جمہوریت کا حسن

ہمارے ”پیرو مرشد “وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اکثر مواقع پر اپنی نا اہلیوں کو چھپانے اور ان کی پردہ پوشی کرنے کے لئے فرمایا کرتے ہیں کہ ”یہ جمہوریت کا حسن ہے“ جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ بہت سارے اختیارات حاصل ہونے کے باوجود کوئی فیصلہ ڈھنگ سے اور وقت پر کیوں نہیں کرپاتے؟ جواب آتا ہے ”یہ جمہوریت کا حسن ہے“ ۔ سوال کرنے والا پوچھتا ہے کہ جناب آپکے وزراء تو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے، برسر پیکار ہوگئے، قانونی جنگ، لفظوں کی جنگ، میڈیائی جنگ جاری و ساری ہے تو وہ جواب دیتے ہیں ”یہ جمہوریت کا حسن ہے“ ، جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ جناب ہر طرف افرا تفری ہے، مہنگائی ہے، بد امنی ہے، دہشت گردی ہے وغیرہ وغیرہ تو جواب آتا ہے ”یہ جمہوریت کا حسن ہے“ ، وہ خود کسی وزیر کو کرپشن کے الزامات پر برطرف کریں یا بیان بازی پر تو خود ہی فرماتے ہیں ”یہ جمہوریت کا حسن ہے“ ۔ کسی بھی محکمہ میں نا اہل لوگوں کی بھرتیوں کا معاملہ ہو، کرپشن اور اقرباء پروری کی شکایات ہوں، جمشید دستی جیسے لوگوں کو دوبارہ ٹکٹ دینے اور اس کی الیکشن مہم میں بذات خود حصہ لینے کی بات ہو، اعلیٰ عدلیہ کے واضح اور صریح فیصلوں سے روگردانی کی روش ہو، کوئی بھی بات کی جائے، کوئی بھی سوال پوچھا جائے، جناب وزیر اعظم صاحب کا جواب ہوتا ہے ”یہ جمہوریت کا حسن ہے“ !

”جمہوریت کے حسن“کی تازہ ترین مثال گورنر پنجاب کا تقرر ہے۔ مشہور زمانہ، سابق اٹارنی جنرل، سابق مشیر IT ، سینیٹرلطیف کھوسہ کو پنجاب کا نیا گورنر تعینات کر دیا گیا ہے۔ یہ وہی لطیف کھوسہ ہیں جن پر رشوت کے الزامات کی وجہ سے انہیں اٹارنی جنرل کے عہدہ سے ہٹا دیا گیا تھا، ہٹانے والے تھے یہی وزیر اعظم گیلانی، جب اٹارنی جنرل کے عہدہ سے سبکدوش کردیا گیا تھا تو لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہوکر اپنی سبکدوشی کو براہ راست چیف جسٹس کے نام لگا دیا گیا تھا اور ان کے بقول یہ چیف جسٹس کی ذات تھی جس نے حکومت کو اٹارنی جنرل کو ہٹانے کا کہا، کھوسہ صاحب کے بقول چیف جسٹس ان کا کیس پاکستان بار کونسل کو بھی بھیج سکتے تھے اور خود بھی انہیں بلا کر پوچھ سکتے تھے۔ اٹارنی جنرل کے علاوہ انہیں وزیراعظم کے مشیر برائے IT کے عہدہ سے بھی ہٹایا جا چکا ہے۔ بقول حاجی اشرف، لطیف کھوسہ میں اور کوئی قابلیت ہو یا نہ ہو، انکی گورنری کے لئے ایک ہی قابلیت کافی ہے اور وہ ان کا صدر زرداری کا دست راست اور کرپشن کے مقدمات میں ان کا وکیل ہونا ہے۔ حاجی اشرف یہ بھی کہتا پایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت پاکستان کی ایک ایسی حکومت ہے جس کو بوجوہ نہ تو اپنی نیک نامی سے کوئی غرض ہے، نہ اداروں کی تنزلی سے اور نہ یہاں کے عوام کی حالت زار سے، اگر اسے کوئی غرض ہے تو من مانیاں کرنے اور تجوریاں بھرنے سے۔

لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کس طرح کی جمہوریت ہے اور اس کا کیسا حسن ہے کہ ایسے سبھی لوگ جو کرپشن کے بے تاج بادشاہ ہوں، وہ انتہائی اہم اور اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں۔ جو جتنا بڑا چور اور لٹیرا ہے اس کے لئے اتنا ہی بڑا عہدہ ہے۔ ایسا شخص جس پر کرپشن کے الزامات ہوں، جس کا سیاسی پس منظر بھی کوئی خاص نہ ہو، جو ٹیکنو کریٹ کی نشست پر سینیٹر ہو اور اس کا کوئی سیاسی حلقہ انتخاب نہ ہو، جو پیپلز پارٹی کا جیالا کم اور صدر زرداری کا متوالا زیادہ ہو، جو مشرف کے خلاف پہلے وکلاء تحریک میں شامل ہوا ہو اور پھر موقع ملتے ہی اس کا دست و بازو بن گیا ہو، جو پنجاب میں صرف چوہدری برادران سے دوستی رکھتا ہو اور پنجاب حکومت سے خدا واسطے کا بیر اور جس کی براہ راست وزیر اعظم کے ساتھ مخاصمت جاری ہو، وہ شخص سب سے بڑے صوبے کا آئینی سربراہ بن جائے، وفاق کے نمائندے کے طور پر آکر بیٹھ جائے تو صوبے کے معاملات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں، اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے کسی سائنسدان کا ذہن ضروری نہیں۔ معلوم نہیں کہ وزیر اعظم صاحب اختیارات ملنے کے باوجود اتنے ”بونے“ کیوں ہیں، جو گورنر کی تقرری سے چند گھنٹے پہلے تک یہ کہتے پائے گئے کہ گورنر کی تقرری ان کا استحقاق ہے، اچانک اس حق سے دستبردار کیوں ہوگئے؟ کیا کرپشن کے حمام میں ننگے ہونے کی وجہ سے، بدعنوانی کے ہر معاملے کا ”کھرا“ ملتان پہنچنے کی وجہ سے یا اپنے بیٹے کا نام بڑے بڑے ناموں میں شامل ہونے کی وجہ سے (کیونکہ یہاں بڑے نام صرف ”لوٹنے“ والوں کے ہوا کرتے ہیں)، عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر فیصلہ صدر کی صوابدید پر تھا تو اتنے دن کیوں لگائے گئے، لوگوں کو جھوٹی امید پر کراچی یاترا کیوں کرائی گئی؟

پاکستان کے لوگ اور پیپلز پارٹی کے جیالے بھی وزیر اعظم سے کہنا چاہتے ہیں کہ ”جناب !اگر جان و مال کی امان پائیں تو ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے اس جمہوریت کے لئے اتنی قربانیاں نہیں دی تھیں جس میں آپکے بقول جمہوریت کا حسین چہرہ اتنا بھیانک ہو، جس میں کرپشن اور بدعنوانیوں کا بول بالا ہو، جس میں روز بروز بڑھتی مہنگائی عوام کا جینا محال کردے، جس میں دن بدن دہشت گردی بڑھتی چلی جائے، جس میں حکومت کسی بھی کام میں انصاف نہ کرے اور جس میں عدالتوں کو از خود نوٹس لے کر حکومت کو اس کے فرائض یاد دلانا پڑیں، جناب والا! عوام نے قربانیوں کی داستانیں اس لئے رقم کی تھیں کہ ان کے حقوق کا ادراک کیا جائے اور عدل و انصاف کا بول بالا ہو، حکومت سب سے پہلے اور سب سے زیادہ عدالتوں کا احترام کرے ، رشوت ستانی، کرپشن اور اقرباء پروری کا خاتمہ ہو، آئینی عہدوں اور اداروں کے سربراہان کی تقرری کے لئے کوئی میرٹ مقرر ہو، صرف یہی میرٹ کافی نہ ہو کہ کون آپکا دوست ہے اور اس کا تعلق ملتان سے ہے اور کون صدر کا دست راست ہے اور ان کا وکیل ہے....، اگر اسے ہی جمہوریت کا حسن کہتے ہیں تو چہرہ مسخ ہونا کسے کہا جائے گا؟ وزیر اعظم بتائیں گے یا کوئی اور....؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222455 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.