مظلوم قوم کی تین بیٹیاں آسیہ اندرابی ،فہمیدہ صوفی
اور ناہیدہ نسرین کو این ،آئی ،اے نے بہت سارے دفعات کے تحت گرفتار کر کے
دہلی منتقل کردیا ۔تفصیلات ڈاٹ کام کے مطابق نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این
آئی اے) نے خواتین تنظیم دخترانِ ملت کی مہینوں سے نظربند صدر سیدہ آسیہ
اندرابی کو اپنی دو ساتھیوں سمیت چْپ چاپ دلی منتقل کیا ہے جہاں اْن سے
پہلے سے درج ایک معاملے میں تفتیش کی جائے گی۔ پولیس ذرائع کے حوالے سے خبر
ہے کہ این آئی اے کے افسروں نے سیدہ اندرابی،تنظیم کی جنرل سکریٹری ناہیدہ
نسرین اور فہمیدہ صوفی کو سرینگر سنٹرل جیل سے ہوائی اڈے لیجاکر وہاں سے
دلی منتقل کردیاگیا۔معلوم ہوا ہے کہ دختران ملت کی صدر اور انکی ساتھیوں کو
پٹیالہ ہاوس کورٹ میں پیش کرکے پہلے سے درج ایک معاملے میں انکی تحویل طلب
کی جائے گی تاکہ ان سے تفتیش کی جاسکے۔کئی عارضوں میں مبتلاسیدہ آسیہ
اندرابی کو طویل نظربندی سے رہائی ملنے کے کچھ ہی وقت بعد دوبارہ گرفتار
کیا گیا تھا اور وہ ابھی سرینگر سنٹرل جیل میں نظربند تھیں۔ان کے خاوند
ڈاکٹرعاشق حسین فکتو عرف محمدقاسم اڈھائی دہائی سے نظربند ہیں اور وہ آج کل
ادھمپور جیل میں نظر بندہیں۔خاند انی ذرائع کے مطابق تینوں خواتین کو صبح
پانچ بجے چْپ چاپ سخت سکیورٹی میں ہوائی اڈے پہنچایا گیا جہاں سے انہیں دلی
روانہ کردیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی 7جولائی 2018ء کی رپورٹ کے مطابق ’’بھارت کے قومی
تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے سرینگر کی مرکزی جیل میں قید خواتین کی تنظیم
دخترانِ ملت کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی اور اْن کی دو قریبی ساتھیوں
ناہیدہ نسرین اور صوفی فہمیدہ کو ایک خصوصی پرواز کے ذریعے نئی دہلی منتقل
کردیا جہاں کی ایک خصوصی عدالت نے تینوں کو دس روزہ ریمانڈ پر این آئی اے
کے حوالے کرنے کا حکم دیدیا ہے۔آسیہ اندرابی اور ان کی ساتھیوں پر غیر
قانونی طور پر بیرونِ ملک سے رقومات حاصل کرکے انہیں کشمیر میں تشدد اور
تخریبی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے کے لئے استعمال کرنے کا الزام عائید کیا
گیا ہے۔ اْنہیں بغاوت اور حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزامات کا بھی
سامنا ہے۔دختران ملت کشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں
میں پیش پیش ہے۔ تاہم، اس کا موقف ہے کہ کشمیر چونکہ ایک مسلم اکثریتی
ریاست ہے اس لئے اس کا الحاق پاکستان سے ہونا چاہیے‘‘۔
وائس آف امریکہ کے معروف نامہ نگار یوسف جمیل این آئی اے کے ذریعے
گرفتاریوں اور دلی منتقلی پراپنی اسی رپورٹ میں اس کیس کی تفصیل کچھ اس طرح
بیان کرتا ہے کہ این ، آئی ،اے نے مئی 2017 میں بھارت کی ایک نجی ٹیلی ویڑن
چینل کے ایک اسٹنگ آپریشن کے دروان تین سرکردہ کشمیری علیحدگی پسندوں کی
طرف سے کئے گئے اس اعتراف کے بعد کہ انہوں نے پاکستان اور جماعت الدعوۃ کے
امیر حافظ محمد سعید سے رقومات حاصل کی ہیں ایک کیس رجسٹر کرکے تحقیقات
شروع کی تھی۔کیس میں حافظ سعید، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری
جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں، عسکری تنظیم حزب المجاہدین
کے سپریم کمانڈر محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین احمد اور دخترانِ ملت کو
ملزم دکھایا گیا ہے۔این آئی اے نے اس سال جنوری میں دِلّی کے پٹیالہ ہاؤس
کی ایک خصوصی عدالت میں بارہ افراد کے خلاف جن میں حافظ سعید اور سید صلاح
الدین بھی شامل ہیں باضابطہ فردِ جرم دائر کی تھی۔ اس نے گزشتہ چودہ ماہ کے
دوران دو درجن کے قریب افراد کو جن میں کئی آزادی پسند لیڈر اور سرگرم
کارکن اور ایک سرکردہ تاجر بھی شامل ہیں گرفتار کیا ہے۔ وہ اس وقت دِلی کی
تہاڑ جیل میں قید ہیں۔دخترانِ ملت اور استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی
کشمیری تنظیموں نے 56 سالہ آسیہ اندرابی اور ان کی ساتھیوں کو دِلّی منتقل
کرنے کی مذمت کی ہے اور الزام لگایا ہے کہ، بقول اْس کے، ’’یہ سیاسی انتقام
کی بدترین مثال ہے‘‘۔ آزادی پسند کشمیری لیڈروں کے اتحاد، 'مشترکہ مزاحمتی
قیادت نے اس کے خلاف کشمیر میں عام ہڑتال کرنے کے لئے اپیل بھی کی۔
دختران ملت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین اور
صوفی فہمیدہ کے گھر والوں کو انہیں سرینگر کی مرکزی جیل سے ایک خصوصی پرواز
کے ذریعے دِلّی منتقل کرنے کے بارے میں با لکل بے خبر رکھا گیا۔تنظیم نے
اسے اغوا کے مترادف قرار دیدیا ہے اور کہا ہے کہ تینوں کو کچھ عرصہ قبل
اسلام آباد (اننت ناگ)کی ایک عدالت نے ایک کیس کے سلسلے میں عدالتی حراست
میں دیدیا تھا جس کے بعد پولیس نے انہیں سرینگر کی مرکزی جیل پہنچایا تھا۔
دخترانِ ملت نے استفسار کیا ہے کہ" ایک ایسے وقت جب یہ تینوں عدالتی حراست
میں تھیں انہیں کیسے این آئی اے کے سپرد کیا جاسکتا تھا اور پھر انہیں
دِلّی منتقل کرنے کی اجازت بھی دی گئی؟انڈیا ٹوڈے کے مطابق آسیہ اندرابی
اور اس کی دو ساتھیوں پرانڈین پینل کوڈ کے تحت زیر دفعات 120B, 121, 121A,
124A, 153A, 153B & 505اور18, 20, 38 & 39دفعات کے تحت غیر قانونی سرگرمیوں
میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے ۔اسے قبل 2اگست 2017ء کو دختران
ملت نے ان کی سربراہ آسیہ اندرابی کے معاملے میں اس وقت کی وزیراعلیٰ
محبوبہ مفتی پربراہ راست مداخلت کرنے کا الزام عائد کرتے ہو ئے اخبارات کے
نام جاری اپنے بیان میں تنظیم نے کہا تھاکہ سیدہ آسیہ اندرابی اور اْنکی
پرسنل سیکرٹری فہمیدہ صوفی مہینوں سے جموں کی امپھالا جیل میں نظربند
ہیں۔سیدہ آسیہ اندرابی دمے اور دیگر کئی امراض کی مریض ہیں جنکی وجہ سے
ڈاکٹروں نے،دخترانِ ملت کے بقول،اْن کے جموں جیسے گرم ترین علاقے کی جیل
میں رکھے جانے سے منع کیا تھا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں کو انتہائی
بدبودار ایک سیل میں ٹھونس دیا گیا ہے جہاں اْنکی صحت پر انتہائی مضر اثرات
پڑ رہے ہیں۔بیان میں کہا گیا تھا’’شدید گرمی کی وجہ سے آسیہ اندرابی کے جسم
پر داغ پڑ گئے ہیں جبکہ فہمیدہ کو خارش ہوگئی ہے، دونوں کے لواحقین نے
اْنہیں وادی کی کسی بھی جیل میں منتقل کروانے کیلئے عدالت سے رجوع کیا ہوا
ہے لیکن سرکار آنا کانی کرکے جان بوجھ کر اْنہیں جموں میں رکھتے ہوئے
اْنہیں وادی کی کسی جیل میں منتقل ہونے سے روکے ہوئے ہے۔بیان میں وزیرِ
اعلیٰ محبوبہ مفتی پر الزام لگاتے ہوئے کہا گیا ہے’’یہ محبوبہ مفتی کی ذاتی
ہدایت کا نتیجہ ہے کہ سیدہ آسیہ اندرابی کو وادی کی کسی جیل میں منتقل نہیں
ہونے دیا جاتا ہے‘‘
اسے بھی پہلے 19 مئی2017ء کودختران ملت نے حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا
تھا کہ وہ آسیہ اندرابی کو قتل کرنے کی سازش کر رہی ہے ۔’’وزیرِ اعلیٰ
محبوبہ مفتی پر آسیہ اندرابی کے قتل کی سازش رچانے کا سنگین الزام لگاتے
ہوئے کہا ہے’’ بھارتی حکمرانوں کے اشاروں پر محبوبہ مفتی نے خود آسیہ
اندرابی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس بات کی تائید اس امر سے ہوتی
ہے کہ آسیہ اندرابی اور فہمیدہ صوفی پر جو پی ایس اے ڈی، سی سرینگر نے عائد
کیا تھا اس میں لاجمنٹ بارہمولہ جیل رکھی گئی تھی لیکن پھر اس لاجمنٹ کو
ریاست کے ہوم ڈپارٹمنٹ نے جس کی محبوبہ مفتی خود سربراہ ہے کوٹ بلوال جیل
کر دیا (گیا)پھر چند دن بعد قلمی ترمیم سے (اسے)امپھالا جیل کر دیا
گیا‘‘۔اْنکا کہناتھا کہ ان الزامات کے حوالے سے اْنکے پاس’’کاغذی شواہد‘‘
موجود ہیں۔بیان میں درج ہے’’اس لئے ملت اسلامیہ کشمیر کا یہ گمان بے بنیاد
نہیں کہ پی ڈی پی اور بھاجپا ان کو امپھالا جیل میں قتل کرنے کا منصوبہ بنا
رہی ہیں‘‘۔14جولائی2017ء کو ایم ایل اے انجینئر رشید نے اپنے ایک بیان میں
حکومت پر الزام عائد کرتے ہو ئے کہا کہ ’’ آسیہ اندرابی کا کیا قصور ہے کہ
رات دن عورت ذات کی عزت و توقیر کی بات کرنے والے انہیں کشمیرکی بجائے جموں
کی تپتی گرمی میں اذیتوں کا نشانہ بنا رہے ہیں‘‘۔
آسیہ اندرابی ،فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین کے لئے جیل اگر چہ کوئی نئی
بات نہیں ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی کیا افتاد حکومت پر ٹوٹ
پڑی تھی کہ حقوق انسانی پر لچھے دار تقریریں کرنے والی حکومت کے لئے انہیں
نئی دہلی منتقل کرنا ضروری بن چکا تھا!انڈیا ٹی ،وی میں آپ کی عدالت میں
معروف صحافی ’’رجب‘‘کے ساتھ مستعفی ہونے کے بعد محبوبہ مفتی نے اعتراف کیا
تھا کہ ’’ہاں میرے ہی کہنے پر آسیہ اندرابی کو گرفتار کیا گیا تھا‘‘بقول
محبوبہ مفتی کے اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اب کشمیری خواتین کو گرفتار
کر کے دہلی منتقل کیا جا ئے ۔حیرت یہ کہ مہان جمہوری ملک میں روز مسلم
خواتین کے حقوق کے لئے ’’بے چین ‘‘نریندر مودی ایک چھوٹے سے کیس میں کشمیری
خواتین پر کشمیر کے اندر مقدمہ چلانے کے بجائے دلی میں مقدمہ چلانے میں
راحت محسوس کرتے ہیں آخر کیوں؟پہلی بات یہ ہے کہ محبوبہ مفتی جو خود ایک
عورت ذات ہے کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے تھی کہ آسیہ اندرابی نے دختران ملت
کی بنیاد آج نہیں بلکہ ان کی پی،ڈی،پی سے بہت پہلے 1988ء میں ڈالی ہے ۔یہ
واحد منظم اور قدیم ترین پہلی خواتین تنظیم ہے جس کا نیٹ ورک سب سے منظم
اور مؤثر ہے ، اس کا اپنا منشور اور دستور ہے ،اس کا نظم ہر ضلع میں کام
کرتا ہے ،اسے جڑے باپردہ خواتین سماجی اصلاح میں پیش پیش ہیں ۔یہ ان پڑھ
اور لکھی پڑھی خواتین کو قرآنی تعلیم سے روشناس کرتی ہیں ۔یہ عوامی چندے کے
بل بوتے پر اپنا نیٹ ورک چلاتی ہیں ۔آخر جمہوریت اور خواتین کے تحفظ کی
دعویدار پی ڈی پی وزیراعلیٰ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے بجائے انہیں
باربار جموں بھیجنے کے لئے بے صبری کا مظاہرا کیوں کر رہی تھی ؟
پھر ایک کیس میں پہلے سے مطلوب عدالتی ریمانڈ پر سری نگر سینٹرل جیل میں
نظر بند خواتین کو راتوں رات تاریکی میں سری نگر سے نئی دہلی منتقل کرانے
کی ضرورت کیا تھی ؟ محبوبی مفتی کے بقول دہلی منتقلی کی اجازت اس نے نہیں
دی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پہلے سے این ،آئی ،اے میں مطلوب کیس کا
معاملہ راتوں رات اتنا اہم کیوں بن گیا تھا کہ انہیں دلی منتقل کرنا ہی
ضروری تھا؟ کیا کشمیر میں این ،آئی ،اے وہی کچھ نہیں کر سکتی تھی جو دلی لے
جا کر اس نے کیا، خدا جانے یہ کیس اب دہلی میں کتنا طول پکڑے گا اور تب تک
یہ تینوں خواتین قید تنہائی میں رہنے پر مجبور کردی جائیں گی ۔حال ہی میں
ان خواتین کے گھر والوں نے ملاقات کرکے لوٹنے کے بعد جو انکشافات کئے ہیں
وہ دل دہلا دینے والے ہیں کہ کھانا برتنوں میں دینے کے بجائے انہیں پلاسٹک
تھیلیوں میں پیک کر کے دیا جاتا ہے ! یہ صرف اس لئے ہے کہ باہر کے جیلروں
اور جیل اسٹاف کو کشمیرکے سیاسی قیدیوں کے متعلق یہ بتانا بھی گوارا نہیں
کیا جا تا ہے کہ یہ ’’سیاسی قیدی‘‘ہیں ۔سید علی گیلانی کی کتابیں اس روداد
سے بھری پڑیں ہیں کہ باہر کے جیلوں میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا
تھا۔حقوق انسانی کی تنظیمیں اس ساری سورتحال سے واقف ہیں ۔کشمیر بار ایسوسی
ایشن کو بارہا اس طرح کے کیسز میں اس طرح کی افسوسناک کہانیاں سننے کو ملی
ہیں مگر ایک عورت ذات ’’آسیہ اندرابی اور ان کی ساتھی خواتین‘‘کے لئے بھی
نسوانیت کی بنیاد پر بھی ابھی تک کسی نے کچھ بھی کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
جموں وکشمیرکے جیلوں میں گذشتہ انتیس برس سے قید اکثر قیدی آئین کے مطابق
سیاسی قیدی ہوتے ہیں ۔سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق ہر قیدی کو گھر کے قریب
ترین جیل میں رکھنا لازمی ہے ۔بہترین کھانا ،تشدد سے پاک ماحول ،تعلیم اور
ہنر کی طرف مائل قیدیوں کو تمام تر سہولیات فراہم کرنا جیل حکام کی ذمہ
داری ہے ۔حکومت کے لئے بھی یہ لازم ہے کہ وہ قیدیوں کے مسائل کو قریب سے
مانیٹر کرے تاکہ ’’بنیادی انسانی حقوق ‘‘کی خلاف ورزی نا ہو ۔جموں و کشمیر
کے موجودہ گورنر کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی رجحانات اور تصورات کو
مد نظر رکھ کر کشمیری خواتین قیدیوں کے کیسوں کی نزاکت اور حساسیت کو مدنظر
رکھتے ہو ئے ذاتی طور پربردباری اور وسعت قلبی کا مظاہرا کرتے ہو ئے ان کی
رہائی کو یقینی بنائیں یا کم سے کم کشمیر کے کسی جیل میں منتقل کرائیں تاکہ
کشمیرمیں بڑھتی بے چینی کے مداوے کا آغاز ہو سکے ۔ قیدیوں کے اکثر عزیز و
اقارب کا شکوہ یہ ہے کہ سوسائٹی مخصوص حالات میں انہیں چند ایام تک یاد تو
رکھتی ہے مگر اس کے بعد کوئی ان کے دروازے پر دستک تک نہیں دیتا ہے ۔یہ
ایسا المیہ ہے جو قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کو شدید اذیت میں مبتلا کرتا
ہے ۔ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ سیاسی اختلافات سے اوپر اٹھ کر اس انسانی
مسئلے کو سمجھنے کے بعد اپنی ملی اور قومی ذمہ داریوں کا احسا س کریں تاکہ
قیدیوں کا اہل و عیال کسی بھی طرح کی پریشانی میں مبتلا نا ہو اس لئے کہ
بعض قیدی صرف اس لئے جیلوں میں پڑے رہتے ہیں کہ کسی قابل وکیل کی خدمات
حاصل کرنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا ہے ۔ |