برطانیہ کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔قائد اعظم اور گاندھی نے مل
کر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا عزم کیا۔ کانگریس اور مسلم لیگ آزدی کے
نکتے پر متحد ہوئیں۔ ہندو اور مسلمان نظریاتی دوریوں کے باوجود انگریزوں کے
خلاف ایک صفحہ پر آ گئے۔کشمیری بھی متحد ہو رہے ہیں۔ ان میں دھڑہ بندیاں
ختم ہو رہی ہیں۔ ایک مجلس میں اب سب جمع ہو سکتے ہیں۔ محبوس حریت پسند
لیڈرشبیر احمد شاہ کے بقول کبھی ایک دوسرے کو سلام کرنا تک گوارا نہیں تھا۔
ان دھڑہ بندیوں کا بھارت کو فائدہ اور کشمیریوں کونقصان ہوا۔ تحریک آزادی
کو مزید نقصان کی گنجائش نہیں۔ورنہ ا س کے زمہ دارسبھی ہوں گے ۔ شہداء کا
خون رائیگان نہیں جا سکتا۔ ہم سارا الزام بھارت پر لگا رہے ہیں۔قابض اور
جارحیت پسند یہی چاہتا ہیکہ تحریک ناکام ہو۔لوگ اس کے غلام رہیں۔ اس کی
کالونی بنیں۔آزادی کی شمع فروزاں ہوکر رہتی ہے۔ بھارت ایسی پالیسی بروئے
کار لا رہا ہے کہ جس سے خلفشار، افراتفری، مایوسی، بدگمانی، نا اتفاقی
بڑھتی رہے اور آخر میں سرینڈر کی نوبت آ جائے۔
کئی غلام قوموں نے بندوق کو آزادی کی علامت سمجھا ۔ کشمیری بھی اس راہ پر
گامزن ہوئے۔ طاقت اور دباؤ سے سرکشی اور چیلنج کا یہ ایک حربہ تھا۔ بندوق
نے کام کیا۔ اس نے بلا شبہ کشمیری نوجوان کی امید کو روشن کیا۔ معاشرے میں
ارتعاش آ یا ۔ لوگوں نے اپنی تعلیم، ملازمت، کاروبار چھوڑ دیا۔ بندوق اٹھا
لی۔ لیکن اس کے آغاز پر ہی رسہ کشی شروع ہوئی۔ بالا دستی کی جنگ ہونے لگی۔
خودمختاری اور الحاق کی سوچ میں تصاد م ہونے لگا۔ سینکڑوں جہادی تنظیمیں بن
گئیں۔ جو لوگ میدان میں تھے۔ وہ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں میں کشمیر کی
فتح کے خواہش مند تھے۔ ایک ہفتے کی تربیت تھی۔ ایک کلاشنکوف ، چند گولیاں
تھیں۔ چندہ مہم بھی چلی۔ بندوق کے لئے جذبات تھے۔ اسے ہی مسیحا اور نجات
دہندہ سمجھا گیا۔ غیر منظم صورتحال نے بھائی کو بھائی کوسامنے لا کھڑا گیا۔
لوگ متفکر ہوئے۔ شوریٰ جہاد بنی۔ اتحاد کی بات ہوئی۔ سیاست اور سفارت دیوار
سے لگ چکی تھی۔کچھ سیاستدان بھارتی آئین کے تحت کام کر رہے تھے۔بے لاگ اور
آزادانہ تجزیہ اس لئے بھی انتہائی ضروری ہے کہ نئی نسل کے سامنے حقائق رہیں۔
کشمیری قلم کار اور مورخین کو اس پر کام کرنا چاہیئے۔ جب بندوق بھی کسی نہ
کسی انداز میں سیاست کے تابع ہونے لگی۔ ہر ماحول میں ایڈجسٹ ہونے والے وہی
لوگ تھے۔ وہی شیر اور بکرا کا نعرہ۔ شہر و گام کی سازشی تھیوری۔ خود کو
معتبر، سپیشل، مہذب، تمام اچھائیوں کاسرچشمہ قرار دینے کا یک طرفہ زعم۔ جو
کسی سیاسی چھتری کے بغیر تھے وہ خود کو سیاسی یتیم سمجھنے لگے۔ وہ بھی اس
چھتری کی تلاش میں نکل پڑے۔ بات دور تک چلی گئی۔ اس سے کشمیری عوام کو کیا
ملا۔ بندوق نے جو سٹیٹس کو ، جوں کی توں حالت توڑ دی ۔ موجودہ حکومتی سیٹ
اپ ناکام ہو چکا تھا۔ گورنر راج اور صدر راج بھی ختم ہو رہا تھا۔ پھر حریت
کانفرس وجود میں آئی۔ اس کا ایک آئین تھا۔ جنھیں بندوقکیکچھ معاونت تھی ۔
ان میں کئی ایگزیکٹو کونسل میں آ گئے۔ وہی روایتی سوچ۔ ویٹو پاور کا
اختیار۔پاور پولٹکس۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات۔ عوام کو متحد کرنے کی
امنگ۔ تا ہم اسے غیر شعوریت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ کمانڈری، پیسہ، گاڑی،
دفتر، لانچنگ، واکی ٹاکی، کمیونکیشن جیسی ضروریات ا س کا ابتدائی حصہ تھیں۔
میڈیا کا پاور بھی تھا۔ پریس نوٹ۔ ایکشن کی زمہ داری قبول کرنے کا رواج ۔
سرینگر میں گوریلا حملے کی زمہ داری لاہور میں بیٹھ کر قبول کرنے کی کوئی
ضرورت نہ تھی۔ آپ نے لومڑی اور کوے کی کہانی سن لی ہو گی۔ لومڑی چالاکی کی
علامت کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں ایک بار وہ بہت بھوکی تھی۔ درخت
پر کوے کی چونچ میں گوشت کا ٹکڑا تھا۔تب ہی اسے کوے کی کائیں کائیں پسند آ
گئی۔ تعریف کرنے پر اسے کائیں کائیں کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ گوشت کے
ٹکڑے کی کوے کی چونچ سے لومڑی کے منہ تک پہنچنے کی یہی دلچسپ داستان ہے۔ دل
سے کوئی کشمیری بھارتی نہیں۔ شایدعبداﷲ اور مفتی خاندان بھی نہیں۔ عمر عبد
اﷲ اور محبوبہ مفتی اسلام آباد میں آ کر اس کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔اسلام
آباد سے واپسی پر دونوں مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ بنے۔اقتدار اور اختیار ،
مال و دولت کی حرص ہر کسی کوگمراہبنا دیتی ہے۔ جو چیز شہد اء کی اما نت ہے
۔ اسے اپنے فائدہ کے لئے کسی بھی صورت میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یا
اپنی پارٹی، جماعت، تنظیم کی آڑ میں پلاٹوں، پلازوں، دیگر رفاعی کاموں کی
کوئی اہمیت نہیں۔ مشن کبھی تجارت نہیں بن سکتا۔ نہ اسے کاروباری مقاصد کے
لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والی بات ہے۔
بار بار ہمیں خود احتسابی کا موقع ملتا ہے۔ شہدا ء کے بچے، بیوائیں ، ورثاء
، معذور لوگ،قیدی، مہاجرین قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
عمران خان کا مشن تھا کہ اپنی والدہ کی یاد میں کینسر ہسپتال بنائیں۔ انہوں
نے کر دکھایا۔ ان پر امدادی پیسہ سیاست پر خرچ کرنے کے الزامات بھی لگے جس
کی انہوں نے تردید کی اور اب وہ ملک کے حکمران ہیں۔ مگر چندہ سے ہسپتال بن
جاتے ہیں کیا وہ اب چندہ سے ملک چلانے کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں،چندہ سے
آزادی کی جدوجہد بھی چلانے کی کوشش کی گئی۔ حریت کانفرنس کا کردار اہم رہا۔
جہاد کونسل بھی میدان میں آئی۔ حریت کے دونوں دھڑے متحد ہو ہیں۔ یکسوئی اور
یک جہتی کا یہی تقاضا ہے۔ جو لوگ تھک یا بک چکے۔ انہیں الگ ہو جاناتھا۔
ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابرتھے۔ بکنے کی بات ضمیر کو اپنے مفادات کے لئے
بیچنے تک ہی رکھی گئی۔ یہی ضمیر کا سودا ہوتا ہے۔ بکاؤ مال اسے ہی سمجھا
جاتا ہے۔ حریت میں قیادت کی تبدیلی ہوتی ہے تو چند لوگ مخالفت میں ایسی مہم
چلاتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ گروپ بندی کی کوئی وقعت نہیں۔ اجتماعیت
کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اپنی انا کو مارنے ، عناد کو کچلنے کا وقت ہے۔
مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینی کی ضرورت ہے۔ دوسرے کے وجود کو تسلیم کرناسب
کے مفاد میں ہے۔قیادت نے سمجھ لیا ہے کہ مل کر کشمیر میں بھارت کے لئے
بڑابحران پیدا کر کے اس سے تحریک کو مستفید کرنا ہو گا۔ بھارت کشمیریوں کے
اندر کامیابی کی سوچ کو پارہ پارہ کرنا چاہتا ہے۔ کشمیر کے پاکستان سے رشتے
کاٹ کر سرینگر اور دہلی کو قریب لانا مودی حکومت کا ایجنڈا ہے۔ لیکن مظالم
، کشمیر کش پالیسی نے بھارت کو کشمیر میں ناکام بنایا ہے۔ اب ایک بار پھر
ٹارگٹ کلنگ شروع کی گئی ہے۔ایک عام کشمیری اصل میں بھارت اور بھارت نوازوں
کا سخت مخالف ہے۔ اسی لئے اس کا جھکاؤ حریت پسندوں کی جانب ہے۔ حریت پسند
کم از کم مشترکہ پروگرام پر متحد ہو چکیہیں، یہ ان کی بڑی کامیابی ہے۔ ایک
پلیٹ فارم پر ایک آواز ہو کرجدوجہد کا عزم ہے۔ عفو و درگزر کی باتیں ہو رہی
ہیں۔ یہ بڑی پیش رفت ہے۔نئی نسل کسی کمپرومائز کے لئے تیار نہیں۔ وہ سب کا
جائزہ لے رہی ہے۔ اگر موجودہ قیادت نے قوم کے دل کی آواز نہ سنی تو اس کے
لئے بڑا اپ سیٹ ہو گا۔ آزاد کشمیر میں موجود لوگ بھی بری الزمہ نہیں ۔ نئی
نسل نیا انقلاب لانے کے لئے بیتاب ہے۔ شہدا ء کے بچے جوان ہو چکے ہیں۔
تحریک چوتھی نسل کو منتقل ہو رہی ہے۔ وہ اس میں کسی خیانت کو برداشت نہیں
کرے گی۔ کیوں کہ کشمیری سرینڈر پر تیار نہیں۔اس لئے بھارت کشمیریوں کو شکست
نہیں دے سکتا۔بلکہ شکست اس کا مقدر بنے گی۔ |