نورا کشتی

ہمیں معاشی بربادی کے دہانے پرکون لے کرآیا؟یہ آج اورآنے والے کل کے موّرخ کاسب سے بڑاسوال ہوگا،ہماری اس بربادی کے 5بڑے کھلاڑی ہیں،اس کھیل کاپہلا کھلاڑی امریکاہے، امریکا کی خارجہ پالیسی خانہ جنگی پر مبنی ہے، امریکا آج تک جس ملک میں گیااس میں خانہ جنگی،قتل و غارت گری اور فساد پھیلا اور وہ ملک کبھی دوبارہ معمول کی پٹڑی پرنہ آسکا،آپ زیادہ دور نہ جائیے آپ1950ء کو دیکھ لیجئے،1950ء میں امریکا کوریا میں داخل ہوا،کوریامیں خانہ جنگی ہوئی اوراس خانہ جنگی کے نتیجے میں کوریا شمالی اورجنوبی دوحصوں میں تقسیم ہوگیااورآج تک وہاں امن قائم نہیں ہو سکا،بالآخرشمالی کوریاکواپنی عوام کاپیٹ کاٹ کرایٹمی دوڑمیں شامل ہونا پڑا اور میزائل ٹیکنالوجی کاسہارالیکرامریکاکوچیلنج کرکے اسی کی زبان میں سمجھاناپڑا۔امریکا1954ءمیں گوئٹے مالا گیا،وہاں خانہ جنگی ہوئی اورپوراملک تباہ ہوگیا۔وہ 1958ء میں انڈونیشیاء 1959ء میں کیوبا،1961ءمیں ویت نام،1964ء میں کانگو،1965ءمیں پیرو،1969ءمیں کمبوڈیا،1971ء میں پاکستان،1973ءمیں لائوس،1980ءمیں ایل سلواڈور،1981ءمیں نکاراگوا،1983ءمیں گرینیڈا،1984ء میں لبنان،1986ء میں لیبیا، 1989میں پانامہ،1998ءمیں سوڈان اور1999ءمیں یوگوسلاویہ گیااوران تمام ممالک میں خانہ جنگی ہوئی اور اس خانہ جنگی میں لاکھوں،کروڑوں لوگ مارے گئے اوراس کے بعدان ممالک میں دوبارہ امن قائم نہ ہو سکا۔

امریکاکی اس خارجہ پالیسی کے تازہ ترین شکار افغانستان اورعراق ہیں۔امریکیوں نے1980ءمیں افغانستان کی سیاست میں قدم رکھاتھاآج اس واقعے کو38برس گزرچکے ہیں اوران38برسوں میں افغانستان کے شہریوں نے امن کی ایک رات نہیں گزاری،آج افغانستان کے شہری امریکااورنیٹوافواج کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں اورامریکااس قتل وغارت گری کواپنی کامیابی قراردے رہا ہے۔ عراق نے 1980ءمیں امریکیوں پردوستی کے دروازے کھولے تھے،یہ دروازے کھلتے ہی عراق ایران جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ میں 6لاکھ ایرانی اور عراقی مارے گئے۔1990ء میں امریکانے عراق پر پہلا حملہ کیا، دوسرا2003ءمیں ہوا اور آج عراق بری طرح خانہ جنگی کا شکار ہے، عراق میں اب تک 17لاکھ شہری اس جنگ کارزق بن چکے ہیں۔

امریکا کی یہ مہربانیاں صرف یہیں تک محدود نہیں ہیں بلکہ ارجنٹائن ہو، ہیٹی ہو، چلی ہو، ہوائی ہو یا پانامہ ہو،فلپائن ہو،سپین،پورٹوریکو،ساموآ،کولمبیا،ہونڈراس،ڈومینکن ری پبلک، بولیویا، برازیل،کوسٹاریکا،فاک لینڈ،جمیکا،الجیریا،مصر،ایران،اسرائیل، اردن،کویت،مراکش،شام،تیونس یمن،انگولا، برونڈی، ایتھوپیا،گھانا،کنی بسائو، کینیا،لائبیریا،مڈغاسکر،موزمبیق، نائیجریا، روانڈا ،سائوتھ افریقہ، یوگنڈا،زائرے، زیمبیا، زمبابوے، یونان،ہنگری،رومانیہ،ترکی ہویانیپال دنیاکے جس ملک میں امریکیوں نے قدم رکھااسے خانہ جنگی کاتحفہ ملااوریہ تحفہ اس وقت تک ملتارہا جب تک وہ دوستی کے اس شکنجے سے آزادانہ ہوگیا، دنیا کے نقشے پراس وقت بھی15ممالک بدترین خانہ جنگی کے شکارممالک میں امریکی نظرآتے ہیں لہٰذا اگردنیاکے ان تمام ممالک نے امریکی دوستی کا تاوان ادا کیا تھا توہم بھی اس وقت تک سکون نہیں پاسکیں گے جب تک ہم اپناحصہ وصول نہیں کرلیتے اوریہ حقیقت ہے ہم اس انجام کے دروازے پرکھڑے ہیں۔

امریکاجب بھی کسی ملک میں جاتاہے تووہ اس ملک کی دفاعی امدادمیں اضافہ کردیتاہے جس کے بعداس ملک کی فوج سیاست میں حصہ داربن جاتی ہےاوراس کے بعداس ملک میں ڈکٹیٹروں کاسلسلہ شروع ہوجاتاہے اوریہ سلسلہ اس وقت جاری رہتاہے جب تک ملک خانہ جنگی کاشکارنہیں ہوجاتااورہم اس سلسلے کی آخری کڑی کوچھوکرواپس لوٹ چکے ہیں۔اس کھیل کے تیسرے کھلاڑی ہمارے مفاد پرست سیاستدان ہیں،ہم لوگوں کو بدقسمتی سے آج تک کوئی بے لوث اورکھری قیادت نہیں ملی،ہمارے سیاستدانوں نے ہردورمیں اقتدار کیلئے سمجھوتہ کیا، مسلم لیگیں اورپیٹریاٹیں بنائیں اورہمارے سیاستدانوں نے ہمیشہ ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ یہ لوگ اسمبلی کے ایک ٹکٹ یا ایک جھنڈے کے لئے اپناایمان ،اپنا ضمیر،اپنااحساس اوراپنی عزت بیچتے رہے،افسوس صدافسوس خریدوفروخت کی اس منڈی میں اس وقت بھی ہمارے سیاستدان اپنی قبرکی اینٹوں کاسوداکررہے ہیں اوران کی پوری کوشش ہے مرنے سے پہلے اپنی قبر پرجھنڈا لگالیں۔

کھیل کے چوتھے کھلاڑی اس ملک کے سرکاری ملازم ہیں، صدافسوس!نائب قاصد سے لیکر سیکرٹری تک اس ملک کاہرسرکاری ملازم بزدلی اورمفادکی کوکھ سے پیداہوااوروہ زندگی کی آخری سانس تک مصلحت کی چھاتیوں سے دودھ پیتارہا،افسوس ماسوائے چندافرادکے،ہمارے سرکاری ملازموں نے ہردورمیں طوائفوں اورڈیلروں کاکرداراداکیا،یہ ہمیشہ کرائے کے قاتل ثابت ہوئے اوریہ لوگ71برس تک مفادپرست حکمرانوں کے پوتڑوں پرعرق گلاب چھڑکتے رہے یہاں تک کہ گلاب بھی ختم ہوگیااورعرق بھی،آج جب ہماری عدلیہ نے انگڑائی لی ہے اورپہلی مرتبہ اس ملک میں عدلیہ نے عوامی امنگوں کوکچھ سہارابخشاہے تواس وقت بھی افسوس ہماری بیوریو کریسی کاایمان نہیں جاگا،وہ آج بھی سچے اورجھوٹے اورکھرے اورکھوٹے میں تمیز نہیں کرسکی، آج ہمارے دفتروں میں80لاکھ سے زائدسرکاری ملازم ہیں،ان میں 22ویں اور21ویں گریڈ کے522 /افسر ہیں لیکن ان افسروں میں ایک بھی ایساسامنے نہیں آیاکہ جس نے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کوماننے سے انکارکرتے ہوئے عدلیہ کادروازہ کھٹکھٹایاہو۔

ہمارے سرکاری ملازم وہ اہل کوفہ ہیں جو حضرت امام حسین کی شہادت پر ماتم توکرلیتے ہیں لیکن انہیں پانی کاایک پیالہ نہیں دیتے اوراس کھیل کے آخری کھلاڑی ہمارے وہ کروڑوں عوام ہیں،اللہ تعالیٰ نے اس عوام کو شعوراورآزادی کی نعمت سے نوازاتھالیکن افسوس انہوں نے آج تک جانوروں کی زندگی گزاردی۔ان لوگو ں سے تووہ گائے اوربھینس اچھی تھی جودم سے اپنی کمرپر بیٹھی مکھی تواڑالیتی تھی یہ لوگ تواتنابھی نہیں کرسکتے۔اس ملک کی بدقسمتی دیکھئے ہمارے عوام کے5 سامنے ملک ٹوٹااورجس شخص نے جب چاہااورجوچاہااس ملک کے ساتھ کیالیکن ہمارے عوام نے اف تک نہ کی۔ تبدیلی کانعرہ لگانے والے درپردہ پیپلزپارٹی سے نورا کشتی کرکے عوام کی نگاہوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ بدبختو خطرات ہمارے سرپرمنڈلارہے ہیں،ہم خانہ جنگی سے دوانچ دوربیٹھے ہیں اورتم ریموٹ کنٹرول سے کھیل رہے ہو

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355545 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.