تبدیلی تبدیلی جلدلگ پتہ جائے گاکس کے سر پر کتنے بال ہیں؟

ظاہری تبدیلی کے ساتھ باطنی تبدیلی بھی ضروری ہے !!

 آج نئی حکومت کے ذمہ داران بالخصوص وزیراعظم عمران خان اورعلمبردارانِ کفایت شعاری وخود انحصاری اور کرپشن و لوٹ مار سے پاک مُلک میں تبدیلی کے خواہاں سُن لیں ،اَ ب ظاہری تبدیلی کے ساتھ باطنی تبدیلی بھی لازمی ہے ۔

تاہم اَب جب تک ہم ظاہری تبدیلی کے رنگ میں رنگنے کے بعد باطنی تبدیلی کے شیرہ کی گڑھائی میں غوطہ زن ہوکر(بشمول اپنے ضمیرکے) خود کو نہیں بدلیں گے ؛ہمارا تبدیلی کا ساراعمل محض ایک ڈرامہ اور دِکھاوا ہی رہے گا۔

جی ہاں ، اَب خود ہی سوچ لیں ؛ کہ ظاہری تبدیلی کے بعد باطنی تبدیلی کے بغیر ظاہری تبدیلی زیادہ دیر تک قائم بھی نہیں رہ سکے گی۔ اَب یہ فیصلہ نومنتخب وزیراعظم عمران خان اور اِن کی کابینہ کے اراکین اور ایوانِ نمائندگان کو ہی کرناہوگا ؛کہ یہ اپنے تبدیلی کے دعووں اور وعدوں کے بعدجس کڑے امتحان سے گزر رہے ہیں۔اَب یہ سب اپنی محنت و مشقت اور ناقدین کی تنقیدوں سے بچ کر اِس امتحان میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں؟ یہ ذمہ داری بھی اِن ہی پر عائد ہوتی ہے۔

تاہم تبدیلی کی یہ ساری باتیں اپنی جگہہ اچھی ہیں یا بُری ہیں ؛ غرض کہ یہ جیسی بھی ہیں؟ مگر فی الحال ، اَب بس سب صبر کریں، جلد لگ پتہ جا ئے گا؛کس کے سر پر کتنے بال ہیں؟اور تبدیلی کے شپ (جہاز) کا رُخ کس سمت میں ہے ، ابھی حکومت پر ناقدین بھی منہ پھاڑ پھاڑ کربیجا تنقیدوں سے اجتناب برتیں ، تھوڑا عرصہ گزرنے تو دیں، پھر جیسی چاہیں۔ حکومت پر تنقیدیں کریں، کوئی اِنہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوگا۔

اِس موقع پر ہاں البتہ ،یہ ٹھیک ہے کہ ستر سال بعد مُلک میں کسی نے توپرانے نظام سے بغاوت کی ہے۔ اور مُلک میں حقیقی تبدیلی کا نعرہ لگایا اوروہ اِس میں کامیاب بھی ہوگیاہے،آج وہ تبدیلی کا علم اُٹھائے اپنی ٹیم کے ہمراہ تبدیلی کی شروعات بھی کر چکاہے۔

مگرابھی سے ہی اِس کے تبدیلی کے نعرے اور وزیراعظم ہاؤس سے تبدیلی کا آغاز کئے جانے پر پرانے سیاسی بازی گر ماتم کناں ہیں کہ یہ کیسی تبدیلی ہے ؟جو ایک ماہ میں تو کہیں اُس طرح نظر نہیں آئی ہے ؛ جن دعووں اور وعدوں کے بعد اقتدار لینے والوں نے خلائی مخلوق اور نادیدہ قوتوں کے سانجھے سے اقتدار کی کرسی اُن سے گھسیٹ کر اپنے نیچے کرلی ہے۔آج اِسی لئے تو کفایت شعاری اور خود انحصاری کے تبدیلی کے اعلان اور اقدامات پر شور مچانے والے شکست خوردہ عناصر چیخ چلا رہے ہیں۔ اور ایسے آہو فغاں کررہے ہیں۔جیسے کہ یہی اصل میں اقتداراور حکمرانی کے حق دار ہیں ۔ اِن کے سِوا کوئی اور اِس وطنِ عزیز اورعوام پر حکمرانی کا حقدار ہوہی نہیں سکتاہے۔

بہر حال ،مقاصد بغیر انتھک محنت کے حاصل نہیں کئے جاسکتے ہیں،جب یہ مل جاتے ہیں۔ تومحنتی کے مسرت کی انتہانہیں رہتی ہے، مگرمحنتی کی کا میابی پر حاسدین کے لئے بھی تو کسی ایندھن کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔ اِن دِنوں ایک طرف تو ارضِ مقدس پاکستان میں لگ بھگ ایک ماہ قبل ہونے والے عام انتخابات کے بعد مسندِ اقتدار پر قدم رنجافرمانے والی پی ٹی آئی کی کامیابیوں کے چرچے عام ہیں۔ تو وہیں ،گزشتہ سے پیوستہ اپوزیشن کا درجہ پانے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی کی شکست کے بعدپیداہونے والی بوکھلاہٹ کی کیفیت اور جل بھن جانے کے باعث دونوں کا درجہ حرارت بھی ہزار درجہ فارن ہائٹ کو پہنچ چکا ہے۔

جبکہ آج ایوان میں اپوزیشن جماعت کی دعویدارمُلک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی کو پی ٹی آئی کی کامیابی پر جل بھن کر اپنی توانائیاں تباہ و برباد کرنے کے بجائے، خندہ پیشانی سے اپنی شکست کا جائزہ لیناچاہئے کہ اِن سے وہ کیا غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں ہیں؛ جن کی وجہ سے ووٹرز نے اِنہیں شکست کا ٹوکرا تھما کرصاف سُتھرے انداز سے اقتدار پی ٹی آئی کے دامن میں ڈال دیاہے۔ویسے بھی اقتدار بھی دولت کی طرح ہے ، جو آج کسی کے ہاتھ میں تو کل کسی کے ہاتھ میں ہوتاہے، دونوں ہی حالتوں میں کڑے امتحان کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے۔برسراقتدار جماعت کے لئے حکمرانی امتحانات کا جال جبکہ حزبِ اختلاف کی اولین ذمہ داری صبروبرداشت کے ساتھ اپنا مثبت کردارکرناہوتاہے۔

اِس میں شک نہیں کہ ارضِ مقدس پاکستان میں پہلی بار اقتدار کی چہچہاتی چڑیاپی ٹی آئی کے ہاتھ لگ گئی ہے ؛ تو اِس کا پاکستان تحریک انصاف یہ ہرگز مطلب نہ لے کہ اَب کوئی اِس سے یہ چھین نہیں سکے گا؛ اِسے یاد رکھنا چاہئے کہ آج پاکستان کے جن باشعور ووٹرز نے پاکستان مسلم لیگ (ن)اورپاکستان پیپلز پارٹی سے اقتدار چھین کر اِسے دیاہے ۔تو کل یہی ووٹر زاپنے ووٹ کی پرچی سے دوبارہ ن لیگ یاپی پی پی کو حقِ حکمرانی سونپ سکتے ہیں۔ لہذا، ضرورت اِس امر کی ہے کہ تبدیلی کے جن وعدوں اور دعووں کے ساتھ پی ٹی آئی کے سربراہ اورہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے جواقتدار حاصل کیاہے۔اَب وہ تمام مثبت تبدیلیاں مُلک میں ہوتیں جا بجا نظر بھی آنی چاہئیں، اور اِن کے ثمرات اداروں سے ہوتے ہوئے عوام الناس تک بھی پہنچنے چاہئیں، ورنہ ؟ووٹرز پی ٹی آئی کی حکومت پر سوالیہ نشان لگا دیں گے۔(ختم شُد)
 

Muhammad Azam Azim Azam
About the Author: Muhammad Azam Azim Azam Read More Articles by Muhammad Azam Azim Azam: 8 Articles with 5605 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.