سلام یہ دعائے سلامتی ورحمت ہے اور صرف مسلمانوں کے لئے
عام ہے ۔ کافروں کو سلام نہیں کیا جائے گا۔ یہی سلام نماز کا آخری کام
ہے،اس کے بعد نماز ختم ہوجاتی ہے ۔ نماز میں جو آخری کام سلام ہے نیچے اس
کے چند آداب واحکام بیان کئے جارہے ہیں۔
(۱)سلام کا حکم:
حنفیہ نے سلام کو واجب کہا ہے مگر جمہور کے نزدیک رکن ہے ۔ دلیل سے سلام کا
رکن ہونا ہی قوی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
سیدنا علی ؓکہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا:مِفتاحُ الصَّلاۃِ الطُّہورُ
وتحریمُہا التَّکبیرُ وتحلیلُہا التَّسلیمُ(صحیح أبی داود:618)
ترجمہ: نماز کی کنجی وضو ہے ، اس کی تحریم اﷲ اکبر کہنا اور اس کی تحلیل
السلام علیکم کہنا ہے ۔
اﷲ اکبر کہنے ہی سے نماز شروع ہوتی ہے اور اس دوران باتیں کرنا یا نماز کے
منافی دوسرے اعمال حرام ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسے تکبیر تحریمہ کہا
جاتا ہے اور اس کا اختتام سلام پر ہوتا ہے یعنی سلام سے پابندی ختم ہوجاتی
ہے اس لئے اسے تحلیل حلال ہونا کہا گیا ہے۔
اس حدیث کی بنیاد پر نماز میں تکبیر تحریمہ بھی رکن ہے ،اس کے بغیر نماز
نہیں ہوگی اور سلام پھیرنا بھی رکن ہے اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوگی۔
(۲)سلام پھیرنے کا طریقہ :
نماز ایک رکعت والی ہو یا ایک سے زائد رکعت والی ، آخری تشہد میں الحیا ت ،
درود اور ماثورہ دعائیں پڑھنے کے بعد،سلام شروع کرتے وقت قبلہ رخ ہواور
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہتے ہوئے دائیں جانب اچھی طرح مڑے اس طرح کہ دائیں
جانب والا نمازی اس کے رخسار کو دیکھ لے اور پھر قبلہ رخ ہوکر السلام علیکم
ورحمۃ اﷲ کہتے ہوئے بائیں جانب اچھی طرح مڑے اس طور پر کہ بائیں جانب والا
نمازی اس کے بائیں رخسار کو دیکھ لے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ التفات
کے وقت نمازی کی نظر اپنے دائیں اور بائیں کندھے پر ہو یا دائیں وبائیں
نمازی کی طرف ہو۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓسیروایت ہے:
أنَّ رسولَ اللَّہِ صلَّی اللَّہُ علیْہِ وسلَّمَ کانَ " یسلِّمُ عن یمینِہِ:
السَّلامُ علیْکم ورحمۃُ اللَّہِ حتَّی یُری بیاضُ خدِّہِ الأیمنِ، وعن
یسارِہ: السَّلامُ علیْکم ورحمۃُ اللَّہِ حتَّی یری بیاضُ خدِّہِ
الأیسرِ(صحیح النسائی:1324)
ترجمہ:نبی ﷺاپنی دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرتے (اور کہتے:) (السلام
علیکم ورحمۃ اﷲ، السلام علیکم ورحمۃ اﷲ) حتی کہ دائیں طرف بھی آپ کے رخسار
کی سفیدی نظر آتی اور بائیں طرف بھی آپ کے رخسار کی سفیدی نظر آتی۔
بعض لوگوں کا یہ عمل ہے کہ السلام علیکم قبلہ رخ کہتے ہیں اور ورحمۃ اﷲ
کہتے ہوئے التفات کرتے ہیں۔ شیخ ابن عثیمین نے اس عمل کو بے بنیاد کہا ہے
اور شیخ صالح فوزان نے بھی کہا کہ سلام کے ساتھ ہی التفات ہوگا۔
(۳)سلام پھیرتے وقت بعض غلطیاں :
جب سلام کیا جائے تو بدن کو دائیں اور بائیں موڑنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ
یہ عمل بعض لوگوں میں پایا جاتا ہے ، بالخصوص خواتین میں۔ اس عمل کی کوئی
حقیقت نہیں ہے ، سلام پھیرتے وقت صرف چہرے کا التفات ہے۔ سلام کے وقت
ہاتھوں کا اشارہ کرنا بھی غلط ہے جیساکہ بعض صحابہ کرام بھی ایسا کرتے تھے
تو نبی ﷺ نے انہیں منع کیا۔
ایک اہم غلطی یہ ہے کہ عموما برصغیرہندوپاک میں مقتدی حضرات امام کے ساتھ
ہی سلام پھیرنے لگ جاتے ہیں یعنی جیسے ہی امام سلام پھیرنا شروع کرتا ہے
مقتدی بھی شروع کردیتے ہیں جبکہ مقتدی کو امام کی متابعت کا حکم ہے اس کا
مطلب یہ ہے کہ امام کے پیچھے پیچھے چلے ، امام کے ساتھ ساتھ یا آگے آگے
نہیں ۔ بعض لوگ اس عجلت میں سلام پھیرتے ہیں کہ امام کا دوسرا سلام مکمل
بھی نہیں ہوتا کہ مقتدی کا دوسرا سلام ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ سنت یہ ہیکہ جب
امام سلام پھیرلے تب مقتدی سلام پھیرے ۔
اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ امام جیسے سلام پھیرنا شروع کرے مسبوق(جس
کی رکعت چھوٹی ہو) فورا چھوٹی ہوئی رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے بلکہ جب امام
دونوں طرف سلام پھیرلے تب کھڑا ہو۔ بعض اہل علم نے دوسرے سلام کو مستحب کہا
ہے ان کی نظر میں اگر کوئی امام کے دوسری جانب سلام پھیرنے سے قبل اتمام
رکعت کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے تو اس کی نماز درست ہے مگر اوپر میں نے ذکر کیا
ہے سلام پھیرنا نماز کا رکن ہے لہذا جو کوئی امام کے دوسری جانب سلام
پھیرنے سے قبل کھڑا ہوجائے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے مسبوق
کو چاہئے کہ امام کے دونوں سلام کا انتظار کرے پھر کھڑا ہو۔
مقتدی کی ایک غلطی یہ بھی ہے کہ جب امام سلام پھیررہاہوتا ہے اس وقت بعد
میں آنے والانمازی جماعت میں شامل ہوجاتا ہیحالانکہ سلام کے ساتھ نماز ختم
ہوجاتی ہے اور سلام سے قبل امام کو پائے تو جماعت میں شامل ہونے میں کوئی
حرج نہیں تاکہ جماعت سے نماز پڑھنے کا بقیہ اجر حاصل کرسکے گوکہ جماعت کا
ثواب پانے کے لئے کم ازکم امام کے ساتھ ایک رکعت پانا ضروری ہے۔ جب کوئی
نمازی مسجد میں داخل ہو اس حال میں کہ امام سلام پھیر رہاہے تو رک جائے
یہاں تک کہ امام سلام سے فارغ ہوجائے اور وہ الگ سے نماز ادا کرے یا کوئی
دوسرا بھی نماز پڑھنے والا ہو تو جماعت بنالے۔
(۴)سلام پھیرنے میں التفات کا حکم :
نبی ﷺ سے دائیں اور بائیں دونوں جانب سلام کرتے وقت التفات کرنا ثابت ہے ،
آپ ﷺ کے اس عمل سے التفات کا مسنون ہونا معلوم ہوتا ہے۔ یہاں ایک مسئلہ یہ
ہے کہ اگر کوئی سلام کرتے وقت التفات نہ کرے یا التفات کرنا بھول جائے تو
نماز ہوگی کہ نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تسلیم(السلام علیکم کہنا) نماز
کا رکن ہے، یہ حاصل ہوگیا تو نماز صحیح ہے لیکن چونکہ نبی ﷺنے حکم فرمایا
ہے کہ میری طرح نماز پڑھو اور سلام میں التفات کرنا سنت ہے اس لئے اس کو
عمدا نہیں چھوڑا جائے گا۔
(۵)فرض نماز میں ایک سلام یا دو سلام؟
شیخ ابن باز رحمہ اﷲ سے کسی نے سوال کیا کہ میں نے ایک شخص کے پیچھے نماز
پڑھی ، اس نے صرف دائیں جانب سلام پھیرا، کیا ایک سلام پر اکتفا کرنا جائز
ہے اور کیا یہ سنت میں وارد ہے ؟ تو شیخ نے جواب دیا کہ جمہور اہل علم ایک
سلام کو کافی سمجھتے ہیں اس لئے کہ بعض احادیث ایسی وارد ہیں جو اس پر
دلالت کرتی ہیں اور بہت سے اہل علم اس جانب گئے ہیں کہ دونوں طرف سلام
پھیرنا ضروری ہے کیونکہ نبی ﷺ سے ایسا ہی ثبوت ملتا ہے ۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے
: صلوا کما رأیتمونی أصلی رواہ البخاری فی صحیحہ ۔ ترجمہ: تم اسی طرح نماز
پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔ اسے بخاری نے اپنی صحیح میں روایت
کیا ہے۔
یہی قول درست ہے۔ اور ایک طرف سلام پھیرنے کو کافی کہناضعیف ہے کیونکہ اس
بابت وارد احادیث یا تو ضعیف ہیں یا غیرصریح ہیں ۔ اگر صحیح بھی مان لیں تو
شاذ ہوگی اس لئے کہ یہ زیادہ صحیح ، زیادہ ثابت اور زیادہ صریح کے مخالف
ہوگی ، البتہ جو جہالت یا احادیث کی صحت کا اعتقاد رکھتے ہوئے ایسا کرلے تو
اس کی نماز درست ہے۔ (مجموع فتاوی ومقالات الشیخ ابن باز :11/166)
اور شیخ ابن عثیمین نے کہا کہ اگر ایک سلام پر اکتفا کیا جائے تو کیا کفایت
کرے گا؟ شیخ کا جواب یہ ہے علماء کے درمیان اس میں اختلاف ہے ، بعض نے کہا
کفایت کرے گا اور بعض نے کہا کہ کفایت نہیں کرے گا اور بعض نے کہا کہ نفل
میں کفایت کرے گا مگر فرض نماز میں کفایت نہیں کرے گا۔ یہ تین اقوال ہیں
اور احتیاط اسی میں ہے کہ دونوں طرف سلام پھیرا جائے اس لئے کہ اگر دونوں
طرف سلام پھیرا جائے تو کوئی نہیں کہے گا کہ تمہاری نماز باطل ہے اور اگر
ایک طرف سلام کرے تو بعض اہل علم کہیں گے کہ تمہاری نماز باطل ہے اور یہ
بات معلوم ہے کہ نبی ﷺ نے اس امر میں احتیاط کرنے کا حکم دیا جس میں دلیل
واضح نہ ہو۔ (الشرح الممتع:3 ؍211-212) .
خلاصہ یہ ہوا کہ نماز میں دونوں طرف سلام پھیرا جائے گا اور اگر ایک طرف
سلام پھیرنا کفایت نہیں کرے گا۔
لوگوں میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ بائیں جانب شیطان ہوتا ہے اس لئے صرف
دائیں جانب ہی سلام کیا جائے ، یہ قول مردودوباطل ہے۔
(۶)سلام پھیرتے وقت ہم کس سے سلام کرتے ہیں ؟
جب آدمی نماز سے سلام پھیرے تو وہ نماز سے باہر ہونے کی نیت کرے، ساتھ ہی
حفاظت کرنے والے فرشتوں اور مسجد میں موجود نمازیوں پر سلام کی نیت کرے ۔
اس طرح یہ سلام نماز سے باہر ہونے کے ساتھ فرشتوں اور نمازیوں کے لئے ہوگا۔
اپنے دائیں بائیں بھائی کو سلام کرنے کی دلیل یہ ہے ۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ، قَالَ: کُنَّا إِذَا صَلَّیْنَا مَعَ رَسُولِ
اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَیْکُمْ
وَرَحْمَۃُ اﷲِ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اﷲِ، وَأَشَارَ بِیَدِہِ
إِلَی الْجَانِبَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَیْدِیکُمْ کَأَنَّہَا أَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ؟
إِنَّمَا یَکْفِی أَحَدَکُمْ أَنْ یَضَعَ یَدَہُ عَلَی فَخِذِہِ ثُمَّ
یُسَلِّمُ عَلَی أَخِیہِ مَنْ عَلَی یَمِینِہِ، وَشِمَالِہِ(صحیح مسلم:
431)
ترجمہ: حضرت جابر بن سمرہ سے ر وایت ہے انہوں نے کہاکہ جب ہم رسول
اﷲﷺکیساتھ نمازپڑھتے توہم کہتے: السلام علیکم ورحمۃاﷲ،السلام علیکم ورحمۃاﷲ
اورانہوں نے اپنے ہاتھ سے دونوں جانب اشارہ کیا،چنانچہ رسول اﷲﷺنے
فرمایا:اپنے ہاتھوں کیساتھ اشارہ کیوں کرتے ہو،جیسے وہ بدکتے ہوئے سرکش
گھوڑوں کی دُمیں ہوں؟ تم میں سے ہرایک کے لیے بس یہی کافی ہے کہ اپنے ہاتھ
اپنی ران پر رکھے، پھر اپنے بھائی کو سلام کرے جو دائیں جانب ہے اورجو
بائیں جانب ہے۔
شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں کہ اگر کہا جائے کہ سلام کس کے اوپر ہے تو جواب یہ
ہے کہ اگر جماعت سے نماز پڑھنے والے ہوں تو یہ سلام ان کے لئے ہے اور اکیلے
بغیر جماعت کے ہو تو یہ سلام دائیں بائیں موجود فرشتوں کے لئے ہے ۔ (الشرح
الممتع:3/208).
ایک شبہ کا ازالہ : مسلم شریف کی مذکورہ حدیث سے احناف نماز میں عدم رفع
یدین کی دلیل پکڑتے ہیں جبکہ یہ حدیث سلام کے باب میں سلام کرنے سے متعلق
ہے ۔ اس کا رکوع میں جاتے ہوئے یا اٹھتے وقت رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں ہے
اس لئے امام نسائی اور امام ابوداؤد وغیرہ نے یہ حدیث سلام کے باب میں
لایاہے ۔
(۷)سلام کے وقت ہوا خارج ہونا:
اگر سلام پھیرنے سے قبل ہوا خارج ہوگئی تو نماز باطل ہوگئی پھر سے وضو
بناکرنئے سریسے نماز ادا کرنی ہوگی لیکن اگر پہلا سلام پھیرنے کے بعد دوسرے
سلام سے قبل ہوا خارج ہوئی تو اس میں اختلاف ہے جنہوں نے نماز میں ایک سلام
کوکافی مانا ہے تو ان کی نظر میں نماز صحیح ہے اور جنہوں نے نماز میں ایک
سلام کو کافی نہیں مانا ہے ان کی نظر میں نماز باطل ہوگئی۔ دلائل سے قوی
یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں ایک سلام کفایت نہیں کرے گااس وجہ سے پہلے
سلام کے بعد دوسرے سلام سے قبل ہوا خارج ہونے پر وضو بناکر پھر سے نماز
دہرائے ۔ سنت کے خلاف احناف کا فتوی یہ ہے کہ سلام کے وقت یا اس سے قبل ہوا
خارج ہونے یا نماز کے منافی کام کرنے سے نماز ہوجاتی ہے۔
(۸)صرف السلام علیکم کہنا یا آخر میں برکاتہ کا اضافہ کرنا:
تسلیم کا اطلاق کم سے کم السلام علیکم پر ہوتا ہے جیساکہ حدیث میں ہے نماز
کی تحریم اﷲ اکبر ہے اور اس کی تحلیل تسلیم یعنی السلام علیکم کہنا ہے اس
لئے کوئی محض السلام علیکم بھی کہتا ہے تو بھی کفایت کرجائے گا ۔ مسلم شریف
کے الفاظ ہیں : وَکَانَ یَخْتِمُ الصَّلَاۃَ بِالتَّسْلِیمِ(صحیح مسلم:783)
یعنی اور نماز کو سلام پر ختم کرتے تھے ۔
اس بات کی ایک واضح دلیل سنن نسائی میں ہے جس میں صرف السلام علیکم کا ذکر
ہے ۔حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا:
کنَّا نصلِّی خلفَ النَّبیِّ صلَّی اللَّہُ علیْہِ وسلَّمَ فنسلِّمُ
بأیدینا فقالَ ما بالُ ہؤلاء ِ یسلِّمونَ بأیدیہم کأنَّہا أذنابُ خیلٍ
شُمسٍ أما یَکفی أحدُہم أن یضعَ یدَہُ علی فخذِہِ ثمَّ یقولَ السَّلامُ
علیْکُم السَّلامُ علیْکُم(صحیح النسائی:1184)
ترجمہ: ہم نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہاتھوں سے سلام کرتے تھے۔ آپ
نے فرمایا:انھیں کیا ہوا ہے کہ ہاتھوں سے سلام کر رہے ہیں گویا کہ وہ سرکش
گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ کیا انھیں کافی نہیں کہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے
رہیں اور (زبان سے) کہہ دیں: (السلام علیکم، السلام علیکم)۔
یہ روایت نیل الاوطار میں بھی ہے ، اس میں علامہ شوکانی ؒ نے شیخ الاسلام
ابن تیمیہ ؒ کے حوالے سے ذکرکیا ہے کہ " ثمَّ یقولَ السَّلامُ علیْکُم"
دلیل ہے کہ کوئی ورحمۃ اﷲ نہ کہے تو بھی کفایت کر جائے گا۔
جہاں تک وبرکاتہ کی زیادتی ہے تو وائل بن حجر سے ابوداؤد میں دائیں جانب
سلام پھیرنے میں مکمل جملہ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ اور بائیں جانب
سلام پھیرنے میں السلام علیکم ورحمۃ اﷲ آیا ہے ۔ چنانچہ جناب علقمہ بن وائل
اپنے والد سے بیان کرتے ہیں:
صلَّیتُ معَ النَّبیِّ صلَّی اللَّہُ علیہِ وسلَّمَ فَکانَ یسلِّمُ عن
یمینِہِ السَّلامُ علیکم ورحمۃُ اللَّہِ وبرَکاتُہُ وعن شمالِہِ السَّلامُ
علیکم ورحمۃُ اللَّہِ(صحیح أبی داود:997)
ترجمہ: میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ۔ آپ ﷺاپنی دائیں طرف سلام
پھیرتے تو السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ کہتے اور اپنی بائیں طرف السلام
علیکم ورحمۃ اﷲ کہتے ۔
اسی حدیث کی بنیاد پر بعض اہل علم نے ورحمۃ اﷲ کی زیادتی کا جواز تسلیم کیا
ہے کیونکہ یہ حدیث علامہ البانی سمیت حافظ ابن حجر اور علامہ نووی رحمہ اﷲ
نے صحیح کہا ہے ۔ شیخ البانی نے صرف دائیں جانب وبرکاتہ کی زیاتی کو صحیح
کہا ہے۔( دیکھیں تمام المنہ : 171 )جبکہ بلوغ المرام اور المجموع میں جس
روایت کو حافظ اورامام نووی نے صحیح کہا ہے وہاں دونوں جانب وبرکاتہ ہے ۔
بہر کیف افضل واولی یہی ہے کہ سلام پھیرتے وقت السلام علیکم ورحمۃ اﷲ پر
اکتفا کرے کیونکہ آپ ﷺ کا اکثروبیشتر عمل یہی ہے لیکن کبھی کبھار وبرکاتہ
بھی کہہ لے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
(۹)نماز جنازہ میں ایک سلام اور دو سلام:
شیخ البانی احکام الجنائز میں عطاء بن سائب سے روایت لائے ہیں اور اس کی
سند کو حسن قرار دئے ہیں :
أنَّ رسولَ اللَّہِ صلَّی اﷲُ علَیہِ وسلَّمَ صلَّی علَی جنازۃٍ ،
فَکَبَّرَ علیہا أربعًا ، وسلَّمَ تسلیمۃً واحدۃً ۔(احکام الجنائز:163)
ترجمہ: نبی ﷺ نے جنازہ کی نماز پڑھی پس اس میں چار تکبیرات کہی اور صرف ایک
طرف سلام پھیرا۔
ایک سلام والی روایات کی وجہ سے بعض اہل علم نے نماز جنازہ میں صرف ایک طرف
سلام پھیرنے کو سنت کہا ہے تاہم یہ بھی کہتے ہیں دونوں جانب سلام پھیرنا
بھی جائز ہے ۔ شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں صرف دائیں جانب
ہی سلام پھیرنا ہے لیکن اگر کوئی دائیں اور بائیں دونوں جانب سلام پھیرتا
ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اس معاملہ میں وسعت ہے اس بابت نبی ﷺ کے متعلق اثر
آیا ہے کہ آپ بائیں طرف بھی سلام پھیرتے تھے ۔ (فتاوی نور علی الدرب)
شیخ البانی نے کہا ہے کہ نماز جنازہ میں دو سلام ہے اور بعض لوگوں نے جو
ایک سلام کو نماز جنازہ کے ساتھ خاص کیا ہے سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے
۔ وہ فرض نمازوں اور جنازہ کے سلام میں فرق نہیں کرتیالبتہ مزید یہ کہتے
ہیں فرض نمازوں کی طرح جنازہ کی نماز میں ایک طرف سلام پھیرنے پر اکتفا
کرنا جائز ہے لیکن فرض نماز اور نماز جنازہ میں افضل دو سلام ہے ۔ (فتاوی
الالبانی ، جمع وترتیب ابوعبدالرحمن عادل بن سعد)
خلاصہ یہ ہے کہ نماز جنازہ میں ایک طرف اور دونوں طرف سلام پھیرنا جائز ہے
۔ |