ابھی تودنیا بھر سے نومنتخب حکومت کو مبارکبادی کے
پیغامات ہی مل رہے ہیں، اور ابھی توحکومت کا جیت کا خمار بھی نوبیاہتا
دُلہن کے ہاتھوں کی مہندی کی طرح نہیں اُترا ہے کہ اِس نے اپنی ذمہ داریوں
کا احساس کرتے ہوئے تھوڑی ہی عرصے میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔
حالانکہ ہماری ماضی کی حکومت کی روایت رہی ہے کہ یہ اپنے اقتدارکے ابتدائی
ایام کو ہنی مون پریڈ میں گزاردیاکرتی تھیں۔ مگر نومنتخب وزیراعظم عمران
خان کی حکومت نے اپنا وقت ہنی مون پریڈ میں ضائع کرنا کچھ مناسب نہیں سمجھا
۔اِسی لئے اپنے وژن کے اہداف کو جلد از جلدحاصل کرنے کے لئے وزیراعظم اپنی
کا بینہ کے ہمراہ دن رات اور چھٹیوں کے ایام میں بھی اپنے کفایت شعاری اور
خود انحصاری کے اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کے ساتھ ساتھ مُلک سے کرپشن کے
ناسورودہشت گردی کے خاتمے ، قومی اداروں اور سول ملٹری تعلقات کی بہتری
اوریورپی ممالک بالخصوص امریکااور خطے کے بھارت اور افغانستان جیسے دیگر
ممالک سے بھی خارجہ پالیسی کے حوالوں سے برابری کی سطح پر مذاکرات کرنے
سمیت اچھے تعلقات استوار کے لئے کمر بستہ ہیں ۔
مگرافسوس ہے کہ آج نومولود ، چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے بھرپور،رینگتی کھسکتی ،گرتی
سنبھلتی حکومت پر اپوزیشن اورسیاسی ناقدین کی بہت بڑی تعداد میں تنقیدوں کے
تیرچلاناکچھ سمجھ سے بالاتر ہے، ناقدین کا ایسا بے رحمانہ رویہ اِن کے
حکومت مخالف عزائم کا جہاں عکاس ہے؛ تو وہیں یہ بھی واضح کررہاہے کہ اِن کا
کام تو بس حکومت کے ہر اچھے کام میں رغنہ ڈالناہی رہ گیاہے۔جو کہ آج کرپشن
سے پاک راہ پر گامزن پاکستان جیسے قرضوں کے بوجھ تلے مُلک کے لئے اِس کی
ترقی اور خوشحالی سے دُشمنی کے مترادف ہے۔
اگرچہ ، پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں آئے دو ہفتے ہوچکے ہیں ،وفاق میں
وزیراعظم کے انتخاب اوروفاقی کابینہ کے کچھ وزراء کے چناؤ سمیت چاروں صوبا
ئی حکومتوں میں بھی حکومتی تبدیلی تکمیل کو پہنچ چکی ہے ،اَب بس صرف صدر کا
انتخاب باقی ہے۔ یقینا چارستمبر کو صدر کے انتخاب کے بعد حکومتی تبدیلی کا
عمل مکمل ہو جا ئے گا۔ایسے میں کیاتبدیلی کے پیاسوں کو بامقصد تبدیلی مل
گئی ہے؟ یا آنے والے سالوں میں تبدیلی کے تشنہ لبوں کو تبدیلی کے ثمرات مل
جا ئیں گے ؟جس تبدیلی کے تبدیلی کے خواہاں سترسال سے متلاشی تھے ۔آج یہ
سوالات ہر اُس پاکستا نی کی زبان پرمحورقص ہیں، جو 2013سے تبدیلی کا نعرہ
لگا نے والے عمران خان اور پی ٹی آئی کے پیچھے چل دیا تھا۔ اور 25جولا ئی
کو ووٹ کی پرچی سے تبدیلی لا نے کا ذمہ دار ٹھیرا ہے۔
آج جب یہی ووٹر پی ٹی آئی اور عمران خان کی دو ہفتوں کی حکومت کا بغور جا
ئزہ لے رہاہے ؛تو اِس میں شدت سے یہ احساس پیدا ہورہاہے کہ کیا واقعی جس
تبدیلی کے لئے اِس نے اپنا ووٹ عمران خان اورپی ٹی آئی کے ویژن کو دیا تھا؛
اُس تبدیلی کے ثمرات نظر آرہے ہیں ۔اور تبدیلی کے آثار عوام الناس تک پہنچ
رہے ہیں؟ تو پی ٹی آئی کے ووٹرز کو ایک لمحے کو یہ تسکین ضرور محسوس ہوجاتی
ہے۔ اور اُس کی زبان سے خود بخود یہ نکل جاتا ہے کہ ہاں البتہ..!! عمران
خان کی حکومت میں زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ سوالیہ نشانات کے ساتھ مثبت
تبدیلی کے ثمرات ضرور سا منے آرہے ہیں۔ اورعمران خان کا ووٹریہ بھی سوچ
رہاہے کہ ابھی حکومت کو آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں، ماضی کی حکومتیں تو اِس
عرصے میں اپنا ہنی مون پریڈ ہی گزاراکرتی تھیں۔ پھر سربرہان مملکت کے پورے
پانچ سال ہنی مون بنانے اور بیرونِ ممالک دوروں میں ہی گزر جایاکرتے تھے ،
مگرجب انتخابات کو ایک دو سال باقی رہ جاتے یا انتخابات سر پرآجاتے تھے تو
اُن کا ہنی مون پریڈ ختم ہوتا تھا ۔پھر وہ حکومتیں عوامی فلاح و بہبود کے
لئے اقدامات اور منصوبے شروع کیا کرتیں تھیں ۔درحقیقت اِس طرح اُن حکومتوں
کے اقدامات اور منصوبے عملی اعتبار سے تو صفر مگراشتہارات اور خبروں میں
تکمیل کو پہنچ جایا کرتے تھے۔ جن کی ماضی میں بے شمار مثالیں موجود ہیں۔اَب
اگر اِنہیں وہ جھٹلائیں۔ تو یہ اُن کا فعل ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ایسا ہی
ہوتارہاہے۔
جبکہ آج عمران خان کی حکومت اپنا ہنی مون پریڈ بنائے بغیراپنے اعلان کے
مطابق اپنے ابتدائی سو دن کے اہداف کے حصول میں مصروف ہے۔راقم الحرف کی نظر
میں یہ سو دن عمران خان کی حکومت کے لئے ٹیسٹ ایام ہیں ۔اَب جیسے جیسے یہ
آگے بڑھتے جا ئیں گے۔ حکومتی اقدامات اور اعلانات واضح ہوتے جا ئیں گے کہ
اگلے پانچ میں حکومت ایسے مزید کیااورکتنے اقدامات کرے گی؟ جس میں کفایت
شعاری اور خود انحصاری کے عنصرسا منے آئیں گے۔ اورخالی ہوجانے والا قومی
خزانہ حکومت کے بچتی اقدامات اور بچتی پالیسیوں سے بھر جا ئے گا جس سے
درپیش مسائل حل کرنے اور وسائل پید اکرنے کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ
مالیاتی اداروں سے حکومت چلانے اور مُلک کی ترقی او ر عوام کی خوشحالی کے
اُتنی مقدار میں قرضے نہیں لینے ہوں گے ۔ہماری ماضی کی حکومتی اِن حوالوں
سے جتنی مقدار میں لیاکرتی تھیں۔
ہاں البتہ،نومنتخب وزیراعظم اور اِن کی کا بینہ کی اب تک کی چھوٹی موٹی یا
ہلکی پھلکی غلطیوں کے ساتھ وفاقی اور صوبا ئی حکومتوں کے کفایت شعاری اور
خود انحصاری کے لئے کئے گئے اقدامات اپنی جگہہ کچھ اچھے اور کچھ بُرے
توضرورہیں۔ مگر مجموعی طور پر بعض سیاسی ناقدین حکومت کے اِن بچتی اقدامات
اور اعلانات کواپنے زہریلے نشترسے گہرے چیرے لگا کر جگہہ جگہہ سے گھائل
کرنے میں مصروف ہیں،آج ایسا کرنا اُن کے نزدیک تو کارِ ثواب ہوسکتا ہے، مگر
درحقیقت اِس طرح اِن کی جانبداری اور اِن کے اندر کی احساس برتری سے کہیں
زیادہ احساسِ محرومی سامنے آرہی ہے۔حالانکہ،ماضی کی حکومتیں بھی اپنے شروع
کے ایام میں ایسی بہت سی بڑی چھوٹی غلطیوں کی مرتکب ہو تی رہی ہیں۔ مگرتب
اُن کی غلطیوں کوتو کبھی کسی نے اِس طرح سے نہیں اُچھالاتھا۔ جیسا کہ آج
اکثر سیاسی ناقدین روزانہ سرکاری اور نجی نیلے پیلے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر
عمران خان اور اِن کی وفاقی کابینہ و صوبائی حکومتوں کی چھوٹی موٹی غلطیوں
کو کھود کھود کر نکال رہے ہیں۔ دراصل اِس طرح یہ سب اپنے ایک خاص مقصد کے
تحت تنقیدبرائے اصلاح کے نام پرعمران حکومت پر تنقید برائے تنقید کرکے
حکومت کے کفایت شعاری اور خود انحصاری اقدامات کی چیرادستی کررہے ہیں ۔جو
کہ اِنہیں ا یسا کرنا اَبھی کم از کم دوہفتوں کی عمران حکومت کے لئے کچھ
زیب نہیں دیتا ہے۔(ختم شُد) |