رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ رحم فرمائے ہم پر ایسے حکمران مسلَّط ہو گئے ہیں، جن کا جینا بھی
مسلمانوں کے لئے مصیبت ہے اور اُن کا مرنا بھی مصیبت. پاکستان میں تو
روزانہ سینکڑوں اور درجنوں افراد قتل ہوتے ہیں. ان ہی میں گورنر پنجاب بھی
شامل ہو گئے. کسی بھی مُلک میں ہر شہری کا خون برابر کی قیمت رکھتا ہے. وہ
شہری کوئی مزدور ہو یا گورنر. اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں’’علما‘‘ کے مقام
کو اونچا قرار دیا ہے. پاکستان میں تو آئے دن علما کرام بھی شہید کئے جاتے
ہیں. پھر’’گورنر پنجاب‘‘ کے قتل پر روشن خیالوں کی کالی زبانیں اتنی تیز
کیوں چل رہی ہیں؟. کراچی میں ایک غریب آدمی قتل ہوتا ہے اُس کے پیچھے گھر
میں کوئی کمانے والا تک نہیں ہوتا. اُس کی بیوہ خاوند کو الگ روتی ہے اور
اس بات کو الگ کہ کل کا چولہہ کیسے جلے گا. جبکہ گورنر صاحب تو اپنے ورثا
کے لئے کم ازکم ایک ارب ڈالر کے اثاثہ جات چھوڑ گئے ہیں. ایک پورا ٹی وی
چینل، ایک چالو اور بے حیا اخبار ٹیلیفون کی کمپنی ورلڈ کال. اور اکاؤنٹنٹ
کی ایک ایسی کمپنی جو ماہانہ کروڑوں روپے کماتی ہے. اس کے علاوہ بھی بہت
کچھ. چند دن پہلے خود بی بی سی والوں سے فرما رہے تھے کہ میرے مالی اثاثے
ایک ارب ڈالر سے زائد کے ہیں. بلوچستان میں زندہ جل جانے والے مزدور کے
بچوں کو کیا پتا کہ ایک ارب ڈالر کیا ہوتے ہیں اُن غریبوں کو تو بیس روپے
کا دودھ بھی نصیب نہیں ہوتا.
روشن خیالوں نے اس مُلک میں قتل و غارت کی آگ خود جلائی ہے. اس مُلک پر نہ
تو افغانستان کے طالبان نے حملہ کیا تھا اور نہ پاکستان کی کسی جہادی جماعت
نے .اس ملک کو تو روشن خیالوں کی حرام خوری نے برباد کیا ہے. غیر مُلکی
امداد اور کافروں کی خوشنودی کے لئے اس ملک میں قتل و غارت کی آگ سب سے
پہلے کس نے بھڑکائی؟. گورنر پنجاب کے قریبی دوست پرویز مشرف نے. آج اگر
کوئی یہ کہے کہ سلمان تاثیر کا قاتل بھی پرویز مشرف ہے تو یہ بات غلط نہیں
لگتی. تھوڑا سا غور کریں. یہ روشن خیال دانشور ہمیشہ کہتے ہیں کہ جنرل ضیا
الحق نے اس ملک میں کلاشنکوف کلچر عام کیا. مولویوں کو طاقتور کیا. یہ تو
کوئی پُرانی تاریخ نہیں ہے آپ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں تلاش کریں کہ اُس
وقت پاکستان میں روزآنہ کتنے افراد قتل ہوتے تھے؟. پھر پرویز مشرف کا دور
دیکھیں اور آج کے قتل شمار کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے. وہ دور تو آج کے
مقابلے میں بہت پر امن تھا. وجہ یہ تھی کہ اُس وقت ہم’’جہادِ افغانستان‘‘
کا تعاون کر رہے تھے. اور جہاد کی برکت سے مسلمانوں کو امن نصیب ہوتا ہے.
اور اب ہمارے روشن خیال حکمران مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کی مدد کر
رہے ہیں. نتیجہ ظاہر ہے کہ ہم امن سے محروم ہو چکے ہیں. اس بھڑکتی آگ کی
کوئی چنگاری کسی گورنر تک بھی پہنچ جاتی ہے. پھر اتنا شور مچانے کی کیا
ضرورت ہے؟. کیا روشن خیالوں کو ڈر لگنے لگا ہے یا را، موساد اور سی آئی اے
نے اپنی این جی اوز کو ہشکارہ دیا ہے کہ شاباش اچھا موقع ہے. مدرسہ، مسجد،
مولوی، مجاہد. اور دین اسلام کے خلاف خوب شور مچاؤ.این جی اوز میں کام
کرنے والی عورتیں پریشان ہیں. ایک طرف اُن کو یہ حکم ہے کہ پورے کپڑے نہ
پہنا کرو. اور اب اتنی سردی میں یہ حکم آگیا ہے کہ مسجد، مدرسہ کے خلاف
احتجاج میں نکلو. آج کل خوب چیک بانٹے جارہے ہیں. صبح صبح گرم کافی، خستہ
بسکٹ اور منرل واٹر کی بوتلیں دے کر ان کرائے کے احتجاجیوں کو مختلف جگہوں
پر بھیجا جاتا ہے. کالم نویسوں پر الگ نوٹ برس رہے ہیں. اور ٹی وی والوں کی
کمائی کا بھی اچھا موقع نکل آیا ہے. ارے اگر تمہیں گورنر صاحب سے محبت تھی
تو تھوڑا سا سوچو کہ وہ تو اب قبر میں ہیں. اُن کے ایصال ثواب کے لئے کچھ
قرآن پڑھو. کچھ صدقہ خیرات دو. مگر یہ بے چارے کیا کریں. قرآن پڑھنا آتا ہی
نہیں اور صدقہ خیرات کو تو جانتے ہی نہیں. آخر یہ احتجاج کس کے خلاف کر رہے
ہیں؟. قاتل تو سینہ تان کر خود کو پولیس کے حوالے کر چکا ہے. ہمیں تو آج تک
حضرت لدھیانوی شہید(رح) کے قاتل نہیں ملے. یہاں تو قاتل نے گولیاں مار کر
بہت شرافت سے گرفتاری دے دی. تو پھر یہ احتجاج کس کے خلاف ہو رہا ہے؟. قاتل
تو خود حکومت کا سپاہی ہے. نہ مولوی ہے اور نہ کسی مسجد کا امام اور نہ کسی
جہادی تنظیم کا رُکن. وہ تو پنجاب حکومت کی قابل فخر پولیس فورس’’ایلیٹ‘‘
کا سپاہی ہے. بی بی سی والے سرپیٹ رہے ہیں کہ انٹرنیٹ پر’’ممتاز قادری‘‘ کے
چاہنے والوں نے قبضہ کر رکھا ہے. سر پیٹنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ لوگ تو
’’آزادی اظہار‘‘ کے علمبردارہیں. اب مسلمان نوجوانوں نے فیس بُک پر’’ممتاز
قادری‘‘ کی تعریف میں ہزاروں صفحات بنا دیئے ہیں تو آپ کو کیوں تکلیف ہو
رہی ہے؟. آپ کے نزدیک ہر آدمی کو اپنی پسند اور ناپسند کا اختیار ہے. قسمت
کی بات ہے کہ ’’ممتاز قادری‘‘ پر وکلا پھول نچھاور کر رہے ہیں. روشن خیال
یہی محنت تو کر رہے ہیں کہ ہر انسان کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے دی
جائے. کوئی کپڑے پہنے یا نہ پہنے کسی کو نہ ٹوکا جائے. کوئی کسی کو مانے یا
نہ مانے کوئی زبردستی نہ کی جائے. کوئی شراب پئے یا پیپسی. ہر آدمی کو اس
کی آزادی ہونی چاہئے. کوئی اگر کسی لڑکی سے دوستی کرے. اور بغیر نکاح کے
اُس کے ساتھ پھرے تو اُس کو نہ ٹوکا جائے. کوئی میراتھن ریس میں دوڑے تو
اُس کو دوڑنے دیا جائے. یہی دعویٰ اور محنت ہے نا روشن خیالوں کی؟. تو پھر
اگر کوئی مدینہ والے پاک نبیﷺ سے غیرت والی محبت کرے تو اُسے کیوں ٹوکتے
ہو؟. کوئی اپنی مرضی سے مدرسہ پڑھے، جہاد کرے تو اُس کو کیوں روکتے ہو؟.
کوئی ممتاز قادری کو اپنا ہیرو قرار دے تو اُسے کیوں روکتے ہو؟. کوئی
کافروں کو نہ مانے تو اُس سے کیوں ناراض ہوتے ہو؟. عجیب دوغلاپن ہے کہ. کفر
کے ہر کام کی آزادی چاہتے ہو اور اسلام کا صرف ’’پردہ‘‘ تک تم سے ہضم نہیں
ہوتا. آخر’’تحفظ ناموس رسالت‘‘ کے قانون سے تمہیں کیا تکلیف ہے؟.کوئی تمہیں
گالی دے تو برداشت نہیں کرتے ہو. حکمرانوں نے طرح طرح کی فورسیں بنا رکھی
ہیں جو اُن کے مخالفوں کو قتل کرتی ہیں. اور اُن کی ہڈی پسلی ایک کرتی ہیں.
چند دن پہلے ایک بڑے ریٹائر پولیس افسر کا مضمون نظر سے گزرا. انہوں نے
لکھا تھا کہ میں چند دن پاکستان کے ایک وزیر اعظم کی خصوصی فورس کا افسر
مقرر ہوا. ایک دن وزیراعظم نے مجھے بلایا اور آنکھیں سرخ کر کے کہا ! فلاں
مولوی اپنی تقریروں میں مجھے بُرا بھلا کہتا ہے. میں فی الحال اُس کو قتل
تو نہیں کرنا چاہتا مگر ایک دو روز کے اندر وہ ہسپتال میں ہونا چاہئے. کم
از کم ایک پسلی ضرور ٹوٹ جائے.وہ تو وزیراعظم تھا. عام مالدار قسم کے روشن
خیالوں نے اپنے مخالفوں کو مارنے کے لئے پتا نہیں کیسے کیسے کتے اور غنڈے
پال رکھے ہیں. مگر یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہر آدمی کو اس کی آزادی
ہو کہ وہ آقا مدنیﷺ کی شان اقدس میں گستاخی بک سکے. میں یقین سے کہتا ہوں
کہ اگر پاکستان میں ’’تحفظ ناموس رسالت‘‘ کا قانون ختم ہو گیا تو یہاں قتل
و غارت اور زیادہ بڑھ جائے گی. اگر روشن خیال طبقے کافروں کی محبت میں
مجبور ہیں تو پاکستان کے غریب مسلمان حضرت محمد عربیﷺ کی محبت سے سرشار
ہیں. اور وہ آپﷺ کے ساتھ اپنی جان سے زیادہ محبت رکھنے کو اپنے ایمان کا
جزو سمجھتے ہیں . آج مسجد، مدرسہ اور جہاد کے خلاف زبانیں چلانے والے یہ
کیوں نہیں بتاتے کہ گستاخ’’آسیہ عیسائی‘‘ کو سزائے موت کسی مولوی یا مجاہد
نے سنائی ہے؟. اُسے سزائے موت حکومت پاکستان کی ایک عدالت نے سنائی ہے.
ویٹی کن میں بیٹھے دشمن اسلام’’پاپے‘‘ نے آسیہ کے حق میں گھنٹی بجا دی.
گوروں کا حکم کیا آنا تھا کہ پاکستان کے روشن خیالوں میں کھلبلی مچ گئی.
حالانکہ یہ ایک حکومتی اور عدالتی معاملہ تھا. حکومت اندر اندر کے ہاتھوں
کو استعمال کر کے آسیہ کو بچا سکتی تھی. ان کے نزدیک مدینہ والے آقاﷺ سے
زیادی ویٹی کن والے پاپے کو خوش کرنا ضروری ہوتا ہے. آسیہ بچ جاتی تو اِن
کا ’’پاپا‘‘ اِ ن سے خوش ہو جاتا . مگر یہ تو پوری دنیائے کفر کو خوش کرنے
کے چکر میں پڑ گئے اور انہوں نے موقع دیکھ کر ’’قانون‘‘ کو ہی ختم کرنے کی
بات شروع کر دی. اس دوران گورنرصاحب بھی اچانک قتل ہو گئے. معلوم نہیں
اسلام آباد میں اپنے وسیع و عریض گھر کو چھوڑ کر ریستوران میں کھانا کھانے
کی کیا ضرورت تھی. کروڑوں ڈالر کے مالک تھے باہر مُلکوں سے اپنے لئے گوری
سیکیورٹی کا بندوبست کرسکتے تھے. مگر پھر بھی اس غریب مُلک کے سپاہیوں کو
ساتھ لئے پھرتے تھے. وی آئی پیز کی سیکورٹی کرنے والے کسی بھی سپاہی سے آپ
بات کریں وہ اُس ’’وی آئی پی‘‘ کو گالیاں دیتا ہوا نظر آتا ہے. بعض تو یہاں
تک کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ رہ کر ہمیں بڑی بے غیرتی کرنی پڑتی ہے. اکثر وی
آئی پیز روشن خیال ہیں. اور روشن خیالوں کے نزدیک ہر کام کی آزادی ہوتی ہے.
عام پولیس والے غریب اور متوسط مسلمان گھرانوں کے افراد ہوتے ہیں. انہوں نے
جانوروں کو تو کھلم کھلا روشن خیالی کرتے دیکھا ہوتا ہے مگر انسانوں کو وہ
تب دیکھتے ہیں جب کسی وی آئی پی کے سیکورٹی گارڈ بنتے ہیں. ایسے حالات میں
کبھی بھی کسی کا دماغ پھر سکتا ہے اور کسی کی انگلی سے ٹرائگر دب سکتا ہے.
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود کیوں مسجد،
مدرسہ اور جہاد پر تیر برسائے جارہے ہیں. ویسے امید ہے کہ جیسے ہی پیٹرول
ختم ہو گا یہ سارے انجن بند ہوجائیں گے. ابھی تو پاکستان کے ماحول کو اسلام
اور مسلمانوں کے خلاف گرمانے کے لئے دنیا کی کئی خفیہ ایجنسیوں نے کافی
سرمایہ لگا دیا ہے. اس سرمائے کا نشہ آہستہ آہستہ اُتر جائے گا. فی الحال
تو سُنا ہے کہ ملک کے سارے وی آئی پیز اپنے سیکورٹی گارڈوں کو دیکھتے ہی
پسینے میں ڈوب جاتے ہیں. جی ہاں اتنی سخت سردی میں یہ صاحب لوگ پسینہ پسینہ
ہو جاتے ہیں. ایک ہی زندگی ہے یہ ختم ہو گئی تو کیا بنے گا؟. قبر اور آخرت
کا تو کبھی سوچا نہیں اس لئے وہاں جانے سے ڈر لگتا ہے. یہ دنیا جیسے جیسے
قیامت کے قریب ہو رہی ہے. اس میں قتل و غارت بڑھتی جارہی ہے. حضرت امام
مہدی رضی اﷲ عنہ کے ظہور کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی لکھی ہے کہ قتل
و غارت بہت عام ہو جائے گی. ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ ہر نو﴿۹﴾ میں سے
سات افراد قتل ہو جائیں گے. جبکہ ایک اور روایت ہے کہ دنیا کے ایک تہائی
افراد قتل ہوجائیں گے .ایک تہائی انتقال کر جائیں گے جبکہ ایک تہائی باقی
ہوں گے. یہ علامات تیزی سے قریب آرہی ہیں. مسلمانوں میں شہدا کے قبرستان
بڑھتے جارہے ہیں. جبکہ غیر مسلموں میں بھی قتل ہونے والوں کے انبار لگے
ہوئے ہیں. دنیا کے کئی ممالک میں جنگیں جاری ہیں. جبکہ کئی جگہوں پر جنگوں
کی تیاری ہے. مسلمانوں میں ایک دوسرے کو مارنے کا رواج کم تھا مگر اب ہر
مسئلے کا حل’’قتل‘‘ قرار دے دیا گیا ہے. وڈیروں، سرداروں، خانوں کے اپنے
اپنے فائرنگ اسکواڈ ہیں. جبکہ کئی لسانی اور سیاسی جماعتوں کے کِلنگ دستے
پورے ملک میں بکھرے پڑے ہیں. موت کا یہ جام کسی بھی وقت ہم تک پہنچ سکتا
ہے. اس لئے اچھا ہوگا کہ ہر مسلمان اپنی زندگی دین اور جہاد پر لگا کر اُسے
قیمتی بنائے. اور ہر وقت آخرت کی تیاری میں لگا رہے. اگر ہمیں ’’فکر
آخرت‘‘نصیب ہو گئی اور ہم آخرت کی تیاری میں لگ گئے تو پھر. قتل ہوں یا موت
آئے سب کچھ انشا اﷲ بہت اچھا ہوگا. اس فانی دنیا میں کس نے رہنا ہے؟ یہ تو
ایک ’’مسافر خانہ‘‘ ہے . کاش یہ حقیقت ہمارے دلوں میں اُتر جائے.
اللھم صل علیٰ سیدنا و مولانا محمد وعلیٰ الہ وصحبہ و بارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا |