ایک دوسرے کو چبانے والی مخلوق

ہم بھی عجب قوم ہیں۔ایک دوسرے کو نوچ رہے ہیں۔ایک دوسرے کی راہیں مسدود کررہے ہیں۔اس روش سے ہر کوئی تنگ ہے مگر کوئی بھی اپنا رویہ بدلنے پر آمادہ نہیں۔ایک کا کان کسی نے پکڑا ہوا ہے۔کان پکڑنے والے کے پاؤں پرکوائی پاؤں جمائے ہوئے ہے۔جس نے پاؤں دبارکھا ہے۔اس کا ہاتھ کسی کے منہ میں ہے۔جو ہاتھ چبانے کی کوشش میں ہے۔اسکا کان کسی نے پکڑ رکھا ہے۔عجب تماشہ ہے چار وں تکلیف میں ہیں۔مگر ایک دوسرے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ۔تکلیف سے تو بلبلارہے ہیں۔مگر اتنی عقل نہیں کہ دوسرے کی تکلیف دور کرکے اپنا سکون پاسکیں۔ہم ایک دوسرے کو تکلیف دے کر خو دکو تکلیف دیے جانے کے احمقانہ شکوے رکھتے ہیں۔

محترمہ کلثوم نوازکو سپرد خاک کردیا گیا۔ملک بھرسے سیاسی و غیر سیاسی اکابرین سمیت ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے قریباً سبھی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی نظر آئی۔جنازے میں پی پی کا ایک اعلی ٰ سطحی وفد شامل تو ہوامگر پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین کی عدم شرکت سے مایوسی ہوئی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر نوازشریف کی جانب بے پناہ احساس اور ہمدردی دکھائی دی تھی۔وہ محترمہ کو حادثہ پیش آنے کے بعد فوراً ہسپتال پہنچے۔وہ جنازے میں بھی بنفس نفیس شامل ہوئے۔اب پی پی کے چیئرمین او رشریک چیئرمین کی جانب سے محترمہ کلثوم نوازکے جنازے میں شرکت نہ کرنا عجب لگ رہا ہے۔اس عدم شرکت کا سبب پی پی قیادت لیگی حکومت کا رویہ قراردے سکتی ہے۔وہ سمجھتی ہے کہ پی پی کو جن مشکلات کا سامنا ہے۔وہ لیگی قیادت کے عدم تعاون سے سبب ہیں۔پی پی والوں کو گلہ ہے کہ قیادت کے خلاف کیسز نبٹانے میں انہیں نوازشریف کی طرف سے تعاون نہیں ملا۔ڈاکٹر عاصم ۔ایان علی۔اور شرجیل میمن سمیت کئی لوگوں سے متعلق جس طرح کا تعاون پی پی قیاد ت مانگ رہی تھی۔نوازشریف کی طرف سے نہیں دیا گیا۔جناب زرداری کو سب سے بڑا گلہ ڈاکٹر عاصم کے معاملے پر لیگی قیادت کی خاموشی پر ہے۔پی پی قیادت نے جب اپنے لوگوں کی پکڑ دھکڑ پر اینٹ سے اینٹ بجا دینے والی بات کہی تھی تو انہیں توقع تھی کہ نوازشریف ان کا ساتھ دیں گے۔ نوازشریف نے نہ صرف ان کے بیان کی حمایت نہ کی بلکہ ان سے طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کردی۔ پی پی قیادت کو اس بیان کے مضمرا ت کے سبب کچھ مہینوں کے لیے ملک سے باہر وقت گزانا پڑا۔جب یان کے نتیجے میں پیداشدہ تلخیاں کچھ کم ہوئی تو وہ وطن لوٹ آئے۔اس کے بعد سے وہ مسلسل ایک تو اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں۔دوسرے انہوں نے لیگی قیاد ت سے تعلقات میں کچھ بڑی تبدیلیاں طے کرلیں۔وہ اب اینت سے اینٹ بجانے کے بیان کو ایجنسیوں اورایجنسیوں والوں کی بجائے کسی اور کی طرف منسوب کرتے ہیں۔یہی نہیں اسٹیبلشمنٹ کی نئی پنیر ی کو سینچنے میں بھی ہاتھ بٹایا۔سینٹ میں پچھلے دنوں جو انقلاب آیا وہ زرداری صاحب کا کارنامہ تھا۔وہ نوازشریف کو خالی ہاتھ کرتے کرتے خود بھی خالی ہاتھ رہ گئے۔

زرداری صاحب لیگی قیاد ت کے غم میں بنفس نفیس شریک نہیں ہوئے۔نہ ان کے صاحب زادے قرین قیاس یہی ہے کہ وہ اگلے ایک دو دن میں میاں صاحب یا ان کی صاحب زادی سے افسو س فرمالیں گے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس اظہا رافسوس کا اتنا مقام ہے جتتا برموقع کیے جانے سے ہوتا؟ جناب زرداری صاحب کا لیگی حکومت سے گلہ شکوہ جائز ہوسکتا ہے۔مگر یہ گلہ آخر کتنا لمبا چلے گا؟زرداری صاحب کی طرف سے نوازشریف دور میں پی پی سے عدم تعاون کی بات میں بھی کچھ زیادہ وزن نہیں ۔نوازشریف حسب روایت بڑے مگرمچھوں کے پیچھے تھے۔انہوں نے پی پی والوں کو کبھی نہیں چھیڑا۔انہوں نے تو سارے کا سارا زو رمشرف کو کٹہرے تک پہنچانے میں لگائے رکھا۔اگر وہ اس سے نصف بھی زور پی پی والوں کے خلاف لگاتے تو اب تک آدھی زرداری حکومت پیشیاں اور سزائیں بھگتتی نظرآتی۔انہوں نے قصداًآنکھیں موندے رکھیں۔کراچی اپریشن میں بلاشبہ نوازشریف نے کوئی لچک نہیں دکھائی ۔اس کا پی پی کو نقصا ن پہنچا مگر نوازشریف کو ملک میں امن وامان کی بہتری کا جنون تھا۔وہ اس کے لیے کسی کی ناراضگی یا خوشی کی پروانہیں کرنا چاہتے تھے۔کراچی اپریشن کے سوا نوازشریف حکومت کی جانب سے کوئی زور زبردستی ثابت نہیں ہوتی۔زرداری کواگر جمہوریت کی مضبوطی عزیز ہے تو پھر اس کے لیے وہ راستہ درست نہیں جس پر وہ چل رہے ہیں۔سیاسی قیاد ت ایک دوسرے کی راہیں مسدود کرکے کبھی جمہوریت کو مضبوط نہ کرپائے گی۔محترمہ بے نظیر بھٹو او رمیاں محمد نوازشریف نے ایک عرصہ سے ایک دوسرے کو نوچنے کی بری عادت سے بے زاری پائی تھی۔ میثاق جمہوریت اسی بے زاری کا نتیجہ ہے۔خیال یہی تھا کہ اہل جمہوری اپنی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔زرداری صاحب نے اپنے پانچ سالہ دو رمیں کبھی بھی غیر جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔الٹا وہ آزاداور طاقت ور عدلیہ کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔اگر وہ افتخار محمد چوہدری اور نوازشریف کے ساتھ دلی تعاون کرتے تو مشر ف کو باآسانی کیفرکردار تک پہنچایا جاسکتاتھا۔ا ب تک وہ شاید کچھ برس کی سزا بھی کاٹ چکے ہوتے۔ انہوں نے ہمت نہیں پائی۔بعدمیں بھی انہوں نے اگر بلے کو پکڑے کی بات کی۔یا اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیاتو اس کے پیچھے جمہوریت کی مضبوطی سے کہیں زیادہ اپنے کچھ دوستوں کی خلاصی کے لیے دباؤڈالنا تھا۔انہیں کامیابی نہ مل پائی۔نوازشریف نے جتنا کھل کر غیر جمہوری قوتوں سے اس بار مقابلہ کیاہے ۔زرداری اگر صحیح معنوں میں غیر جمہوری قوتوں کو کمزور کرنا چاہتے تو دل وجان سے ان کا ساتھ دیتے۔اہل جمہور ایک دوسرے کو نوچ کر جانے کب تک جمہوریت کے نہ پنپنے کا شکوہ کرتے رہیں گے؟

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141023 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.