میں کیوں ہندو ہوں (وائی آئی ایم این ہندو) کے
مصنفاوررکن پارلیمان ششی تھرور نے مغلیہ سلطنت کو بجا طور پر ہندوستانی
تاریخ کا سنہرا دورقرار دیا ہے ۔ اس زمانے کی اصلاحات کےنتیجے میں رونما
ہونے والی خوشحالی کا عشر عشیر بھی آزادی کے بعد حاصل نہیں ہوسکا۔ اس
حقیقت کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی دنیا بھر کے سیاح تاج محل کو
دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور ہر وزیراعظم کو لال قلعہ سے یوم آزادی کی
تقریر کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں ہونی چاہیے
کہ مغلیہ حکمرانوں نے ہندوستان کے سیاسی و سماجی نظام کوپوری طرح اسلام کے
سانچے میں ڈھالنے کی کماحقہُ سعی نہیں کی۔ معاشرتی تانے بانے کی بنیاد کو
چھیڑے بغیر اوپری اصلاحات پر اکتفاء کیا۔اس نامکمل تبدیلی کے باعث ہندو
معاشرت کی بہت ساری خرابیاں دور تونہیں ہوئیں ہاں مسلم معاشرے میں کسی نہ
کسی حد تک سرائیت ضرور کرگئیں۔ ویسے بھی مذہب اسلام کسی غیر کے انفرادی و
اجتماعی طرز حیات میں دخل اندازی کا قائل نہیں ہے۔
مسلم حکمرانوں میں سے کئی اپنی ذاتی زندگی میں خاصے متقی و پرہیزگار تھے
اور کئی ایسے بھی تھے کہ جنہیں دین اسلام میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ ان
میں سے کسی نے ملوکیت کو خلافت میں بدلنے کی سعی نہیں کی لیکن سیاسی سطح
پرہندودھرم کا جبر کم ضرور کردیا۔ ہندو سماج میں اعلیٰ طبقات کے جو لوگ
سرکار دربار سے منسلک ہوئے ان کے تہذیب و تمدن پر مسلمانوں کے گہرے اثرات
مرتب ہوئے لیکن عام آدمی کے طرز زندگی پر اسلام بہت زیادہ اثر انداز نہیں
ہوسکا۔ بزرگان دین کی دعوتی سرگرمیاں سماج کے بااثر طبقات پر اثر انداز
ہوئیں ۔ سماجی استحصال کرنے والے سابقہ حکمراں طبقہ نے بھی اپنے ضمیر کی
آواز پر لبیک کہتے ہوئے یا مفاد کی خاطر مذہب اسلام قبول کرلیالیکن
گوناگوں وجوہات کے سبب ان کی تربیت و تزکیہ کا معقول انتظام نہیں ہوسکا اس
لیے تبدیلی ٔ مذہب کے باوجودعوام الناس کے ساتھ ان کے رویہ میں کوئی خاص
فرق نہیں آیا اور اونچ نیچ کی بیماری ان نو مسلمین کے توسط سے مسلم امت
میں بھی درآئی۔
بزرگان دین کی دعوتی سرگرمیوں کے سبب بہت سارے دبے کچلے عوام اسلام کے
آغوش رحمت میں آئے ۔ ان لوگوں نے بوسیدہ عقائد و فرسودہ نظریاتسے بہت
حدتک نجات حاصل کرلی لیکن سماجی نظام کی ناقص تبدیلی ان کے پیروں کی بیڑی
بن گئی۔عوام نے ذات پات کے خلاف بغاوت اس لیے نہیں کی کہ وہ اسی فرسودہ
سماج سے آنے کے سبب اس کے عادی تھے۔ سرزمین ہند پر وجود میں آنے والا
مسلم معاشرہ بظاہر ہندووں سے بہت مختلف ضرور تھا اور ہے لیکن اندر ہی اندر
بہت سارے قدیم غیر اسلامی اقدار کو پوری طرح مٹایا نہیں جاسکا جن میں سے
ایک ذات پات کی لعنت کے اثرات ہیں ۔
اس کمی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ دعوت کا کام تو بہت خوش اسلوبی سے کیا
گیا مگر تعلیم و تربیت کے ادارے خاطر خواہ تعداد میں قائم نہیں ہوسکے جو
بہت بڑی تعدادمیں اسلام قبول کرنے والی کی ضرورت کے لیے کافی و شافی ہوتے۔
مسلم حکمرانوں نے علماء کی تعلیم و تربیت و تحقیق تک کا انتظام کیا۔فتاویٰ
عالمگیری کی ترتیب و تدوین اس کا ثبوت ہے کہ جس کو تیار کرنے پر اس زمانے
کے دولاکھ روپئے کی خطیررقم خرچ ہوئی لیکن عوامی تزکیہ کے لیے کوئی بہت بڑی
تحریک برپا نہیں ہوئی۔ حکمراں اول تو جنگ و جدال میں مصروف رہے اور بعد میں
عیش و طرب کا شکار ہوکر انگریزوں سے مغلوب ہوگئے۔اس طرح سرزمین ہند کا
اسلامی انقلاب کم ازکم سماجی و سیاسی سطح پر پوری آب و تاب کے ساتھ برپا
نہ ہوسکا۔
مسلمانوں کے بعد بھی مراٹھے ہندوستان کے ایک بڑے حصے پر قابض تھے ۔ پیشوائی
کے خاتمہ کی خاطر انگریزوں کے لیے مسلمانوں کا ساتھ لینا ممکن نہیں تھا اس
لیے کہ وہ انہیں اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے ۔ انگریزوں کی ایک حکمت عملی
اسلامی اثرات کو مٹانا بھی تھا اس لیے ان لوگوں نے ہندوستانی صنعت کے ساتھ
ساتھ مسلمانوں کے تعلیمی نظام کو تتر بتر کردیا۔ علماء تو خیر ان کے نزدیک
باغی تھے ایسے میں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے ہندوستان کی کمزور
طبقات کو آگے بڑھایا گیا۔تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکےمختلف سرکاری
اداروںبشمول فوج میں ان کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ مہار رجمنٹ اسی زمانے میں
قائم ہوئی اور اس نے مراٹھوں کے گڑھ میں پیشوائی کو اکھاڑ پھینکنے کے اندر
اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران شاہو جی مہاراج کی سماجی اصلاحات اور جیوتی با
پھلے کی تعلیمی بیداری نے بھی معاشرے کے دلت طبقات میں مثبت تبدیلی پیدا کی
۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اس وقت کے مسلمان بجا طور پر انگریزوں کے نظام
تعلیم کو اپنے دین و تہذیب کے لیے خطرہ سمجھتے لیکن غیر مسلمین کے اندر اس
کے تئیں کوئی مزاحمت نہیں تھی ۔ اس لیے ابتداء میں دنیوی تعلیم کے اندر وہ
مسلمانوں سے آگے ہوگئے۔
ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑنے والےتلک اور گوکھلے جیسےبراہمن رہنماوں
دیکھ کر پچھڑے طبقات کے دانشوروں کو انگریزی سرکار میں عافیت نظر آتی تھی
۔ کانگریس بھی بابا صاحب امبیڈکر جیسے عبقری دلت رہنما کومحروم رکھ کر اپنی
ذہنیت کا ثبوت دے چکی تھی۔ اس تاریخی حقیقت سے کون انکار کرسکتاہے کہ بابا
صاحب کو ہندو مہاسبھا یا کانگریس نےنہیں بلکہ مسلم لیگ نے کامیاب کرکے
ایوان پارلیمان میں بھیجا تھا ۔ آزادی کے بعد ذات پات کی بنیاد پر پیدا
ہونے والے سماجی ومعاشی تفاوت کو دور کرنے کے لیے ریزرویشن کو ایک عارضی
نسخے کے طور پر آزمایا گیا اور یہ توقع کی گئی کہ اس کے ذریعہ دس سالوں کے
اندر پانچ ہزار سالہ نانصافی کا ازالہ ہوجائے گا۔
مسلم معاشرے کے اندر مختلف پیشہ ورانہ طبقات کے درمیان معاشی تفاوت تو ہے
لیکن کم از کم مذہبی سطح پر یہ بھید بھاو نہیں پایا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے
کہ جب کتاب الٰہی میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ’’وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي
آدَمَ ‘‘یعنی ’’ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی‘‘ تو اس میں رنگ و نسل ،
ذات برادری، ملک و قوم بلکہ مذہب تک کی تحدید نہیں کی جاتی۔ یعنی انسان کی
حیثیت سے سارے لوگ قابل تکریم ہیں ۔ اس کے علاوہ نبیٔ کریم ؐ کے خطبۂ حجتہ
الوداع کا معرکتہ الآراء پیغام زبان زدِ عام ہے جس میں آپؐ نے فرمایا’’اے
لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہار باپ آدم بھی ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر
کوئی فضیلت نہیں ہے کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ کسی کالے
کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے فضیلت کا
معیار صرف تقوی ہے‘‘۔۔ اس بابت علامہ اقبال کی سائنسی دلیل ملاحظہ فرمائیں
؎
حقیقت ایک ہے ہر شے کی نوری ہو کہ ناری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
ارشادِ ربانی ہے ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور
پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در
حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب
سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔ اس
آیت کریمہ میں عزت و احترام کورنگ و نسل یا ذات پات کے بجائے تقویٰ و
پرہیزگاری سے منسوب کردیا گیا جس کا حقیقی علم خدا کے سوا کسی کو نہیں ہے۔
یہاں پر گروہ انسانی کے قوموں اور برادریوں میں منقسم ہونے کی حقیقت کو
تسلیم کیا گیا لیکن اس کو باعث تفاخر نہیں بلکہ شناخت کی حد تک محدود کردیا
گیا۔
اس کے برعکس وطن عزیز میں پیشوں کی بنیاد پر ذات پات کا نظام رائج کرکے اس
کے ساتھ چھوت چھات کو مذہب کی آڑ میں نافذ کردیا گیا۔ اس سازش کے ذریعہ
مٹھی بھر لوگوں نے ملک کی عظیم اکثریت کو غلام بناکر اس کا ناقابلِ تصور
اخلاقی و معاشی استحصال کیا۔ اس کے نتیجے میں جنم لینے والی معاشی پسماندگی
کو دور کرنے کے لیے آئین میں ریزرویشن کی سہولت فراہم کی گئی ۔ جن پیشوں
کو یہ سہولت مہیا ہے اس کو کرنے والے مسلمان بھی ریزرویشن کے فائدوں سے
بہرہ مند ہوسکتے ہیں ۔مسلمانوں کو ان مراعات سے آگاہ کرنے کا کام مسلم
اوبی سی تحریک کررہی ہے تاکہ وہ اس سےمستفیدہوسکیں ۔یہ ایک ملی مسئلہ ہے
اور اس کی خاطر متحد ہوکر جدوجہد کرنا سارے مسلمانوں کا فرض منصبی ہے۔اس
مقصد کے حصول کی خاطر ۱۱ ستمبر ۲۰۱۸کو ممبئی کے برلا ماتوشری ہال میں
منعقد ہونے والی کانفرنس کو کامیاب بنانا ایک ملی فریضہ ہے۔ |