قدرت کے کام تو ازل سے نرالے ہیں کبھی کوئی شخص
ایسے عہدے پر جا پہنچتا ہے جس کا اس نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا ہو تا
اور کبھی کوئی ایسا شخص ایسی گھمبیر تنہائیوں کا شکار ہو جاتا ہے جو کبھی
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو تیں،کون جانتا تھا کہ ایوب خان جیسا
ڈکٹیٹر اور خود ساختہ فیلڈ مارشل اپنے گھر میں ہی اپنے خلاف وہ نعرے سنے گا
جو کوئی عام محفل میں بھی کسی کے لیے نہیں لگا تا،اسی طرح ایک وقت میں بھٹو
کا طوطی بولتاتھا ااور لگتا تھا کہ بھٹو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم
اسلام کو ایک واضح سمت دے جائے گا مگر انجام ، ،،اس کے بعد مرد مومن مرد حق
آئے اسلام کے نام کا سہار ا لیا اور جو راستے میں آیا اڑتا گیا بالآخر قدرت
کو اہل پاسکتان پہ رحم آیا اور موصوف سب کو اڑاتے اڑاتے خود اڑ گئے،ان کے
بعد قوم نے بے نظیر اور میاں صاحب کے ادوار کو یکے بعد دیگرے بھگتا ہر بار
یہی سمجھا گیا کہ اب تو کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا ،بے نظیر ایک
دفعہ اپنے برادر فاروق لغاری پر کیے گئے احسانات کی بھینٹ چڑھیں تو دوسری
طرف میاں صاحب ایک عمر رسیدہ شخص جسے بے نظیر گوبابا گو کہتی رہیں کی انا
کا شکار ہو گئے،اس کے بعد ایک بار پھر جب میاں صاحب پر قدرت مہربان ہوئی
میاں صاحب نے حسب معمول سینیارٹی کراس کر کے اپنے منظور نظر جنرل صاحب کو
فوج کی کمان سونپ دی کچھ ہی عرصہ بعد موصوف سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا
کر پاکستان کی گردن پر سوار ہو گئے،میاں صاحب جدہ سدھار گئے اور بی بی
صاحبہ نے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ
کوئی بہت زیادہ پرانا نہیں اس لیے سب کو ازبر ہو گا،ان تمام واقعات میں
قدرت کے عمل دخل سے انکار ممکن نہیں مگر بہت سی ناممکنات ان متاثرین کی
اپنی وجہ سے ممکن ہوئیں،یہ شاید اس بات کو ہر بار بھول گئے کہ ازلی اور
ابدی اقتدار صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کو روا ہے جو سارے جہانوں کا مالک و
مختار ہے وہ ذرے کو ستارہ اور ستارے کو دوبارہ خاک بنا دیتا ہے،وہ جب دینے
پر آتا ہے تو حیران کر دیتا ہے اور جب لینے پر آتا ہے تو حیران ہونے کا
موقع بھی نہیں دیتا،کوئی زرا سا غور کر لے آج بھی اپنے ملک میں بے شمار
عبرت کی مثالیں سامنے ہیں ،میاں نواز شریف اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر سوچتے
ہوں گے کہ کیا غلطی ہو ئی کہ یہ وقت دیکھنا پڑا،مریم بی بی نے کبھی گمان
بھی نہیں کیا ہو گا اٹلی اور فرانس کے بیڈز اور سنٹرل ہیٹنگ اور ائر
کنڈیشنڈ ماحول کو چھوڑ کہ جیل کا پرانا سے پنکھا اور میلی سی چارپائی پر
بھی سونا پڑ جائے گا،اسی طرح عمران خان کے ہمنواؤں نے کبھی نہیں سوچا ہو گا
کہ ایوریج تعلیمی قابلیت کے ساتھ وہ گورنر ہاؤس اور ان وزارتوں کے قلمدان
سنبھالیں گے جن کا تصور بھی محال ہو گا عام حالات میں،بات اگر ضلع چکوال کی
کی جائے تو تبدیلی یہاں بھی کم نہیں آئی،وہ لوگ جو سدا کے حکمران تھے آج
اپنی کچھارون میں بیٹھے بیتے دنوں کو یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھر رہے ہیں اور
جن لوگوں نے ہمیشہ ان کے لیے دستر خوان بچھائے اور ان کے لیے نعرے مارے آج
وہ حکمران ہیں ،کچھ لوگوں کا منظر سے ہٹ جانا تو سمجھ میں آتا ہے مگرایسے
لوگوں کا پردہ سکرین سے غائب ہو جانا عجیب ہے جن کے پاس ایک بڑا ووٹ بنک
اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہر وقت ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے تیار
رہتی ہے ،میری مراد ملک سلیم اقبال اور سردار غلام عباس سے ہے،یہ دونوں اگر
آج دور بیٹھے نظارہ کر رہے ہیں تو اس کے ذمہ دار بھی یہ خود ہیں ملک سلیم
اقبال تو ویسے بھی عملی سیاست سے تقریباً ریٹائرڈ ہو چکے ہیں مگر سردار
غلام عباس سے ضلع کے لوگوں کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں ،وہ ضلع میں سب سے بڑا
اور ذاتی ووٹ بنک رکھنے والے واحد سیاستدان ہیں مگر نجانے کیوں ان کا ہاتھ
اپنے ووٹرز کی نبض پر کبھی نہیں رہا ،ان کے ووٹرز نے ہر بار ان پر اندھا
اعتماد کیا مگر بدقسمتی سے ہر بار سردار عباس ان لوگوں کے اعتماد پر اس طرح
پورا نہں اتر سکے جس کے ووٹرز حقدار تھے،پے درپے پارٹیوں کی تبدیلی اور
بروقت فیصلہ نہ کر سکنے کی روش نے ووٹرز اور اسپورٹرز کو شدید مایوس
کیا،بجائے اس کے کہ سردار غلام عباس بڑی پارٹیوں سے اپنی بات اور مطالبات
منواتے آج حالت یہ ہے کہ چھوٹی پارٹیاں ان سے اپنے مطالبات منوا کر مرضی کا
کام لے رہی ہیں ، سردار عباس پی پی پی میں تھے ق میں چلے گئے اورپھر پی ٹی
آئی میں سب سے پہلے شامل ہوئے انہیں چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی کے ہو کے رہ
جاتے مگر نہ جانے کیوں انہوں نے پی ٹی آٗئی چھوڑ دی اور ن میں آگئے،جس وقت
سردار عباس نے ن لیگ کو جائن کیا تو اس وقت چکوال کی چھ کی چھ سیٹوں پر ن
کا قبضہ تھا بظاہر چکوال ن لیگ کا گڑھ تھا سردار عباس سینٹ میں جاتے ن لیگ
کی صدارت سنبھالتے پارٹی منظم کرتے تو آج حالات پارٹی کے ساتھ ساتھ ان کے
بھی مختلف ہوتے،مگر انہیں اچانک ایک رو ز پتہ چلا کہ نواز شریف تو ملک و
قوم کے غدار ہیں اور سردار صاحب نے بظاہر ملکی مفاد میں مگر شاید زندگی کا
غلط ترین سیاسی فیصلہ کر لیا،کیوں کہ ن لیگ کو چھوڑ کر دوبارہ پی ٹی آئی کو
جائن کرنا نرم ترین الفاظ میں ایسے ہی تھا جیسے انگور تک دسترس نہ ہونے پر
کھٹے ہونے کا فتوی لگا کر اپنی راہ لی جائے،سردار صاحب کی ن لیگ کو چھوڑنے
کی دیگر کئی وجوہات کے ساتھ ایک بہت بڑی وجہ وہ صاحب ہیں جو لوگوں کو دوسری
بادشاہی بھیجنے کا کام کرتے ہیں اور ہر موقع پر سردار عباس کی بیخ کنی کا
عزم کرتے ہیں،اور میں ان کی سردار عباس کی شان میں فرمائے گئے : مہذب :
کلمات کا عینی شاہد ہوں ،ان صاحب نے سردار عباس کی ن لیگ میں آمد کی ڈٹ کر
مخالفت کی اور سردار عباس کی شمولیت سے ذرا پہلے منوال کے مقام پر ایک بہت
بڑے جلسہ عام کا اہتمام کیا جس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ ہم کسی بھی
صورت غلام عباس کو ن لیگ میں قبول نہیں کریں گے،تاہم سردار عباس نے اعلیٰ
قیادت سے اپنے معاملات درست کیے اور ن لیگ میں شامل ہو گئے اس کے بعد کا
بلدیاتی الیکشن اور دو ضمنی الیکشن بھرپر طریقے سے نا صرف لڑے بلکہ بڑے
مارجن سے کامیابی حاصل کی ، چوہدری لیاقت کے جانے کے بعد سردار عباس کو
چاہیے تو یہ تھا کہ ن لیگ کی ضلعی صدارت سنبھالتے اورپارٹی کو منظم کرتے
مگر شاید اقتدار ہی مطلوب و مقصود مومن کے مصداق ٹکٹ نہ ملنے کی امید
الیکشن سے بہت پہلے ہی ہو چلی تھی اس کا محرک بھی شاید دلہہ کے سرمایہ دار
صاحب ہی تھے،سردار عباس نے ن لیگ کو چھوڑ جانے میں ہی عافیت جانی اور پی ٹی
آئی جائن کر لی ،یہاں پر قسمت آزمائی کا فیصلہ ہوتے ہی دو نوجوان وکلاء
میدان میں آگئے جن کے پیچھے بھی انہی صاحب کا ہاتھ بیان کیا جا رہا ہے
جنہوں نے سردار عباس کو کوٹ چوہدری بھیجنے کا عزم کر رکھا تھا،اعلیٰ عدالت
میں سردار غلام عباس چاروں شانے چت ہو گئے اور پارٹی نے اس موقع پر سردار
غلام عباس کے ساتھ کھڑا ہونے یا ان کے سر پر دست شفقت رکھنے کے یا ان کی
مرضی کے امیدوار کو ٹکٹ جاری کرنے کی بجائے انتہائی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے بدترین مخالف سردار ذوالفقار دلہہ وکو نہ صرف ٹکٹ
دے دیا بلکہ سردار عباس کو سردار ذوالفقار دلہہ کی حمایت کا نادر شاہی حکم
بھی جاری کر دیا،یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اچانک چکوال آ وارد
ہونے والے ذوالفقار دلہہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوتے اگر سردار غلام عباس ان
کی حمایت نہ کرتے،ادھر تلہ گنگ میں سردار صاحب کو ان کے بھتیجے کے عوض ق
لیگ کی حمایت کرنا پڑی ادھر بھی کامیابی سردار عباس کے بغیر ناممکن نہیں
توبہت حد تک مشکل ضرور تھی ،یوں سردار عباس کنگ کی بجائے کنگ میکر بن گئے ،اس
سارے عمل کے دوران ان کے حمایتیوں کی سردار عباس کو میدان میں دیکھنے کی
خواہش تشنہ رہی،پرویز الٰہی نے جیتنے کے فوری بعد جب تلہ گنگ کی سیٹ چھوڑ
نے کا اعلان کیا تو ایک بار پھر سردار گروپ کو امید ہو چلی کہ اب سردار
عباس این اے65کے امیدوار ہوں گے مگر چوہدری پرویز الٰہی جو ایک مرتبہ پھر
پنجاب میں بھرپور طاقت حاصل کر چکے ہیں نے چوہدری شجاعت کا بطور امیدوار
قومی اسمبلی حلقہ این 65کا شاہی فرمان جاری کر دیا حالانکہ مجھے یقین ہے کہ
وڈے چوہدری صاحب نے تلہ گنگ دیکھا تک نہیں ہو گا اور نہ آئندہ ہی شاید ایسا
ممکن ہو مگر شہنشاہوں کے فیصلوں کے آگے کسی کی مجال ہے کے دم مارے،علاقے کے
لوگ یہ اعلان سن کر حیران ضرور ہوئے مگر جیسا کہ آج کل چلن ہے کہ ہوا کا رخ
سمت متعین کرتا ہے اور ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق سب نے بادل
ناخواستہ ا س فیصلے کو تسلیم کر ہی لیا حیرانی اس بات پر بھی ہے کہ نجانے
کیا مجبوری آن پڑی سردار ممتاز ٹمن کو کہ ان کو بھی چوہدری صاحبان کی ہاں
میں ہاں ملانا پڑی حالانکہ ان کے بعد وعدہ ان سے تھا کہ جب میں چھوڑ جاؤں
گا تو آپ میری جگہ لیں گے مگر انہیں بھی بھی جھندی کی کراد ی گئی ،حلقے کے
لوگوں کو سردار عباس کی حج سے واپسی کا انتظار تھا کہ شاید واپس آ کر وہ
اپنے کاغذات جمع کروا کر خود الیکشن میں حصہ لیں گے مگر انہیں لاہور ائر
پورٹ پر اترتے ہی گجرات کے چوہدریوں نے آ لیا اور سیدھا نت ہاؤس لے گئے
وہاں پر نہ صرف انہیں حج کی مبارکبا د پیش کی بلکہ اپنی حمایت کا اعلان بھی
کروایا کم از کم ایک تبدیلی تو ضرور آئی کہ پہلے مبارک باد دینے لوگ گھر
آتے تھے آج بلاتے ہیں ،اپنی حمایت کے عوض سردار عباس کو بلدیاتی سسٹم کو
یکسر تبدیل کرنے کی نوید سنائی گئی اور ساتھ ہی سردار عباس کو یقین دلایا
گیا کہ آپ پہلے کی طرح دوبارہ ضلع ناظم چکوال ہو ں گے،تاہم یہ محض اتفاق ہی
ہو گا کہ سردار صاحب کو لگائے اس لارے کے فوراً بعد ضلع ناظم کے لیے قابلیت
ایم اے تحصیل ناظم کے لیے بی اے ،یو سی ناظم کے لیے ایف اے اور کونسلر کے
لیے میٹرک کی سمری گردش کرناشروع ہو گئی (کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ ایم این
اے اور ایم پی ایز پر بھی لاگو ہوتی )سردار عباس نے ایک بار پھر ن لیگ کی
حمایت یاخود میدان میں کودنے کی بجائے چوہدری برادران کی حمایت کا اعلان کر
دیا،خود جناب ابھی تک پی ٹی آئی میں ہی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ بندوں کو باہر
بھیجنے والے صاحب سردار عباس کو کب تک اپنی جماعت کے اندر برداشت کرتے ہیں
،اگر سردار عباس پی ٹی آئی میں ہی رہتے ہیں تو ان کا مستقبل کیا ہے،ایک طرف
ضلع ناظم کا وعدہ کر کے دوسری طرف بلدیاتی نظام کے لیے تعلیمی قابلیت کا
اعلان ۔کہیں ایک بار پھر سردار عباس کو مکمل فارغ تو نہیں کر دیا گیا،،،،،؟؟؟
|