اس معاشرے کی مجموعی طور پر کچھ نفسیات ہیں ، یہاں عورت
کو بلاتفریق مذہب ، رنگ، ذات اور نسل کے ذلیل کیا جاتاہے ، اس کے ساتھ
اہانت آمیز سلوک کیا جاتاہے ۔ راہ گزرتی عورت ، اپنے کام میں مصروف عورت ،
تعلیم اداروں میں پڑھتی اور پڑھاتی عورت ، بازار میں سودا سلف لاتی لیجاتی
عورت ، جاب کرتی عورت غرضیکہ ہر جگہ پر عورت امتیازی سلوک کی شکار ہوتی ہے
۔ آوازیں کسنے والے ، طعنے دینے والے ، پیچھا کرنے والے اور آبروریز ی کرنے
والے بھی کم نہیں ہیں لیکن دیکھنے اور گھورنے کی سعادت سے تو کوئی بھی
محروم نہیں رہتاہے ۔ کیونکہ یہ ہر مرد کا بنیادی حق ہےاور عورت تو پیدا ہی
مردوں کے لیے گئی ہے ، اس کی پیدائش کا کوئی اور مقصد تھوڑی ہے ۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت کو صنف ناز ک کہتے سمجھتے ہوئے مرد بلاتفریق
مذہب ، ذات ، رنگ اور نسل کےعورت کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کرنے میں مقدور
بھر حصہ ڈالنا اپنا فرض سمجھتا ہو وہاں ایک عزت اور رتبہ والی خاتون اس قوم
کی مجموعی ذہنی نفسیات سے کہاں بچ سکتی ہے ۔ اور پھر ایک ایسی عورت جو کسی
سیاستدان کی بیوی ہو اس کی عزت تو خدا پناہ ! جب سیاست دان کی عزت و احترام
والا معاملہ سرے سے ہے ہی نہیں ، اس کی خدمات کا کہیں کسی سطح پر کوئی
اعتراف ہی نہیں تو اس کی عزت چاہے اس کی ذات پر حملے کر کے اچھا لو یا اس
کے خاندان پر حملے کر کے اس سے کیا فرق پڑتاہے ۔ فاطمہ جناح ، بینظیر بھٹو
شہید اور ایسی دیگر خواتین کی صف میں کھڑی بیگم کلثوم نواز بھی انتقال
کرگئیں ہیں ، ان کی بیماری سے شروع ہونے والے گھٹیا الزامات ان کی موت کے
بعد بھی بند نہیں ہوئے ۔ ان کی بیماری کو ایک بہانہ اور فریب کہا گیا ،چھپنےا
ور بچنے کے لئے ایک آڑ قرار دیاگیا ،الیکشن جیتنے کے لئے آخری چال قرار دیا
گیا ،وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھیں اوریہاں لوگوں کو سیاست سوجھ
رہی تھی ، ا ن کی زندگی تو زندگی موت کو بھی مذاق بنادیا گیا ، جھوٹ کی وہ
داستانیں گھڑی گئیں کہ الامان و الحفیظ ۔ ایسا سب کچھ نفسیاتی اثرات کے
شکار لوگ ، یا چند گھٹیا صحافی اور بعض سیاستدان ہی نہیں کر رہے تھے بلکہ
ملک کا سب سے مقد س ایوان اس میں براہ راست ملوث تھا ۔
بیگم صاحبہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھیں ، ان کے اہل خانہ پر پتہ نہیں
کیا حالات بیت رہے تھے لیکن یہاں کی عدالتیں سیاسی انتقام کا قرض چکانے میں
اہم رول اداء کر رہی تھیں ۔ اس رول میں انہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ میڈیکل
گراؤنڈس میں دنیا کی ہر عدالت حاضر ی سے استثناء دیتی ہے ۔ لیکن یہ ایک
سیاست دان کا رچایا ڈرامہ بھی تو ہو سکتا تھا ، اور سیاست دان ہو تا بھی تو
جھوٹا ہے ، ڈرامے باز ہے ۔ اپنی جان کی امان کے لیے کسی بھی حد تک جا
سکتاہے ۔ اس لئے ذمہ دار عدالت نے انصاف کے بول بالے میں دنیا بھر کے نظام
عدل کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کو حاضری سے استشاء دینے
سے انکار کر دیا، یوں ایک بیٹی اپنی ماں اور خاوند بیوی کو بستر موت پر
اکیلا چھوڑ کر سیاسی انتقام کی سزا کاٹنے وطن لوٹ آئے ۔اب جبکہ یہ عورت
انتقال کر گئی ہے تو اس کو ماں ہی سمجھ لو ، میں یہ نہیں کہتا کہ جمہوریت
کے لئے اس عورت کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو عزت دو ، کیونکہ
جمہوریت تو ہے ہی بلڈی سویلین کارچایا ہوا ایک کھیل ، کفریہ نظام اور عالمی
سامراجی طاقتوں کی ساز ش کا نتیجہ وغیرہ وغیرہ ، میں یہ نہیں کہتا کہ اس کو
اپنے تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکنے والے شخص کی بیوی اور خاتون اول سمجھتے
ہوئے عزت دو کیونکہ سیاستدان لوگ عزت کے کہاں مستحق ہوتے ہیں اس اعزاز کے
لئے تو اعلیٰ اداروں میں خدمات سر انجام دینا پڑتی ہیں ۔ لیکن اس عورت کو
ایک ماں سمجھتے ہوئے اب تو بخش دو ، مرنے والے کو بھی معاف نہ کرنا ہماری
معاشرتی نفسیات کاحصہ ہے لیکن اب جب اس نے مر کر تمہاری تمام افواہوں اور
اندازوں کو جھوٹا ثابت کردیا ہے ، اب جب اس نے مر کر یہ ثابت کردیا ہے کہ
وہ واقعی بیمارتھی ،تو اب اس کو بخش دو |