شائستہ، سنجیدہ، بہادر اور باوقار سابق خاتونِ اوّل بیگم
کلثوم نواز 13ماہ تک اپنی بیماری کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے بالآخر
دیارِغیر میں زندگی کی بازی ہار گئیں۔ جب وہ لندن کے ہسپتال میں موت سے
پنجہ آزما تھیں تب پاکستان میں اُن کی بیماری پر طرح طرح کے افسانے گھڑے جا
رہے تھے اور اخلاقی دیوالیہ لوگ اُن کی بیماری کو محض ایک ڈرامہ قرار دے
رہے تھے۔ گرفتارِ بلا شریف خاندان سے ہمدردی کے دو بول بولنے کی بجائے طنز
کے تیر برسائے جا رہے تھے اور اِس اخلاقی گراوٹ میں صرف سیاستدان ہی نہیں،
میڈیا بھی شامل تھا۔ اگر وہ اپنی زبانوں کو تالے لگا لیتے تو شاید آج اُس
شرمندگی سے بچ رہتے جس کی کسک اور چبھن آج وہ اپنے اذہان وقلوب میں محسوس
کر رہے ہوں گے۔
وزیرِاعظم عمران خاں نے 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے 5 جولائی 2018ء کو
کہا کہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو عوام کو جذباتی طور پربلیک میل کرنے
کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر خاں صاحب اپنی والدہ محترمہ بیگم شوکت
خانم کی بیماری اور اُس سے پہنچنے والے کَرب کے بارے میں سوچ لیتے تو شاید
وہ ایسا بیان کبھی نہ دیتے لیکن سیاست کے سینے میں تو دل ہی نہیں ہوتا۔
شاید وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل خاں صاحب ایسا بیان ضروری سمجھتے ہوں
لیکن کسی کے جذبات سے کھیلنا کسی بھی صورت میں مستحسن قرار نہیں دیا جا
سکتا۔یہ بجا کہ خاں صاحب نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں اُس باوقار اور
باحوصلہ خاتون کے بارے میں کبھی زبان نہیں کھولی لیکن میاں نوازشریف سے
سیاسی مخاصمت کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں تھا کہ ایسے بیانات دے کر بسترِ مرگ
پر پڑی بیگم کلثوم نواز کے لواحقین کے کَرب میں اضافہ کیا جائے۔ یہ شاید
خاں صاحب کے ایسے بیانات کا ثمر تھا کہ سوشل میڈیا پر بیماری کے حوالے سے
بداخلاقی، بدتہذیبی اور بدتمیزی کی انتہا ہوگئی۔ جس کے مُنہ میں جو آیا، بک
دیا۔لازمۂ انسانیت سے تہی لوگوں نے حیوانیت کی انتہا کر دی۔
پیپلزپارٹی کے اعتزاز احسن نے کہا ’’ ہارلے کلینک دراصل شریف خاندان کی
ملکیت ہے۔ یہ ایک ہسپتال نہیں بلکہ ایک کلینک ہی ہے جہاں مریضوں کا علاج
ہوتا ہے۔ میاں نوازشریف اپنی اہلیہ کے ساتھ اِس لیے رکے ہوئے ہیں تاکہ قید
سے دور رہیں‘‘۔ جب پیپلزپارٹی نے اعتزاز احسن کو صدارتی اُمیدوار نامزد کیا
تو نوازلیگ نے یہ شرط رکھی کہ اعتزاز احسن پہلے اپنے اِس بیان پر میاں
نوازشریف سے معذرت کرے۔ بیگم کلثوم نوازکی رحلت سے تقریبا ایک ہفتہ پہلے
ایک ٹی وی پروگرام میں جب سوال کیا گیا کہ کیا وہ اپنے اِس بیان پر معذرت
کریں گے تو اُنہوں نے صاف انکار کر دیا البتہ بیگم صاحبہ کی رحلت کے بعد
اُنہوں نے نہ صرف اپنے اُس بیان پر ندامت کا اظہار کیا بلکہ شریف خاندان سے
معذرت بھی کی جس سے کم از کم یہ اطمینان تو ہوا کہ ’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں
جہاں میں‘‘۔
اخلاقی طور پر مکمل دیوالیہ شیخ رشید، جو آجکل وزیرِریلوے ہیں اور جن کی
’’پھرتیوں‘‘ سے پورا محکمہ بیزار، اُس نے بیگم کلثوم نوازکی بیماری کو شریف
خاندان کا ’’سیاسی ڈھونگ‘‘ قرار دیا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں اُس نے کہا
’’میں پچھلے 2 سال سے سُن رہا ہوں کہ بیگم کلثوم نواز وینٹی لیٹر پر ہیں۔
ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ کس ہسپتال میں میاں نواز شریف کی بائی پاس سرجری
ہوئی۔ میں نوازشریف سے کہوں گا کہ بیگم کلثوم نوازکی بیماری پر سیاست نہ
کریں‘‘۔ شیخ رشید کی سیاسی حیثیت ’’جماں جنج نال‘‘ کی سی ہے۔ وہ عمران خاں
کو ’’لاشوں کی سیاست‘‘ کا مشورہ دیتے رہے اور تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے
’’جلاؤ، گھیراؤ، مارو، مرجاؤ‘‘ جیسی بڑھکیں بھی لگاتے رہے۔ غیرسنجیدہ سیاست
اور غیرپارلیمانی الفاظ کے استعمال میں وہ مہارتِ تامہ رکھتا ہے۔ اُس کی
زبان سے کسی وقت بھی ، کچھ بھی پھسل سکتا ہے۔ اِسی لیے اُس کی باتوں کو
کوئی سنجیدہ نہیں لیتا البتہ جب نیوزچینلز کو کوئی اور میسر نہیں ہوتا تو
وہ ریٹنگ بڑھانے کے لیے اُسے بلا لیتے ہیں۔ وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی
برائے سیاسی امور نعیم الحق نے بیگم کلثوم نوازکی بیماری کو ایک افسانہ
قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُن کے لندن میں اپنے ذرائع ہیں جو جانتے ہیں کہ
بیگم کلثوم نواز کی بیماری ایک ڈرامہ ہے۔ اب جب کہ بیگم صاحبہ اِس دنیا میں
نہیں رہیں تو نعیم الحق اُن ذرائع پرکم از کم لعنت ہی بھیج دیں جنہوں نے
غلط اطلاعات دے کر نعیم الحق کو آج پوری قوم کے سامنے شرمندہ کیا۔ اگر نعیم
الحق کے ذرائع نہیں بلکہ یہ محض ایک سیاسی بیان تھا تو پھر کیا نعیم الحق
میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ وہ اپنے اِس بیان پر پوری قوم سے معافی
مانگیں؟۔
ایک نعیم الحق ہی کیا، یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کیا سیاستدان،
کیا اینکر، کیا لکھاری، سبھی اِس حمام میں ننگے نظر آتے ہیں۔ فیصل واوڈا،
علی زیدی، قمرالزماں کائرہ، یاسمین راشد، شوکت بسرا، نفیسہ شاہ اور اُن
جیسے کئی دیگر سیاستدانوں نے بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو عوامی
ہمدردیاں’’ بٹورنا‘‘ قرار دیا۔ حمزہ علی عباسی، عامر لیاقت، ہارون الرشید،
صابر شاکر، عارف حمید بھٹی، معید پیرزادہ، ڈاکٹر شاہد مسعود اور اِن جیسے
کئی دیگر صحافیوں، لکھاریوں اور اینکر پرسنز نے بیگم صاحبہ کی بیماری کو
سیاسی ڈھونگ قرار دیا۔ اُن سبھی کو چاہیے کہ اعتزاز احسن کی طرح کھلے دِل
سے معافی مانگیں لیکن جن کے ضمیر مُردہ ہو چکے، وہ بھلا ایسا کیوں کریں گے۔
ایسی دُرفنطنیاں چھوڑ کر یہ لوگ اپنے آپ کو باخبر اور ارسطوئے دوراں ثابت
کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
میاں نوازشریف کو ’’باؤ جی‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے والی آواز اب ہمیشہ کے لیے
خاموش ہو گئی۔ لندن سے واپسی پر میاں صاحب کی اپنی کلثوم سے آخری ملاقات
ادھوری رہی ۔ وہ’’ کلثوم ۔۔۔ باؤجی، کلثوم ۔۔۔ باؤجی‘‘ پکارتے رہے لیکن
بیگم صاحبہ کی پلکوں پر جنبش تک نہ ہوئی۔ بالآخر مایوسیوں کی اتھاہ
گہرائیوں میں گرے میاں صاحب اُنہیں جلد صحت یابی کی دعائیں دیتے رخصت ہوئے۔
کل تک تو لوگ اِسے محض ڈرامہ ہی سمجھتے رہے لیکن آج جب وہ ہم میں نہیں رہیں
تو یہ احساس اور بھی شدت اختیار کر جاتا ہے کہ میاں صاحب کا اپنی محبوب
ترین ہستی کو یوں چھوڑ کے چلے آنا ڈرامہ نہیں، ملک وقوم کے لیے ایک ایسا
ایثار تھا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
بیگم کلثوم نواز سے میاں صاحب کی رفاقت مثالی تھی۔ خالصتاََ گھریلو خاتون
جو ایک بہترین ماں، مؤدب بہواور مثالی بیوی تھیں، اُنہوں نے وقت آنے پر
ثابت کیا کہ وہ ایک مدبر سیاستدان بھی ہیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جب آمر
پرویز مشرف نے میاں نوازشریف کی آئینی حکومت کا تختہ اُلٹا اور میاں
برادران پابندِسلاسل ہوئے تو گھر میں نوازلیگ کی قیادت کرنے والا کوئی مرد
باقی نہ بچا۔ تب بیگم صاحبہ آمر کے خلاف ڈَٹ کر کھڑی ہوگئیں۔ رستمِ زماں
گاما پہلوان کی اِس نواسی نے یہ ثابت کیا کہ اکھاڑا خواہ عام ہو یا سیاسی،
پہلوان شکست نہیں کھایا کرتے۔ میاں نوازشریف کی سیاست میں ریڑھ کی ہڈی کا
کردار ادا کرنے والی کلثوم نواز اپنے پورے خاندان کو آمر پرویز مشرف کی
خباثتوں سے صاف بچا لے گئیں۔ اگر وہ 1999ء میں احتجاجی سیاست نہ کرتیں تو
میاں نوازشریف کا ملک سے باہر جانا محال ہو جاتا۔ اُنہوں نے پیپلزپارٹی کے
ساتھ مل کر اے آر ڈی کے قیام میں فعال کردار ادا کیا۔ ایک طرف وہ اپوزیشن
جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاجی سیاست کر رہی تھیں تو دوسری طرف نوازلیگ کو
متحد رکھنے کی تگ ودَو میں مصروف۔ 1999ء سے 2000ء تک مسلم لیگ کی قیادت
سنبھالنے والی بیگم کلثوم نواز کے سیاسی سفر کو مدِنظر رکھتے ہوئے بَرملا
کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مدبر سیاستدان تھیں جنہوں نے گھریلو خاتون کی
چادر اوڑھ رکھی تھی۔ ایک دِن وہ لاہور میں ہونے والے اے آر ڈی کے اجلاس میں
شرکت کے لیے باہر نکلیں تو پولیس نے اُن کی گاڑی کے گرد گھیرا ڈال لیا۔
پولیس نے اُنہیں گاڑی سے اتارنے کی کوشش کی تو وہ گاڑی کے دروازے لاک کرکے
اندر بیٹھ رہیں۔ پھر اُن کی گاڑی اُن کے سمیت لفٹر سے آگے سے اُٹھا لی گئی
لیکن وہ پھر بھی باہر نہیں نکلیں۔ گاڑی کی یہ تصویر جب میڈیا پر سامنے آئی
تو پرویز مشرف کی حکومت شدید دباؤ میں آگئی اور یوں وہ اپنے خاندان کو آمر
پرویز مشرف سے بچا کر باہر لے جانے میں کامیاب ہو گئیں۔
میاں صاحب کی نااہلی کے بعد سابق خاتونِ اوّل ایک دفعہ پھر سیاسی کردار ادا
کرنے کو تیار تھیں۔ اُنہوں نے میاں صاحب کی نااہلی سے خالی ہونے والی قومی
اسمبلی کی نشست (این۔اے 120 ) سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جس میں کامیابی
نے اُن کے قدم تو چومے لیکن جان لیوا بیماری اُن کے پاؤں کی زنجیر بن گئی۔
اگر وہ مرض الموت میں مبتلا ء نہ ہوتیں تو یقیناََ مسلم لیگ کی قیادت اُنہی
کے ہاتھ میں ہوتی۔ اﷲ تعالےٰ اُنہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور
لواحقین کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔
|