وہ ایک وفاشعار بیوی تھی ۔اس کا خمیر وفا کی مٹی سے گندھا
ہوا تھا، اس کے لئے میاں کا حکم اس کی خوشی سب سے زیادہ اہم تھی ۔اللہ نے
اس کو چار خوبصورت بیٹیوں سے نوزا تھا۔ اس کی چوتھی بیٹی پیدائش کے کچھ
دنوں کے بعد اللہ کو پیاری ہوگئی ۔اپنے میاں کی طرح اس کے دل میں بھی رہ رہ
کر بیٹے کی خواہش انگڑائی لیتی ۔بہت منتوں اور مرادوں کے بعد اللہ نے اس کو
اولاد نرینہ سے نوازا ۔دونوں میاں بیوی اپنے ننھے شہزادے کی ہر خواہش کو
پورا کرنا اولین فرض سمجھتے ۔وقت کا پہیہ چلتا گیا ۔
وہ ایک کفایت شعار، سگھڑ عورت تھی ۔اس نے محدود آمدنی کے باوجود اپنی تینوں
بیٹیاں بڑی سلیقہ مندی سے متوسط گھرانوں میں بیاہ دیں ۔ بیٹیوں کی شادیوں
کے بعد اس کو اندازہ ہوا کہ اس معاشرے میں بیٹیوں کی ماں ہونا کتنی بڑی سزا
ہے۔ وہ اپنی بیٹیوں کا کوئی غم اپنے میاں سے بھی شئر نہ کر پاتی اس کی وجہ
اس کے میاں کی حکمرانہ فطرت تھی ۔مختلف دکھوں اور بیماریوں نے اس کو
کھوکھلا کرنا شروع کردیا ۔اس کی دو بیٹیاں بیرون ملک بس گئیں ۔اس کے اکلوتے
بیٹے کو بھی اس گھر میں سو سو کیڑے نظر آنے لگے جس کے باہر اس کے نام کی
تختی لگی تھی۔بیٹے کی ضد کے باعث اس کے میاں نے بیٹے کی شادی بیرون ملک
رہنے والی ایک لڑکی سے کر دی ۔ اب بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ زندگی کے مزے
کشید کرتا ۔یوں وقت کا پہیہ چلتا گیا اورمہینے سالوں میں بدل گئے ۔دونوں
میاں بیوی ضعیف سے ضعیف تر ہوتے گے۔بیماریوں اور تنہائی نے مل کر ان کو
کھوکھلا کرنا شروع کردیا ۔ان کی بیٹی جو ان کے شہر میں مقیم تھی وہ اپنے
سخت میاں کے باوجود حدالمقدور ان کی خدمت کرتی۔بیرون ملک مقیم بیٹا یا
بیٹیاں آتے بھی تو سال میں اک دفعہ بیس دنوں کے لئے آتے اور واپس لوٹ جاتے
۔ وہ اب ایک بھولا ہوا خواب تھی ۔اب وہ ایک ایسا ساز تھی جس کے تار ٹوٹ چکے
تھے ۔اس کے بیٹے کے پاس واپس نہ آنے کے انگنت بہانے تھے ۔اد کو احساس تھا
کہ بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں مجبور تھیں ، وہ اپنے میاں کے تابع تھیں اور
سونے پر سہاگہ یہ کہ کمائی کی ذمہ داری بھی ان کے شانوں پر تھی۔ مگر اس کا
جگرگوشہ جس کو آٹھ سال کی عمر تک وہ نوالے بنا بنا کر کھلاتی رہی ۔جس
کےپسندیدہ پکوان وہ بنا بنا کر وہ تھکتی نہ تھی ۔جس کے ایک ایک کپڑے کی وہ
استری سے شکنیں نکالتے ہوئے شکن دوپہروں میں اسے کبھی گرمی کا احساس نہیں
ہوا تھا ۔ آج اس بیٹے کے بہانے اس کو اپنے آپ سے شرمندہ کر دیتے ۔اس کا
میاں اور وہ روزبروز صاحب فراش ہوتے جاتے اور وہ روز یہ دعا کرتی:
یا اللہ! ہمیں محتاجگی سے بچانا۔
ایک روز اس کی بیٹی نے اس سے پوچھا:
امی! آپ بھائی کو خود واپس آکر اپنی خدمت کا حکم کیوں نہیں دیتیں؟
وہ دکھ سے بولی:
" دو ماں باپ مل کر دس بچے پال لیتے ہیں مگر دس بچے دو ماں باپ نہیں سنبھال
سکتے ۔
ریس میں بھاگنے والے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے ۔
جب کسی کو بول کر احساس دلانا پڑے تب اس سے بہتر خاموشی ہے۔"
اس کی بیٹی خاموشی سے ماں کے چہرے کو دیکھتی گئی ۔آج اس کو احساس ہوا کہ اس
کے والدین یہ ریس ہار چکے ہیں۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے دھندلی ہوتی گئیں۔
کیونکہ ماں باپ کی زندگی کا دیہ ٹمٹما رہا تھا اور اس کا اکلوتا بھائی
والدین کو ریس کی شروعات کے مقام پر اکیلا چھوڑ کر اکیلا دوڑتا جارہا
تھا۔بھیا کی نظریں اپنی آنے والی زندگی اور اس کے بچوں کے مستقبل پر تھیں
۔مگر اس کے پیچھے رہ جانے والوں کا اس کو احساس تک نہ تھا۔
صائمہ نے جھرجھری سی لی۔ اس کی ماں کی خالی آنکھیں اور خالی باہیں کس کی
منتظر تھیں ۔وہ جانتی تھی مگر اس کو پتا تھا کہ جب سورج ڈھلتا ہے تو صرف
سائے طویل القامت ہوجاتے ہیں۔لوگ مر جائیں تو صبر آجاتا ہے مگر احساس
مرجائے تو؟ |