گزشتہ دو ہفتوں میں جنوبی ایشیاء کے بین الاقوامی
تعلقات کے ضمن میں جو پیش رفت ہوئی ، لگتا ہے کہ کم از کم اگلے دس سال اس
خطے میں بسنے والے لوگوں کے مستقبل کی راہیں اس سے متعین ہونگی ۔ اگر ہم اس
نئی ابھرتی ہوئی صورت حال کا درست طور پر ادراک نہ کر سکے اور ہم نے
جذباتیت سے ہٹ کر عقل و شعور سے کام نہ لیا تو ان نئی سازشوں کے جال سے
ہمارا نکلنا مشکل ہو جائیگا اور بقول منیر نیازی
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
‰ گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو صرف چند گھنٹوں کیلئے پاکستان
میں رکے اور دورے کے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہ ہوا اور نہ
ہی امریکہ کی جانب سے پاکستان کو 30کروڑ ڈالر کی واجب الادا رقم کا کوئی
ذکر ہوا۔ لیکن یہی امریکی وفد جب بھارت جاتا ہے تو وہاں جو مشترکہ اعلامیہ
جاری ہوا اس میں پاکستان کو ہی ہدف بنایا گیا اور ان کالعدم تنظیموں کے نام
تک لکھے گئے جن کے بہانے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی واجب الادا رقم
دینے سے انکارکیا گیا ۔
امریکی وفد کی پاکستان اور بھارت کے دوروں کے دوران اختیار کئے گئے رویّوں
سے یہ بات صاف صاف عیاں ہو گئی ہے کہ مستقبل میں امریکہ اور پاکستان کے
مابین سفارتی کشیدگی برقرار رہے گی جبکہ بھارت کے ساتھ امریکہ کا سفارتی
اور فوجی اتحاد نہ صرف جاری رہے گا بلکہ یہ مزید مضبوط بھی ہو گا اور جس کے
نتیجے میں چین کا اس خطے میں اثر و رسوخ کم کرنے کیلئے امریکہ بھارت کو
پراکسی کے طور پر استعمال کرے گا ۔ اس خطہ میں امریکی اور بھارتی اتحاد
دراصل پاکستان اور چین کے مابین سی پیک کے ذریعہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و
رسوخ اور خصوصاً سی پیک روٹ اور گوادر پورٹ کے ذریعہ مشرقِ وسطیٰ میں چین
کی براہ راست رسائی کو روکنا ہے ۔اس نقطہ پر امریکہ اور بھارت کا مفاد
مشترکہ نظر آتا ہے اور لگتا ہے کہ یہ خطہ ایک بار پھر ’سرد جنگ‘ کے زمانے
کی طرح بین الاقوامی سازشوں کا مرکز بننے جا رہا ہے اور امریکہ اور بھارت
کا مشترکہ ٹارگٹ یہ ہو گا کہ پاکستان کی مغربی سرحد پرُامن نہ رہ سکے تا کہ
سی پیک کے منصوبے کو ناکام کر کے چین کی مشرق وسطیٰ تک رسائی میں رکاوٹ
ڈالی جا سکے ۔
مشرقِ وسطیٰ ، ایران اور پاکستان کیلئے چند سال پہلے ایک امریکی منصوبہ
منظر عام پر آیا تھا ، جسے ’’نیو مڈل ایسٹ میپ‘‘ کا نام دیا گیا تھا ۔ اس
منصوبہ میں ایران، ترکی اور عراق کے وہ علاقے جن میں کُرد آبادی ہے ، ان
علاقوں کو ملا کر کردستان کے نام کی ایک نئی ریاست کے قیام کے علاوہ ایرانی
بلوچستان اور پاکستانی بلوچستان کے علاقوں کو بھی ان ملکوں سے الگ کر کے
ایک امریکی سپانسرڈ ریاست کا قیام شامل ہے ۔ لیکن اس خطے میں یہ منصوبہ اس
وقت تک روبعمل نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان اور ایران کے درمیان اتنی کشیدگی
پیدا نہ ہو جائے جو دونوں ملکوں کے درمیان ایک بھرپور جنگ کی صورت میں ظاہر
ہو اور پھر امریکی قیادت میں نام نہاد بین الاقوامی امن فورسز یہاں اتر کر
اپنے مقررہ منصوبے پر عملدرآمد کریں۔
ماضی میں پاکستان کو ایران کے ساتھ کشیدگی کی طرف دھکیلنے کی پوری کوشش کی
گئی ہے اور خاص طور پر صدر ٹرمپ کے گزشتہ سعودی عرب کے دورہ کے دوران یمن
کی جنگ میں پاکستان کو شامل کرنے کی امریکی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں جس کی
سزا پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کو مل بھی چکی ہے ۔ لیکن ابھی تک بھی مشرق
وسطیٰ کی شیعہ سنی جنگ میں پاکستان کو شامل کرنے کی امریکی کوششیں ختم نہیں
ہوئی ہیں تا کہ اس کے اثرات پاکستان ایران سرحد پر پڑیں اور اس سرحد کو گرم
کیا جا سکے ۔ صدر ایران کا سابقہ دورہ ء پاکستان کس طرح مثبت نتائج سے
محروم کیا گیا ۔ لیکن ایران اب بھی پاکستان کے ساتھ کسی مخاصمت میں الجھنا
نہیں چاہتا اور اس کا ثبوت پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے فوری بعد
ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران پاکستان کے
ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے کیونکہ ایران کو متعدد بار امریکی سازشوں کا
شکار ہونے کا وسیع تجربہ ہے۔ ایران نے اپنی سرحد تک ایران پاکستان گیس پائپ
لائن عرصہ سے بچھا رکھی ہے ۔ پاکستان کو اپنے حصہ کا کام کرکے ایرانی گیس
سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
پاکستان کا اس بات میں مفاد ہے کہ پاکستان علاقائی تنازعات میں جتنا ممکن
ہو اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھے اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے یمن تنازعہ
سے بہر صورت دور رہے تا کہ اس کے مُضر اثرات جو ایران پاکستان تعلقات پر
پڑیں گے ان سے بچا جا سکے اور امریکی منصوبے جو ایران اور پاکستان کی
سرحدوں کو تبدیل کرنے کیلئے ہے اس کا مؤثر توڑ کیا جا سکے ۔
پاکستان کی نئی بننے والی حکومت کیلئے اس خطے میں امریکی تزویراتی منصوبوں
کو ناکام بنانا ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کی بنیادی شرط ہے کہ پاکستان اب
مزید کسی پراکسی وار میں شامل نہ ہو جیسا کہ نئے وزیراعظم پاکستان نے کہا
ہے کہ وہ کسی پرائی جنگ میں شامل نہیں ہونگے ۔اگر ہم گزشتہ 70سال کی
پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو پاکستان آج جس حالت میں پہنچا ہوا ہے اور آگ و
خون کی جو فصلیں ہم کاٹ رہے ہیں یہ ہماری ان خود کُش پالیسیوں کا نتیجہ ہیں
کہ ہم پرائی جنگوں میں پورے خضو و خشو کے ساتھ کودتے رہے ہیں ۔ اﷲ کرے نئی
بننے والی حکومت پاکستان اپنے ان الفاظ پر قائم رہے کہ
’’اب ہم کسی پرائی جنگ میں شامل نہیں ہونگے ‘‘ |