْئاً مَّرِیْئاً(النساء: ۴)
عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے
کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاوٴ۔
نادر کا جسم خوف خدا سے کانپ اٹھا، اس کو اپنا رویہ اپنے گھروالوں کے ساتھ
یاد آیا۔ اس نے پہلی بار اللہ تعالی سے سچے دل سے معافی مانگی اور وہ الٹے
پیروں اپنی ساس کے گھر پہنچا اور اپنی بیوی، بچوں کو اس وعدے کے ساتھ گھر
لایا کہ آئندہ اس کے بیوی بچوں کو نان نفقے کے لئے ترسنا نہیں پڑے گا، بلکہ
وہ بغیر کہے ان کی ضروریات کو احسن طریقے سے پوری کریگا۔ نادر کو تو اللہ
تعالی نے راہ ہدایت دکھادی مگر آپ اور ہم کب راستی کا رستہ اپنائیں گے؟ |