کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے حاصل کرتے ہم 38سال گزارچکے۔
اب اگر دو ڈیموں ( بھاشا اورمہمندڈیم ) پر اتفاق رائے ہوا ہے‘ حکومت ‘
عدلیہ اور فوج کندھے سے کندھا ملا کر ڈیموں کی تعمیر کے لیے کوششیں کررہی
ہے تو نہ جانے کیوں‘ کچھ لوگوں کے پیٹ میں درد اٹھ رہا ہے ۔سوشل میڈیا پر
ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو عمران خان کی مخالفت کا بہانہ بنا کر خیراتی
قوم کے لقب سے نوازرہے ہیں ۔یاد رہے کہ ہجرت کرکے جب مسلمان مدینہ پہنچے
تووہاں پانی کا ایک ہی کنواں تھا جو یہود ی کی ملکیت تھا ۔ نبی کریم ﷺ کی
اپیل پر حضرت عثمان غنی ؓ نے وہ کنواں خرید کرمسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔
جنگ تبوک کے موقع پر جب سامان جنگ اکٹھاکرنے کا وقت آیاتو آپ ﷺ نے ایک بار
پھر چندے کی اپیل کی جس پر لبیک کہتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق ؓ گھر کا سارا
سامان ‘حضرت عمر ؓ آدھا سامان اٹھا لائے اور نبی کریم ﷺ کو پیش کردیا۔تاریخ
شاہد ہے کہ31 دسمبر 2017ء کو امریکہ کے پانچ صدور( کارٹر ‘ جار ج بش ‘
کلنٹن ‘ بڑا بش اور بارک حسین اوبامہ) نے ایک جگہ اکٹھے ہوکر امریکی قوم کا
شکریہ ادا کیاجنہوں نے قطرینہ نامی بدترین سمندری طوفان سے متاثر ین کی
دوبارہ آباد کاری کے لیے 42 ملین ڈالر کا عطیہ دیا ۔یہ بتا نا ضروری سمجھتا
ہوں کہ اپنوں سے مانگی ہوئی مدد ہرگز خیرات نہیں ہوتی‘ جس طرح باپ بیٹے سے
اور بیٹا باپ سے لے کر اپنی ضرورت پوری کرسکتا ہے ۔ ہم تمام پاکستانی ایک
دوسرے کے بھائی ہیں ۔مشکل وقت سے بچانے کے لیے اگر کوئی مدد کرتاہے تو اسے
طعنہ نہیں بنایاجاسکتا۔خیرات وہ ہوتی ہے جودوسری حکومتوں سے مانگی جاتی ہے
۔ یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں کہ پانی کے بغیر نہ انسان زندہ رہ سکتا اور نہ
ہی زمین کی زرخیزی برقرار رہ سکتی ہے ۔پانی کی قدر کا پوچھنا ہو تو واقعہ
کربلا پڑھیں جہاں نواسہ ؓ رسول اور اہل بیت کو پانی کی ایک ایک بوند کے لیے
ترسایا گیا ‘ پانی کی قیمت کا پتہ کرنا ہے تو ایتھوپیا کے رہنے والوں سے
پوچھیں جہاں بھوک اور پیاس کی شدت سے متاثر ہوکر انسان اورجاندار ہر لمحے
موت کا مزا چکھتے ہیں ۔ زندہ مرنے والوں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور
ہیں۔ اﷲ تعالی نے ہمیں بارہ مہینے بہنے والے چھ دریا عطا کیے‘ چار پر تو
بھارت نے معاہدہ طاس کی آڑ میں قبضہ کرلیا جو پاکستان کے حصے میں تین دریا
آئے تھے (چناب ‘ جہلم اور سندھ ) ان پر بھی یہ کہتے ہوئے ڈیم تعمیر کر لیے
کہ پاکستان کے پاس پانی کو محفوظ کرنے کاکوئی انتظام نہیں۔جب ورلڈ بنک کے
توسط سے بھارت کو روکا جاتاہے تو وہ یہی کہتاہے ہم پاکستان کو 35 ملین
کیوسک پانی (جس کی مالیت دس کھرب روپے بنتی ہے) سمندر میں پھینک کر ضائع
کرنے کے لیے نہیں دے سکتے ۔ پاکستان انسانوں کو زندہ رکھنے کی بجائے سمندر
کی مچھلیوں کو زندہ رکھنے کے فارمولے پر عمل کررہا ہے جس کی اجازت نہیں دی
جاسکتی ۔ اس بات کا پاکستان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا چنانچہ جتنے بھی
مذاکراتی سیشن ہوئے سب بھارت کے حق میں گئے اور بھارت‘ پاکستانی دریاؤں کے
پانی سے نہ صرف اپنی زمینیں آباد کررہاہے بلکہ 27 ہزار میگا واٹ بجلی بھی
انہی ڈیموں سے پیدا ہورہی ہے جو بھارت کی صنعتی ترقی کا پہیہ گھوماتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان یقینا قابل تحسین ہیں جنہوں نے دو ڈیموں کی تعمیر کے
لیے نہ صرف دو ٹوک فیصلہ کیابلکہ فنڈ اکٹھا کرنے کی جستجو بھی کی۔اب تک چار
ارب جمع ہوچکے ۔ اب عمران خان نے بھی ڈیموں کی تعمیر کے لیے پاکستانیوں سے
مدد کی اپیل کی تو مخالفین نے چیخ و پکار شروع کردی ۔ہونا تو یہ چاہیئے کہ
ہر پاکستانی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تاکہ ڈیم تعمیر ہوسکیں کیونکہ یہ ڈیم
عمران خان کی ملکیت نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی آنے والی نسلیں ہی ان سے
استفادہ کریں گے ۔حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن قومی سطح پر فیصلے کسی
سیاسی اختلاف سے بالاتر ہونے چاہیئیں۔کالا باغ ڈیم ہو یا دوسرے ڈیم میری
نظر میں ان کی مخالفت کرنے والے غدار ہیں اور ان کے خلاف غداری کا مقدمہ
قائم کرکے قرار واقعی سزا دی جانی چاہیئے۔چند ناعاقبت اندیشوں نے بیگم
کلثوم نواز کی رحلت کو بھی ایک سازش قرار دے کر اپنی گھٹیا سوچ کا ثبوت
دیا۔جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔اب ہمارے پاس سوچنے کا وقت ہرگز
نہیں ۔گزرنے والاہر لمحہ ہمیں بھوک ‘ پیاس ‘ زراعت وصنعت کی تباہی اور
معاشی اندھیروں کی جانب دکھیل رہا ہے ۔ایک جائزے کے مطابق بلوچستان کا آدھا
‘ سندھ اور پنجاب کا ایک چوتھائی حصہ خشکی سالی کی نذر ہوچکا ہے ۔سونا
اگلتی زمینیں بنجر اور کسان خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ لاہور ‘ملتان ‘
راولپنڈی ‘ حیدر آباد ‘کراچی جیسے بڑے شہروں میں پینے کے پانی کی قلت آسمان
کو چھو رہی ہے ۔زیر زمین پانی کی سطح دن بدن گرتی جارہی ہے ۔ جو پانی میسر
ہے وہ پینے کے قابل نہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر بڑے شہر کے قریب بھی
ایک جھیل نما ڈیم ضرور تعمیرکیا جائے جس کے پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹ سے گزار
کر پینے کے لیے فراہم کیاجائے ۔کراچی اور راولپنڈی میں پانی کا بحران سر
اٹھا چکا ‘ جس پر چیف جسٹس کی تشویش بجا ہے ۔ کراچی میں تو زہر آلودہ پانی
بھی سونے کے بھاؤ فروخت ہوتا ہے ۔ اصلاح احوال کے لیے کوئی اقدامات نہیں
اٹھائے جارہے ۔جس کی وجہ سے بیماریوں کی ہر سطح پر یلغارہے ۔شاید ہی کوئی
شخص ہوگاجو خود کو صحت مند کہہ سکے ۔ اب اگر ڈیم بنانے کا تہیہ کرہی لیا ہے
تو عمران خان کوعبدالستار ایدھی بن کرتمام چیمبرز آف کامرس اور ہر اس ملک
میں فنڈریزنگ کے لیے جانا ہوگا جہاں جہاں پاکستانی رہتے ہیں۔اگر شوکت خانم
تین ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے لیے فنڈز مل سکتے ہیں تو دس ارب ڈالر
اکٹھے کرنا کوئی مشکل ٹارگٹ نہیں ۔عمران خان کل بھی پاکستانی قوم کے ہیرو
تھے اور آج بھی وہ ہر دلعزیز ہیں ان کے چاہنے والے اندرون اور بیرون ملک
کثیر ہیں جو ان کے ایک اشارے پر ڈالر نچھاور کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں جس کا
سرسری اظہار چند دنوں میں ملنے والے عطیات سے ہوچکا ہے۔بہرکیف چند مزید
اقدامات بھی بہت ضروری ہیں ۔جان بچانے والی ادویات کو چھوڑ کر ہر قسم کی
درآمدات بندکر دی جائیں ۔ایک خاندان ایک گاڑی کو چھوڑ کر باقی بحق سرکار
ضبط کی جائیں ۔دس مرلے سے بڑے جتنی کوٹھیاں /بنگلے موجود ہیں ان پر دس ہزار
فی مرلہ کے حساب سے ٹیکس عائد کیاجائے ۔8 ایکڑ سے زائد اراضی کو بحق سرکاری
ضبط کی جائے ۔قیام پاکستان سے آج تک بنکوں کے معاف وصول ڈیم فنڈ میں ڈالے
جائیں۔پٹرول پر اضافی ٹیکسوں سے حاصل والی رقم کو ڈیم فنڈ میں منتقل
کیاجائے ۔یہ فیصلے مشکل ضرور ہیں لیکن آنے والی نسلوں کو بھوک ‘ پیاس اور
بے وسائلی سے بچانے کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا ۔ |