خیبر پختونخواہ کی حکومت اس لحاظ سے دیگر حکومتوں سے
ممتاز ہے یہاں اسلامی سال کے ابتدائی مہینے محرم الحرام کی یکم تاریخ کو
عام تعطیل کا اعلان ہوتا ہے،محرم الحرام کو جہاں دیگر وجوہات سے افضلیت
حاصل ہے وہیں اس دن حضرت عمر ؓ کی شہادت بھی ہوئی۔ آج سے 14سوسال قبل22لاکھ
مربع میل پر اسلامی پرچم لہرانے والے حضرت عمر ؓ کی ذات،صفات اور کمالات سے
کون ناواقف ہے ۔آپؓ کی ذات شجاعت،ذھانت اوربصیرت بے مثال ہے۔آپؓ نبی کریم ﷺکے
ارشاد’’خیارھم فی الجاھلیۃخیارھم فی الاسلام زمانہ جاھلیت کے بہترین لوگ
اسلام لانے کے بعدبھی بہترہوتے ہیں ‘‘کا کامل مصداق تھے۔بہن اور بہنوئی کے
مسلمان ہونے نے آپؓ کودربارِاقدس میں حاضر ہونے کی سعادت سے بہرہ مند
فرمایا۔آپؓ کے حلقہِ اسلام میں داخل ہونے سے کفرکے ایوانوں پر لرزہ طاری
ہوگیا۔غریب الدیار اسلام کو جلا ملی۔خفیہ طور پر مسلمان ہونے والے علی
الاعلان نورِ اسلام سے مستفید ہونے لگے۔ضلالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں کے بادل
چھٹنے لگے اورھدایت کی بادِ صبا کفرستان کے مردہ دلوں کو چھونے لگی۔ آپؓ کے
حلقہِ بگوش اسلام ہونے سے بیت اللّہ شریف میں مسلمان علی الاعلان نمازیں
پڑھنے لگے۔ ہجرت کے موقع پر آپؓ نے جس جوانمردی و ہمت واستقلال کا مظاہرہ
کیا وہ کسی اور نے نہیں کیا۔آپؓ نے اعلان فرمایا اے لوگو!جو اپنی ماں کو
رُلانا چاھتا ہو،اپنی بیوی کو بیوہ اور اپنے بچوں کو یتیم کرانا چاہتا ہووہ
میرا راستہ روک کر دکھائے۔تاہم کسی کو آپؓ کا راستہ روکنے کی جرات نہ ہوئی۔
آپؓ کی عظمتِ شان کا اندازہ اس بات سے کے لگایا جا سکتا ہے کہ اللّہ تعالی
نے بائیس مقامات پر آپؓ کی رائے کے موافق وحی کا نزول فرمایا۔غزوہِ بدر کے
قیدیوں کے سلسلے میں آپؓ کی رائے جداگانہ تھی ہر کافر کو مسلمان رشتہ دار
کے حو الے کیا جائے، وہ خوداس کا سر قلم کرے تاکہ کفر کی بیخ کنی ہو اور وہ
اپنے پر ُپرزے نہ نکال سکے۔آپﷺودیگر اصحاب کی رائے یہ تھی کہ فدیہ لے
کرقیدیوں کو رہا کردیا جائے۔بعدازاں حضرت عمر ؓ کی رائے عرشِ بریں سے وحی
بن کے نازل ہوئی۔مشہور منافق کے انتقال وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹے کو
وصیت کی کہ حضور ﷺ کے کرُتے میں مجھے کفن دینا اور میری نمازِ جنازہ آپﷺ
پڑھائیں۔وفات کے بعد اس کا مسلمان بیٹا آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کرتے
کی درخواست کی ۔آپﷺ نے اپنا کرُتہ مبارک عنایت فرما دیااور جنازہ پڑھنے کے
لیے تشریف لے گئے ۔حضرت عمرؓنے آپﷺ کو منع کیا کہ اس کی نمازِ جنازہ نہ
پڑھائیں ۔ اس نے فلاں فلاں موقع پر مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی،تاہم آپﷺ نے
نمازِ جنازہ پڑھائی تو اللّہ ربُّ ا لعزت نے عمرؓ کی رائے کی تائید میں
قرآنِ کریم کی آیت نازل فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے’’آئندہ کے بعد آپﷺ کسی
منافق مشرک کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائیں گے اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں
گے‘‘۔
بشر نامی منافق کے قتل کا واقعہ ہویا ازواجِ مطہرات کے لیے حکمِ حجاب نازل
ہونے سے پہلے حجاب کا مشورہ،مقام ابراہیم پر دو رکعت نفل پڑھنے کی آرزو
ہویاامّی عائشہؓ کی عفت وعصمت کی تقدیس کی گواھی ہر معاملہ میں قرآن عمرؓ
کی رائے کے موفق نازل ہوا۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے وفات کے وقت جو جملہ ارشاد
فرمایاوہ بھی آپؓ کی عظمت پر شاھد ہے۔’’اے اللّہ میں تیری مخلوق پرروئے
زمین کے سب سے بہتر انسان کو امیر بنا کے جا رہا ہوں‘‘۔
آپؓ کا زمانہِ خلافت فتوحات کی کثرت کی زمانہ تھا۔قیصر وکسری کے ایوانوں
میں ہلچل،ایران کافتح ہونا اور 22لاکھ مربع میل پر اسلامی پرچم لہراناآپؓ
کی شجاعت اور سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا ۔آپؓ کے دورِ خلافت میں بہت سارے
کاموں کی داغ بیل ڈالی گئی۔ڈاک کا نظام ، پولیس کا محکمہ،مکمل عدالتی نظام
اور سنِ ہجری کااجراء آپ ہی ؓ کا مرہونِ منت ہے۔آپؓ کے دور میں فوجی
چھاؤنیاں قائم کی گئیں ہر چھ ماہ بعدفوجی کو رخصت دینا،نئے پیدا ہو نے والے
بچے کے لیے وظیفہ مقرر کرنا ،ایک امام کے پیچھے بیس تراویح،مساجد میں روشنی
کا انتظام اور آب پاشی کا نظام وضع کرنا یہ وہ فلاحی کام ہیں جو آپؓ نے
اپنے دورِ خلافت میں سر انجام دئیے جن پر آج بھی اُمتِ مسلمہ کو ناز ہے ۔اتنی
بڑی سلطنت کے سربرا ہ سادگی کی زندگی بسر کرتے اور دستر خوان پر ایک سے
زائد کھا نوں کو نا پسند فرماتے ۔جس کو کسی علاقے کا امیر مقرر فرماتے اس
کے اثاثہ جات کو اپنے پاس لکھ لیتے اور معزول ہونے کے بعدتمام اثاثے شمار
کرتے اگر پہلے سے زائد نکلتے تو احتساب فرماتے۔فکرِ آخرت آپؓ کو دامن گیر
رہتی یہی وجہ کہ آپؓکی انگوٹھی مبارک پر یہ جملہ مرقوم تھا’’عمرموت نصیحت
کے لیے کافی ہے‘‘۔
آپؓ رعایا کی بڑی فکرکرتے راتوں کو گلی کوچوں میں گشت کرتے، مظلوم رعایا کی
داد رسی کرتے ا ور فرمایا کرتے کہ اگر دجلہ کے کنارے کوئی کُتاّ بھی بھوکا
پیاسا مر گیاتو عمرؓ سے اس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ یہی وجہ تھی کہ آپؓ
نے رعایا کے دل جیت کر ان پر حکمرانی کی اور کوئی بغاوت اپنا سر نہ اُٹھا
سکی۔عجزوانکساری آپؓ کے صحیفہِ اخلاق کے نمایاں باب تھے۔آخری وقت بھی بیٹے
سے فرمایا’’میرا سر تکیے سے اُٹھا کے فرش ِ خاکی پر رکھ دو‘‘۔کبھی فرماتے
’’کاش!میرے کندھوں پر یہ بوجھ نہ ڈالا جاتا‘‘۔کبھی کبھار آپ ؓ کو یہ کہتے
ہوئے سنا گیا ’’اے کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا‘‘۔شہادت کے وقت
فرمایا’’جو بھی میرے بعد خلیفہ ہو جائے وہ جان لے کہ اس خلافت کے کام میں
شدت کی ضرورت ہے مگر اس شدت میں جبروت نہیں ہونی چاہیے اور نرمی کی ضرورت
ہے مگر اس نرمی میں کمزوری کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔‘‘جس قوم نے عمرؓ جیسا
سپوت پیدا کیاوہ نظامِ حکومت،اُصولِ سیاست اورمعاملاتِ حیات میں دوسروں کی
شاگردی اِختیار کرلے تو بد بختی کے سوا اِسے کیا عنوان دیا جائے؟؟؟پتہ نہیں
ہمارے دلوں پر قفل پڑگئے یا ہماری عقل و فہم ہی ناپید ہے۔
آپﷺ کی زبان اقدس سے آپ ؓ کوحق و صداقت کا پروانہ جاری ہوا۔آپﷺ نے فرمایا
’’اﷲ تعالی نے عمرؓ کی زبان پر حق جاری فرمادیا ہے اور عمرؓ کے دل کو حق کا
مسکن بنادیا ہے۔‘‘آپﷺ نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ
ہوتا۔دنیائے عدالت کے چمکتے دھمکتے ستاروں میں آپؓ کا نام ُمنور وتاباں رہے
گا ۔آپؓ کی شہادت کی پیشن گوئی صادق ومصدوقﷺ نے ایک مرتبہ اُحد پہاڑ پر
بیٹھ کر د ی۔ آپ ﷺکے ساتھ ابو بکرؓ و عمرؓو عثمانؓ بھی تھے۔ اُحد پہاڑ
کانپنے لگا۔آپﷺ نے اپنا پاؤں زور سے پہاڑپر مارا اور فرمایا ’’اے اُحد !پر
سکون ہو جا تیرے اوپر ایک نبیﷺ،ایک صدیق اوردو شہید ہیں ۔‘‘
بالآخر23ہجری26ذو الحجہ کو فجر کی نماز میں ابو لولؤ مجوسی نے آپؓ پر
قاتلانہ حملہ کردیا۔جس کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے یکم محرم الحرام24ھ کو
عظیم روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔صہیب رومیؓنے آپؓ کی نمازِ جنازہ
پڑھائی۔ آپ ؓ کا زمانہِ خلافت دس سال پانچ ماہ اور اکیس دنوں پر ُمحیط
ہے۔آج غریب الدیار پاکستان کو حضرت عمرؓ جیسے جری لیڈر ی ضرورت ہے جو
احتساب کے لیے خود و بھی پیش کرے اور لوگوں سے بھی احتساب کرے،
|