ایک ایسا طفل ہو نہا ر فیروز مند واقبال مند جو امت کی
فیض رسانی کے لئے ابر کرم بن کر آیا،جس کا علم و عمل اور فضل و کمال چراغ
راہ بنا ،جس پر الطا ف ربانی کی بارش ہوئی ،لاکھوں نے اسے آنکھوں میں
بٹھایا اور دل کی طاق میں سجایا،جبکہ اس نے کبھی اپنی نا نی کے یہا ں پرورش
پا ئی ،توکبھی ما موں کے کا ندھے پر سوار ہو کر مکتب کی راہ لی ،اس کی
پیاری ولا ڈلی والدہ بھی اسی وقت جدا ہو گئی ،جس وقت اس جدائی کی سنگینی کا
احساس بھی اس کو نہ تھا ،عمر بڑھتی گئی ،عقل وخردمیں پختگی آتی گئی ،اور
حکم خداوندی کہ گھریلو حالا ت بگڑتے گئے ،اور پھر تاریخ نے یہ بھی رقم کیا
کہ مکتب سے آتے ہی گھر کی بھینس چراگا ہوں میں چراتے ،ان کے چا رے کا
انتظام کرتے ،گھاس کھودتے ،دیگر صفائی کے کا موں میں رہتے ،پھر مدرسہ کے
وقت پر مدرسہ کی جا نب الٹے پیرہو جاتے ،اپنی عمر کی با رہویں یا تیر ہویں
سیڑھی پر پہو نچے ہوں گے ،کہ ایک نئی بیما ری اور پریشا نی نے گھیر لیا اور
ایسا گھیرا کہ کوئی اور ہوتا تو تعلیمی سفر کو موقوف کر دیتا، نہ جا نے کیا
کیا بہا نے تراش لیتا ،اور علم کے نور سے اپنے آپ کو کورا کرلیتا ،بیماری
بھی ایسی، جو بڑھی تو بڑھتی چلی گئی ،پھیلی تو پھیلتی چلی گئی ،جس کی وجہ
سے آپ ما ہئی بے آب کی طرح تڑپنے لگے ،اس حالت میں بھی پڑھائی جاری رکھی ،
جب بیما ری نے زیادہ ہی شدت اختیار کی ،تو ان کے خاص کرم فر ما استاذ حضرت
مو لا نا ضیاء الحسن صاحب ؒ نے فرمایا ،گھر چلے جاؤ،مگر یہ ہو نہا ر طالب
علم گھر جا نے کے لئے با لکل تیار نہ ہوا ،کیونکہ اسبا ق میں ناغہ منظور ہی
نہ تھا ،تمام طلبا ء رات میں اپنے اپنے خواب استراحت میں لیٹ جاتے اور یہ
صحن مدرسہ میں درد کی شدت سے لوٹ پو ٹ ہو جا تے ،پوری پوری رات رونے میں
گذر جاتی ،عسرت و تنگی کا یہ حال تھا ،کہ چھٹی کے ایام میں بھی کرایہ نہ ہو
نے کی وجہ سے گھر نہیں گئے ،بالآخر حضرت مفتی مظفر حسین صاحب ؒ کو خبر ملی
،کہ یو نس بڑے غریب ہیں اور کرایہ نہ ہو نے کی وجہ سے گھر نہیں جا رہے ہیں
،تو حضرت نے شیخ کو بلا یا ،اور حقیقت معلوم کی تو حضرت نے ان کو اپنی
سرپرستی وکفالت میں لے لیا ،چو نکہ آپ کا بھی دامن اولا د جیسی نعمت سے
خالی تھا ،انہوں نے اپنی اولا د کی طرح محبتیں لٹا کر مو لا نا کو پالا
،یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ بھی قابل اور تیار ہو نے کے بعد با رہا محبت بھرے
لہجہ میں کہا کرتے تھے ،ــ’’یہ توضیاء کی ضیاء ہے‘‘ عند الناس محبوبیت و
عند اﷲ مقبولیت اور اپنی تمام تر کا میابی کی نسبتیں اپنے کرم فرما استاذ
کی جانب فر ما یا کرتے تھے،اور فرماتے ،کہ مجھ پر جتنے احسانات حضرت مو لا
نا ضیاء الحق صاحب ؒ کے ہیں اتنے کسی کے نہیں ،مناظر اسلام حضرت مو لا نا
اسعد اﷲ صاحب ؒ اور شیخ الحدیث حضرت مو لا نا زکریا صاحب ؒ اور حضرت مولا
نا عبد الحلیم جو نپوری ؒ ان اکابر اہل اﷲ نے اپنی اپنی انفرادی کو ششوں سے
اس پتھر کو تراش خراش کر موتی سے زیادہ قیمتی ، ہیرے سے زیادہ چمکدار اور
جو ہر و گو ہر سے زیادہ اہمیت کا حامل بنا دیا ،پھر یہ روشن آفتاب و ما
ہتاب اس انداز سے چمکا ،کہ دنیا نے اس سے روشنی حاصل کی ،جس نے اپنی خداداد
فہم و فراست اور نور بصیرت سے حدیث شریف کے باب میں وہ عظیم الشا ن کا
رنامہ انجام دیا جس کو تاریخ میں ہمیشہ یا د رکھا جائے گا ، ان کی علمی
جلالت و شان اور مقام کا اندازہ اس سے بجا طور پر لگایا جا سکتا ہے کہ آپ
کے شیخ اور استاذ شیخ الحدیث حضرت مو لا نا زکریا صاحب ؒ نہ صرف آپ کی علمی
قابلیت کے معترف تھے بلکہ آپ کے علم پر حد درجہ اعتما د فر ما تے تھے اور
تقریبا ۳۰ سال کی عمر میں بخاری شریف کا درس آپ کو دے دیا گیا ، دوسری صدی
کے امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت امام بخاری ؒ کی الجا مع الصحیح کو عصر
حاضر پندرہویں صدی کے رئیس المحدثین فی الحدیث حضرت شیخ محمد یو نس صاحب ؒ
سے زیا دہ جا ننے والا شائد کو ئی نہ تھا ،ان کی زندگی صرف علم حدیث ،طلبہ
حدیث اور مظاہر علوم کے لئے وقف تھی ،پھر حدیث ان کا مزاج اور بخاری شریف
ان کا دستور بن گئی ،امام بخاری کے گرویدہ اور عاشق زار بن گئے ،حضرت کے اس
غیر معمولی تبحر علمی میں جہاں ان کے اساتذہ کا فیضان اور ان کی دعاؤں کا
دخل ہے وہیں روز اول سے ان کا علمی انہماک اور کتابوں سے بے پناہ لگاؤ کا
بھی اہم کردار ہے ، زما نہ طا لب علمی سے ہی علم سے بے پنا ہ محبت ،اس راہ
میں آنے والی پریشا نیوں و تکا لیف کو بخوشی سہنا ان کا مزاج بن گیا ،بچپن
ہی سے علم حدیث سے خصوصی اشتغال رہا ،اور اس کو ہی اپنا اوڑھنا بچھو نا بنا
یا ،علم کا شوق ،اس کے حصول کی تڑپ ایسی تھی آپ خود فر ما تے تھے کہ اگر
مجھے کسی سے کچھ پیسے میسر آجا تے تو ان سے حدیث کی کتابیں خرید لیتا ،شیخ
کا مطا لعہ بے حد وسیع ،ان کی قوت حفظ بے مثال،اور علمی واختلا فی مسائل
میں دلا ئل کے ساتھ گفتگو کر نے کی صلاحیت ان میں بے پنا ہ تھی ،وہ ذہا نت
و فطانت کی بے نظیر مثال تھے ،اور استحضار علمی اس قدر تھاکہ حضرت شیخ کبھی
بھی پوچھ لیا کرتے یہ حدیث کہاں ہے فورا بتلا دیا کرتے آپ کا ذہن اجتہادی
صلاحیت کا مالک تھا، آپ کے علم و عمل کی پاکیزہ شخصیت پر عظیم اسکالر محقق
دوراں ڈاکٹر اکرم ندوی صاحب مدظلہ العالی جو کہ حضرت کے وصال پر سسک پڑے ،
چونکہ آپ اس وقت سہا رنپور ہی میں حضرت والا سے اپنے قافلہ کے ساتھ ملا قا
ت کے لئے پا بہ رکا ب تھے ،کہ اچا نک مظاہر علوم میں قدم رکھتے ہی یہ خبر
دلخراش ان کے اوپر صاعقہ بن کر گری،کہ حضرت شیخ کا انتقال ہو گیا ہے،آپ
اپنے تاریخی سفرنامۂ ہند میں رقم طراز ہیں ، بخاری شریف کا سب سے بڑا عالم
رخصت ہوا ،بر صغیر بلکہ پورے عالم اسلام میں اس کے برابر بخاری کا کو ئی
عالم نہ تھا ،میں نے ہندوستان ،پا کستان ،اور عالم عرب کے شیوخ کی مجا لس
حدیث میں شرکت کی،اور جن کے دروس نہیں سنے ان کی تحریریں دیکھی ہیں کسی کو
اس مرد نکتہ داں سے کیا نسبت ،خاک کو آسما ن سے کیا نسبت، میرے عرب دوست
علما ئے حدیث اس کی بخاری فہمی پر انگشت بدنداں تھے اس کی نکتہ سنجیاں اس
کے علم و فہم اور تدبر و فکر کا نتیجہ تھیں ،اس نے صحیح بخاری پر کسی فقہی
یا فکری مکتبہ فکرکے پیروکا ر کی حیثیت سے نظر نہیں ڈالی،وہ صحیح بخاری
امام بخاری ؒ کی نگاہ سے پڑھنے کا عادی تھا ملاحظہ ہو۔ سفر نامہ ہند ۔ڈاکٹر
اکرم ندوی
آپ کی ذات گرامی یقینا فضل و کمال ،علم و عمل ، تقوی و طہا رت ، صبر و قنا
عت ،توکل و رضا، خوف و خشیت ، اور انابت الی اﷲ کی ایک جامع و مکمل تصویر
تھی ،ان کا مقام ان کے علم کی وسعت و گہرائی ،عقل و فہم ،فکر و تدبر ،تحقیق
و اجتہاد ،صلاح و تقوی ،اور خشیت و اخلاص سے عبارت ہے ،آپ ان ائمہ متقدمین
کے مانند تھے جن کے بارے میں کہا گیا لم یخلف بعدہ مثلہ ایک دھوپ تھی کہ
ساتھ گئی آفتاب کے ،خصوصا علم حدیث میں تو آپ ہندوستان و ایشیاء ہی میں
نہیں بلکہ عالم اسلام میں اس وقت سند کا درجہ رکھتے تھے بڑے بڑے علما ء و
محدثین اکنا ف عالم حاضر خدمت ہو تے اور آپ سے سند حدیث حاصل کرتے ،علمی
اشکا لا ت پیش کرکے ان کا حل طلب کرتے ،یہاں آکر انہیں تشفی ہو تی ،حدیث سے
شغف رکھنے والے آپ سے سند حدیث حاصل کرنے کو با عث فضل و کمال سمجھتے تھے
،علم حدیث آپ کے لئے محض ایک علم اور فن کی حیثیت نہیں رکھتا تھا ،بلکہ یہ
ان کا ذوق اور حال بن گیا تھا ،اور ان کے جسم و جان ورگ و ریشہ میں اس طرح
رچ بس گیا تھا جیسے پھول میں خوشبو اور ستاروں میں روشنی ـ
شاخ گل میں جس طرح با د سحر گا ہی کا نم
مسند درس حدیث پر براجمان ہو تے تو عسقلا نی ،قسطلا نی ،اور کر ما نی کی یا
د تازہ کردیتے ،آپ نے اس انداز سے درس دیا کہ بخارا و سمر قند کی یا د تازہ
ہو گئی اور شمع حدیث کے پروانے دیوانہ وار آپ کے ارد گرد جمع ہو تے گئے
،عرب کے نامور اساتذہ حدیث آپ کے سامنے زانوئے تلمذکو سعادت سمجھنے لگے،اور
یہ خو ش نصیب بچہ آسما ن علم پر آفتاب بن کر چمکا ،جس کے فضل و کمال کاچر
چا دنیا بھر کے ملکوں میں پھیلا ، حدیث کے باب میں روات کے احوال سے باخبری
،پھر ان انگنت افراد کی زندگی کی تفصیلا ت ان کا مزاج و مذاق ان کا
کردار،ان کے ثقہ وغیر ثقہ کے بارے معاصرین کی آراء ،متون حدیث ،اسنا د حدیث
،اور حدیث کے مقتضیات و مطا لبات اس کے معا نی و مفاہیم اس مستقل فن پر آپ
کو مکمل گرفت اور عبور تھا ،اور بہ فضل ایزدی اس کا القاء ہو تا تھا ،اور
گنجلک مسائل میں تمام گتھیاں آستانہ نبوی سے سلجھتی تھی جس کی تائید کے لئے
میں آپ ہی کے ایک خوشہ چیں اور آپ کے خلیفہ حضرت مو لا نا محمد حنیف صاحب
مد ظلہ العالی کے اس بیان کا سہارا لوں گا جو یو ٹیوب پر مو جود ہے ،ایک
روایت ہے کہ اﷲ کے حبیب حضرت محمد ﷺنے پیالہ پر ہا تھ رکھا اور پا نی ابلنے
لگا تو وہاں محدثین بحث کر تے ہیں کہ پا نی ابل رہا تھا یا انگلیوں سے پانی
نکل رہا تھا ،عام علماء فرما تے ہیں کہ انگلیوں سے نکل رہا تھا اس لئے کمال
معجزہ تبھی ہے ،اور شیخ الا سلام
ابن تیمیہؒ فر ما تے ہیں کہ پا نی ابل رہا تھا ،شیخ نے درس میں ابن تیمیہؒ
کی تردید کی اور فر ما یا،پانی سے پانی کا بڑھنا کمال نہیں ہے وہ توکنویں
میں بھی بڑھتا ہے ، یہاں تو اصل معجزہ بتا نا تھا کمال معجزہ تو یہ ہے کہ
انگلیوں سے نکل رہا ہو ،یہ با ت درس میں فرمائی، رات میں دیکھا رسول اﷲ ﷺ
تشریف فر ما ہیں ،پیالہ ہے اور ہاتھ رکھا ہوا ہے ،اور پا نی بڑھ رہا ہے
،حضرت شیخ الحدیث ؒ اس وقت حیات تھے حضرت سے فر ما یا حضرت نے کہا کل کیا
سبق پڑھایا تھایو نس تم نے ؟حضرت نے پورا سبق دہرایا ،پھر فر ما یا اﷲ کے
نبی تجھے یہ بتا نا چا ہتے ہیں کہ یہ امر مو ہوم ہے یہ بھی ہو سکتا ہے ،کہ
پانی بڑھ رہا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انگلیوں سے نکل رہا ہو ،ایک پر
تیقن کرکے دوسرے کی تردید کیوں کی؟ نبی تجھے یہ بتا نا چا ہتے ہیں ، مزید
الحق چینل پر ویڈیو دیکھی جا سکتی ہے جس میں بہت سے خوابوں کا ذکر ہے ،آپ
کے وصال کے بعد آپ کو امیر المؤمنین فی الحدیث کے لقب سے مخلوق خدانے آپ کو
نوازا ،جبکہ شیخ صفوان داؤدی کے واقعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ کی حیات ہی
میں آپ کو یہ تمغہ زبان نبوی ﷺ سے مل گیا تھا ، آپ کی تحقیقات، روایت و
درایت پر نقد،وسعت مطا لعہ متقدمین کی کتا بوں پر بھر پور نقد وتبصرہ اور
جبل العلم فی الحدیث علا مہ ابن حجر عسقلا نی ؒ کے مسا محات کا تذکرہ یہ
وہی محدث اعظم کر سکتا ہے ، جو مجتہدانہ فراست کے ساتھ پورے احادیث کے
ذخیرے پر نظر رکھتا ہو ،حضرت شیخ الحدیث کے شا گرد رشید حضرت مو لا نا ایوب
صاحب ؒ رقم طراز ہیں ہمارے حضرت کا درس کیا ہو تا ہے ایک بحر نا پید کنار
،محدثین و متکلمین ،مفسرین وشراح کرام ،اور ائمہ جرح و تعدیل کے ناموں کی
ایک فہرست ذہن نا رسا پر نقش ہو جاتی ہے ،رواۃ پر سیر حاصل کلام اور کوئی
قول بغیر حوالہ کے نہیں ،بلکہ اصل تک پہنچنے کی کو شش ہو تی ہے ،شرح حدیث
،اقوال ائمہ دلا ئل طرفین ،اور ان میں موازنہ وجہ ترجیح وغیرہ سب کچھ ہی
بیان ہو تا ،گویا فتح الباری و عینی ،قسطلا نی و کر ما نی ،سبھی کا خلاصہ
اور لب لباب ہما رے سا منے ہو تا اس طرز تدریس کا فائدہ یہ ہوا کہ پڑھنے
والوں میں ذوق تحقیق پیدا ہوا ،لکھنے پڑھنے کا ایک ڈھنگ آگیا ۔ملاحظہ ہو(
الیواقیت الغالیۃ ۱ ۱۸)
اوقات درس کے علا وہ ان کا شغف علوم الحدیث اور ان کی متعلقہ کتا بوں کے
مطا لعہ اور تحقیق سے تھا ،انہوں نے متقدمین محدثین کی کتا بیں بھی چھان
ڈالی اور متاخرین اصحاب حدیث کی بھی تالیفات پر نظر ڈالی ،اسماء الرجال کی
کتب ائمۃ الجرح والتعدیل کی آراء اور انکے کلا م سے مکمل استفادہ کیا ،اس
لئے وہ صحاح ستہ میں مروی احادیث کی صحت اور ضعف پر اپنی ذاتی رائے دینے کا
حق رکھتے تھے ،اور بہت سے مسائل میں منقول دلا ئل کی بنیاد پراپنی رائے پیش
کی ،اور ان پر عمل پیرا بھی رہے ۔
حضرت شیخ اور تصوف
مظاہر علوم کے اکا بر و اسلا ف کی مشک با ر تربیت ،روح و روحانیت ،اصلاح
باطن ،اذکا ر و مجا ہدات ،افکا ر وتخیلات ،سادگی و قنا عت ،شرافت نفس ،اور
تواضع وﷲیت کی نورا نیت نے ان کی طبیعت پر ایک گہرا اثرچھوڑا اور یہ چیزیں
آپ کی زندگی میں پیدا ہو تی چلی گئی ،کوہ وجبل میں اور کو ہستانی خطوں میں
پتھر کے ٹکڑوں اور سنگ ریزوں کی تعداد بے شما ر ہو تی ہے ،جن کو انسان اور
جا نور ہمہ وقت اپنے پیروں سے روندتے اور پا ما ل کرتے رہتے ہیں ،انہیں
پتھر کے ٹکڑوں میں کوئی سنگ ریزہ لعل و یا قوت اور جو ہر بن کر نکلتا ہے
،وہ اپنی گرانی اور بیش قیمتی میں حکو مت وقت کے برابر ہو تا ہے ، حضرت مو
لا نا شیخ محمد یو نس صاحب ؒ نے مجا ہدات و ریا ضات کے میدا ن میں وہ جو ہر
دکھا ئے جو سہل نگا ری اور سہو لت پسندی کے اس دور میں کم دیکھنے میں آئے
،آپ بچپن ہی سے اس کے خوگر بن گئے ،آپ کی تفتہ جگری ،قلبی خوں گشتگی اور
مجا ہدانہ زندگی کی داستاں بھی بڑی عجیب ہے ،مظا ہر علوم میں تدریس حدیث
اور اس کے علا وہ گراں بار ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ریاضت و مجاہدات کے جو
میدا ن اور معرکہ سر کئے ہیں ان سے اولیا ء متقدمین اور صوفیاء اولین کی یا
د تازہ ہو جا تی ہے ،دعا و استغفار انابت و تضرع ،ابتہال و انفعال ،اور ذکر
الہی آہ و زاری میں اکثر حصہ مشغول ہو تا ،ذکر الہی کے انہماک و اشتغال نے
آپ کے قلب کو مزکی و مجلی اور عشق و معرفت کے نور سے منور وتا بنا ک بنا یا
،بے پناہ زاہدانہ مشقت و محنت اور مجا ہدہ وریاضت کے ساتھ صالحین و کا ملین
کی توجہ وصحبت نے آپ کو کندن بنایا ،
زندگی کے اس نفس کش مجاہدہ نے اس لا لۂ صحرائی اور گوہر یک دانہ کو ایسا
گراں مایہ اور بے بہا و بیش قیمت بنا دیا تھا،کہ علم و فضل عشق و معرفت کے
بازار میں اس کی قیمت کا اندازہ اسے وجود بخشنے والا مو لی ہی کرسکتا ہے
،عزم و ہمت کے پیکر اس مرد آہن نے راہ تصوف و سلوک میں پیہم کو شش و کاوش
سے اپنی زندگی کو ایک مثالی و معیاری زندگی بنا یا ،آپ کا قول و عمل یہ رہا
،کہ سیرت محمدی اور اخلاق نبوی اور آپ کی زندگی کی تصویر کشی اور اپنے فعل
و کردار ،رفتار و گفتار سے اسے عملی جا مہ پہنا نے میں سب سے بڑی اور سب سے
عظیم دینی ضرورت ہے ،اپنی مجاہدانہ زندگی سے آپ نے ہمیشہ سچا عاشق رسول ہو
نے کا ثبوت پیش فر ما یا، نفس کشی اور مجا ہدہ کے بعد جو روحانی ترقی اور
قوت حاصل ہو ئی وہ عقل انسا نی کو حیران کردیتی ہے اس پیکر خاک میں خرق
عادات اور ما فوق الفطرت چیزوں کا ظہور ہوا ،جن کو دیکھ کر دنیا دنگ رہ گئی
،ارباب علم و معرفت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں ،کہ انسان کے اندر مخفی طا
قت جسے روح سے تعبیر کیا جا تا ہے اس کی حقیقت سے خدا تعالی ہی واقف ہے جس
کے بارے میں سوال کر نے والوں کو بھی اتنا کہا گیا ویسئلونک عن الروح ،قل
الروح من أمر ربی ،وما اوتیتم من العلم الا قلیلا اس روح کو اس ظاہری جسم
کا حکمراں بنا یا گیا ہے اور یہ جسم اس کے لئے مرکب و سواری ہے اس کی نقل و
حرکت نششت و برخواست ،چلنا پھر نا ،متاثر ہو نا احساس و انفعال سب کچھ روح
کے اثر سے ہے ،روح کے اندر جیسی جیسی قوت و تاثیر ہو تی ہے جسم سے ویسا ہی
اظہا ر ہو تا ہے ،جب انسا ن اس مقا م پر پہو نچ جا تا ہے پھر اس کا مکمل
تکیہ و بھروسہ اﷲ کی ذات ہوجا تا ہے،اور اس کی روحا نی طا قت و قوت اسے اس
با ت پر مجبور کر تی ہے ،کرو ،اس ظاہری جسم و جثہ کی آسودگی اور تن پرستی
کے لئے نہ اسباب و سائل کا جال بچھائے اور نہ ہی مادیت کی طرف نظر اٹھائے،
بل کہ اس کی مکمل تو جہ روح کی آسودگی پر مر تکز ہو نی چاہئے ،نبی کریم ﷺ
کی زندگی میں اس کی ہزاروں مثالیں مو جو د ہیں ،حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے بیا ن
فر مایا:کہ اگر آپ کے پاس مال و دولت کا ایک انبار بھی جمع ہو جا تاتو کبھی
آپ اسے ذخیرہ کر کے نہ رکھتے بل کہ بستر استراحت پر پہو نچنے اور ر ات کی
خوابیدگی سے پہلے ہی اسے مستحقین پر تقسیم فر مادیتے آپ کی روحانی قوت تمام
بنی نوع انسانی پر فو قیت رکھتی ہے،اسی روحانی قوت کے سبب عبادت کی کثرت سے
پیر متورم ہو جاتے ،پھر اصحاب رسول میں آپ کی صحبت کی اثر انگیزی واضح اور
حقیقت ہے اس کے بعد کے لوگوں میں ہزاروں افراد ایسے ہیں ،کہ وہ اپنی نفس
کشی اور ترک لذات میں اس مقام تک جا پہنچے کہ ظاہر بیں نظریں اور پر اسرار
عقلیں اس کا یقین نہیں کر سکتیں ،انہیں ریاضت کیشوں اور نفس کشی کر نے
والوں میں حضرت شیخ یو نس صاحبؒ بھی تھے جن ہو ں نے بے پنا ہ مجا ہدہ و ریا
ضت اور عبا دت و فنا ئیت صالحین و کا ملین کی خد مت و صحبت اور اﷲ کی حقیقی
معرفت اور سچی محبت سے اپنے با طن کو ایسا روشن و پاکیزہ اور روح و قلب کو
ایسا با لیدہ و تابندہ کر لیا تھا ،کہ اب آپ کی زندگی میں ما دیت کا کو ئی
تصور ہی نہ رہا ،جس کی مثال ان کی زندگی کے وہ واقعات ہیں ،جو ان کے شا
گردوں واہل تعلق کے ذریعہ سوشل میڈیا پربطور شہادت مو جو دہیں،حضرت شیخ کا
ایک چھوٹا سا حجرہ اصلاح و تربیت ،رشد و ہدایت ،ایمان و یقین ،معرفت وخشیت
،اصلاح اعمال اور نیت کی درستگی کی ایک چلتی پھرتی خانقاہ بن گیا،جسے اب
قلم کا ر و مؤرخین خانقاہ ہی تحریر کریں گے ،اور روح وروحانیت ،رشد و ہدایت
کی وہ صدا لگی جس کو ملک سے با ہر بھی لوگ سن کر پروانہ وار نکل پڑے ،اور
اس دکا ن معرفت سے وہ دوائے درد دل تقسیم ہو ئی جس نے قلوب کو صیقل کیا اور
اس بزم معرفت کی ضیاء با ر کرنوں سے خدا مستوں کو یہاں قرار آیا ،اب فیصلہ
خداوندی سے دبستان علم و معرفت کا یہ روشن چراغ اپنی گل افشا نیاں کر کے اﷲ
کے حضور حاضر ہو گیا ،اﷲ تعالی ان سے راضی ہو ۔ |