ڈیم نہیں چلو بھر پانی

تبدیلی عیاں ہو گئی ہے، میاں نواز شریف، اپنی بیٹی اور داماد کے ہمراہ جیل سے باہر نکل آئے ہیں، یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب عمران خان اپنے پہلے غیرملکی دورے پر سعودی عرب اورسعودی سفیر نواف بن سعيد المالکی ، میاں نواز شریف سے ملنے جاتی امرا پہنچے۔

نواز شریف کی رہائی اور عمران خان کے دورہ سعودی عرب سے یہ بالکل واضح ہو گیا ہے کہ ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ ، ہماری گورنمنٹ کو چلا رہی ہے۔اس عالمی حکومت میں ہمارے سیاستدان مختلف مہروں کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں، عالمی اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی نواز شریف کی تھی اور عمران خان بھی اس اسٹیبلشمنٹ کے اتنے ہی تابعدار ہیں جتنے میاں نواز شریف تھے۔

کچھ عرصہ پہلے جب پاکستان کے لوگ میاں نواز شریف سے سخت تنگ آچکے تھے، ان کی ہندوستان دوستی اور کرپشن کی داستانیں عام تھیں ، لوگ پاکستان میں امریکہ اور سعودی عرب کی بے جا مداخلت سے بھی اکتائے ہوئے تھے۔اسی طرح شام، بحرین، یمن اور افغانستان کےحالات بھی لوگوں کے ضمیر پر مسلسل دستک دے رہے تھے۔ یعنی لوگ ایک حقیقی تبدیلی کے طالب تھے تب اس حقیقی تبدیلی کا راستہ روکنے کے لئے ایک مصنوعی تبدیلی کا ڈرامہ رچایاگیا۔

پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھوں میں آج بھی قدیمی کشکول ہے اور حسبِ سابق ملک کو لوٹنے والے آزاد گھوم پھر رہے ہیں۔ آپ اسے ڈیل کہیں یا ڈھیل لیکن اسے تبدیلی نہیں کہہ سکتے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں پر عوام کے چلتے ہوئے قدموں کو رک جانا چاہیے، مخلص رہنماوں اور پارٹیوں کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ہمارے سیاستدان، عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لکھے ہوئے سکرپٹ کے تحت اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

حقیقت میں یہاں فقط چہرے اور مہرے بدلے ہیں ، باقی سسٹم حسبِ سابق ہے ، لہذا ہمیں ان نام نہاد سیاستدانوں کے اشاروں اور نعروں پر آگے بڑھنے کے بجائے واپس پلٹنا چاہیے، اگر ہمیں پاکستان سے محبت ہے اور ہم تعمیر پاکستان اور پاکستان کی سلامتی کو عزیز رکھتے ہیں تو پھر ہمیں اس بات کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ اس ملک میں کرپٹ افراد کے خلاف کس بھی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہونے والی اور حسبِ سابق امریکہ و سعودی عرب کا نفوز بھی قائم و دائم رہے گا۔حتی کہ سی پیک میں بھی امریکہ بذریعہ سعودی عرب شراکت دار رہے گا۔گویا جو کچھ جہاد انڈسٹری کے نام پر ہوا تھا وہی سی پیک کی صورت میں بھی ہو رہا ہے۔صرف انڈسٹری کی شکل تبدیل کی گئی ہے، اب بھی جہاد افغانستان و کشمیر کی طرح ، سی پیک کے عنوان سے زمین اور عوام پاکستان کے استعمال کر کے استعمار کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔
ہمیں ماننا چاہیے کہ ہمارے ہاں ایک حقیقی ، خودمختار اور کھری اپوزیشن کا وجود ہی نہیں لہذا ملکی مسائل کے سلسلے میں عوام کو ایک حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ مخلص رہنما اور تنظیمیں موجودہ اپوزیشن اور حکومت پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنا ایجنڈہ خود تیار کریں۔

اگر ہمارے ہاں عوام میں شعور بیدار کر کے ایک حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا جاتا تو اگلے ہزار سالوں میں بھی نہ ہی ہماری سرحدوں پر امن قائم ہو سکتا ہے ، نہ ہی ہمارے شہروں سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے ، نہ ہی مسئلہ کشمیر پر کوئی پیشرفت ہوگی اور نہ ہی ہم خود کفیل ہو سکتے ہیں چونکہ ہمارے ہاں کے سیاستدانوں سمیت ہندوستان و افغانستان کے سیاستدان خود عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں ۔

اب جو ڈیم ڈیم کی بتی کے پیچھے قوم کو لگایا گیا ہے، اس کے بارے میں یہ عرض کرتا چلوں کہ جس قوم کے ساتھ تبدیلی کے نام پر اتنا بڑا دھوکہ کیا گیا ہے اس قوم کے نام نہاد سیاستدانوں کو شرم سے ڈوب مرنے کے لئے کسی ڈیم کی نہیں بلکہ چلو بھر پانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ جب تک جگ میں سوراخ ہے اُسے پانی ڈال ڈال کر نہیں بھرا جا سکتا۔ لہذاکرپٹ لوگوں کی موجودگی میں ملک ترقی نہیں کیا کرتے چاہے جتنے مرضی ڈیم بنوا لیں۔

ابھی بطورِ ثبوت منگلا ڈیم کو ہی لیجئے، خودآزاد کشمیر والے لوڈ شیڈنگ سے مر رہے ہیں، ایک تو بجلی مہنگی ہے دوسرے برقیات والے بغیر بجلی کے میٹر دیکھے کئی گنا زیادہ بل لوگوں کو تھما جاتے ہیں ،ڈیم کے گرد بسنے والے لوگ آج بھی ڈیم بننے سے پہلے کے دور کی طرح بے چین و بے قرار ہیں،حقیقت یہ ہے کہ منگلا ڈیم میں پانی کم نہیں بلکہ کرپشن زیادہ ہے ۔

موجودہ حکومت اور اپوزیشن پر بھروسہ کرنے کے بجائے ایک حقیقی عوامی اپوزیشن کی تشکیل کے لئے غوروفکر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، ورنہ پانچ سال کے بعد پھر ہمیں چلو بھر پانی کی ضرورت پڑے گی۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 74882 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.