میں خان کا انتخابات سے پہلے بھی مخالف رہا، بعد میں بھی
اور ابھی بھی ہوں مگر مخالفت کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اسکی ہر بات سے کیڑے
نکالے جائیں اور تنقید برائے تنقید کا راستہ اختیار کیا جائے جو سوشل میڈیا
پر کچھ نادان دوست اختیار کرکے آرہے ہیں
گو ڈیموں اور شجرکاری کی ناکامی ہم نے خیبر پختونخواہ میں بھی کس قدر نوٹس
کی ہے کہ نہ تو 350 ڈیم بن سکے اور نہ بلین ٹری سونامی سے کے پی کی فضاؤں
میں تازہ ہوا کا جونکا واضح طور پر نظر آیا، البتہ جس جذبے اور حمیت سے آج
یہ دونوں کام مرکزی حکومت کی نگرانی میں ہورہے ہیں تو ہمیں یہ نہیں سوچنا
چاہئے کون کررہا ہے اور کون اس کی کریڈٹ لے گا البتہ دونوں کاموں کا
پاکستان کی مستقبل کو خاص الخاص ضرورت ہے، اور ہمیں اس پر تنقیدی نگاہ سے
ضرور سوچنا چاہئے تاکہ کام کا معیار بہتر ہو البتہ اسکی مخالفت کرنا محب
وطن پاکستانی کا شیوا نہیں ہوسکتا
کالا باغ ڈیم چونکہ صوبوں کے مابین اختلافات کیوجہ سے پہلے التوا اور اب
ایک نیشنل لیول کا کنٹروورشل معاملہ بن گیا ہے لہذا کالا باغ کے نام سے
چمٹے رہنا بھی قومی مفاد بحرحال اس نازک دور میں نہیں کہا جاسکتا اسلئے
کالاباغ نہ سہی دوسرے بڑے ڈیم کی شروعات میں جس نے بھی تگ ودو کئے ہیں خواہ
وہ کسی بھی سیاسی پلیٹ فارم سے ہوں یا وہ چیف جسٹس پاکستان ہی کیوں نہ
ہو،خراج تحسین کے مستحق ہیں۔۔۔
عمران خان اگر روایتی طور پر چندہ کی بجائے امداد یا اعانت کا اصطلاح
استعمال کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا، اور اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ آپ چندہ
اکھٹا کرو اور ڈیم بناؤ بلکہ جس نعروں اور وعدوں پر قوم نے آپکو ووٹ دیا
تھا وہ ڈیم کا نعرہ قطعی نہ تھا، وہ پانامہ، باہر کا پیسہ، روزانہ اربو
روپے کی کرپشن کی روک تھام اور بیروکریسی کا احتساب تھا، اگر آپ اس وجہ سے
پیسہ اکھٹا نہیں کرپائے جو آپ نے انتخابات میں وعدے کئے تھے تو چندے سے ڈیم
بیشک بنا کر بھی آپکے سیاسی ساکھ کو بچا نہیں پائے گا
اور ساتھ ہی ساتھ 10 بیلین درخت کی شجرکاری جو بلاشبہ ایک قابل تحسین عمل
ہے مگر ڈرنا اس وقت سے چاہئے جب اسکی حالت بھی کے پی طرز کا بلین ٹری
سونامی یا 350 ڈیموں کی طرح ہوجائے، جسے نہیں ہونا چاہئے، لہذا میں حالات
کو مدنظر رکھ کر ان دونوں پراجکٹس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں- |