بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے، جو
پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت
اخلاق ہے، ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے،
چنانچہ آپﷺ کی راز دار زندگی اور آپﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں، ”آپﷺ کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے“۔ آپﷺ نے
اپنے ہر قول وفعل سے ثابت کیا کہ آپﷺ دنیا میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کے
واسطے تشریف لائے، چنانچہ ارشاد ہے: ”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق“ یعنی ”میں
(رسول اللہ ﷺ) اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیا ہوں“۔ پس جس نے جس
قدر آپﷺ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاکر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپﷺ
کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا، صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے، ”ان
خیارکم احسن منکم اخلاقا“ یعنی ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے
اچھے ہوں“۔ حاکم کی روایت میں ہے کہ ”قیامت کے دن ترازو میں سب سے زیادہ جو
چیز بھاری ہوگی وہ اخلاق حسنہ ہے، حسن اخلاق والا انسان اپنے اخلاق حسنہ سے
دائمی روزہ دار اور دائمی نماز کا درجہ حاصل کرسکتا ہے“۔ ترمذی شریف میں ہے
کہ ”مسلمانوں میں اس کا ایمان مکمل ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں“۔ بیہقی
میں روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا، ”تم میں میرا سب سے پیارا اور نشست
میں سب سے زیادہ نزدیک وہ ہے جو تم میں خوش خلق ہو اور مجھے ناپسند اور
قیامت میں مجھ سے دور وہ ہوں گے جو تم میں بداخلاق ہوں گے“۔ حضورﷺ کی ساری
زندگی اخلاق حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی ”انک لعلی خلق
عظیم“ یعنی ”بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں“۔ انسان کے حالات
سے واقف بیوی سے بڑھ کر دنیا میں کون ہوسکتا ہے؟ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا جو آپﷺ کی زوجیت میں پچیس سال رہیں،آغاز وحی کے زمانہ میں آپﷺ کو ان
الفاظ میں تسلی دیتی تھی، ”ہرگز نہیں خدا کی قسم !خدا آپﷺ کو کبھی غمگین
نہیں کرے گا، آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، مقروض کا بار اٹھاتے ہیں، غریبوں کی
اعانت کرتے ہیں،مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں، حق کی حمایت کرتے ہیں، مصیبتوں
میں لوگوں کے کام آتے ہیں“ ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں، آپﷺ کی عادت کسی کو برا بھلا
کہنے کی نہ تھی، برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ درگذر فرماتے۔
لہٰذا ہم پر فرض ہے،خصوصاً انبیاء کرام کے نائبین کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے
ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں، اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد بھی ہوجائے تو
درگذر کرنے والے بنیں، معذرت کو قبول کرنے والے بنیں۔ امام شافعی رحمۃاللہ
علیہ فرماتے ہیں، ”اقبل معاذیر من یأتیک معتذرا ان بر عندک فیما قال و فجرا
لقد اطاعک من یرضیک ظاہرة ولقد اجلک من یعصیک مستترا“ یعنی ”معذرت کرنے
والے کی معذرت کو قبول کرلے، چاہے تمہارے خیال میں وہ بھلا ہو یا برا ہو،
ظاہر میں تجھے راضی رکھنے والا تیرا مطیع ہے اور جرم کرتے وقت تجھ سے
گھبرانے والے کے دل میں تیرا رحم ہے“۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے جب یہ آیت ”خذ العفو وأمر بالعرف واعرض عن الجاہلین“
نازل ہوئی تو حضور اکرمﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے اس آیت کا مطلب
پوچھا،حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا، پھر فرمایا،
اس آیت میں آپ کو یہ حکم دیا گیا ہے، ”ان اللّٰہ امرک ان تعفو عمن ظلمک
وتعطی من حرمک وتصل من قطعک“ یعنی ”بے شک اللہ تجھے حکم دیتا ہے کہ جو آپﷺ
پر ظلم کرے آپﷺ اسے معاف فرما دیں، جو آپ کو محروم رکھے آپﷺ اسے عطا کریں
اور جو آپﷺ سے قطع تعلق کرے آپﷺ اس سے صلہ رحمی سے پیش آئیں“۔ غزوہ ٴ احد
میں جب حضورﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا گیا اور
بڑی بے دردی سے ان کے اعضاء کاٹ کر لاش کی بے حرمتی کی گئی تو نبی کریمﷺ نے
لاش کو اس ہیئت میں دیکھ کر فرمایا کہ جن لوگوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے، میں ان کے ستر آدمیوں کے ساتھ ایسا
معاملہ کر کے چھوڑوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، جس میں آپﷺ کو یہ بتایا
گیا کہ آپﷺ کا یہ مقام نہیں،آپﷺ کے شایان یہ ہے کہ عفو ودرگذر سے کام
لیں۔لہٰذا عفو سے مراد لوگوں کے اعمال واخلاق میں سرسری اطاعت کو قبول فرما
لیا کریں، زیادہ تجسس وتفتیش میں نہ پڑیں اور ان کی خطاؤں سے عفو ودرگذر
کریں، ظلم کا انتقام نہ لیں، چنانچہ آپﷺ کے اعمال واخلاق ہمیشہ اسی سانچے
میں ڈھلے رہے جس کا پورا مظاہرہ اس وقت ہوا جب مکہ فتح ہوا تو ”لاتثریب
علیکم“ کا عمومی اعلان فرمایا اور آپﷺ کے جانی دشمن جو آپﷺ کے قبضہ میں
آئے، ان سب کو آزاد کردیا۔ دوسرا جملہ اس آیت مبارکہ کا ”امر بالعرف“ ہے۔
”عرف“ بمعنی معروف ہر اچھے اور مستحسن کام کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو
لوگ آپﷺ کے ساتھ برائی اور ظلم سے پیش آئیں، آپﷺ ان سے انتقام نہ لیں، بلکہ
معاف کردیں مگر ساتھ ان کو نیک کام کی ہدایت بھی کرتے رہیں گویا برائی کا
بدلہ نیکی سے، ظلم کا بدلہ صرف انصاف سے نہیں بلکہ احسان سے دیں۔ تیسرا
جملہ ”واعرض عن الجاہلین“ جس کے معنی جاہلوں سے آپﷺ کنارہ کش ہوجائیں مطلب
یہ کہ ظلم کا انتقام چھوڑ کر آپﷺ ان کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا
معاملہ کریں اور نرمی کے ساتھ ان کو حق بتلائیں، مگر بہت سے جاہل ایسے ہوتے
ہیں جو اس شریفانہ معاملہ سے متأثر نہیں ہوتے، اس کے باوجود جہالت اور سختی
سے پیش آتے ہیں تو پھر آپﷺ ان کی دل خراش اور جاہلانہ گفتگو سے متاثر ہوکر
ان ہی جیسی گفتگو نہ کریں، بلکہ ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔ پس جو اللہ پاک
اور رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ برے اخلاق سے دور رہیں اور
اخلاق حسنہ کے پیکر بنیں تو دنیا کے بھی محبوب اور دنیا والوں کے بھی محبوب
بنیں گے۔ |