پاکستان اور مسلم ممالک کو اکٹھا ہونا وقت کی اھم ضرورت

پاکستان اور مسلم ممالک کو اکٹھا ہونا وقت کی اھم ضرورت

یہ کوئی اتنی اچھی بات نہیں ہے میرے خیال میں۔ امریکہ کے ساتھ ملٹری تعلقات تب تک رہنا ضرور ی تھے جب تک بھارت روسی کیمپ سے نہیں نکل جاتا۔ پاکستان اور بھارت کا ایک ہی کیمپ میں رہنا ہمارے مفاد میں قطعی نہیں تھا۔ یہ بالکل درست ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کبھی بھی خیر سگالی کے جذبے کے تحت نہیں بلکہ اپنے مفادات کےلیے رکھے۔ بدلے میں پاکستان نے بھی تعلقات نبھائے لیکن امریکی مفادات کےلیے نہیں بلکہ اپنے مفادات کےلیے۔ بھارت کی روسی کیمپ میں موجودگی کے باعث پاکستان کےلیے کبھی یہ ممکن نہیں رہا کہ امریکی دوستی کو ترک کر کے ازخود روس سے درخواست کرے کہ ہمیں اپنے ساتھ شامل کر لو۔ اس صورت میں خطے میں بھارتی بالادستی قبول کرنا پڑتی یا پھر کشمیر پہ سمجھوتہ کرنا پڑتا۔ کیوں کہ روس شروع سے بھارت کا حلیف رہا ہے اور ایسا حلیف نہیں جیسا امریکہ پاکستان کا تھا، بلکہ روس نے کئی معاملات میں بھارت سے دوستی کا حق ادا کیا۔ دوسری جانب سعودیہ اور ایران کی چپقلش کی وجہ سے بھی ہمارے لیے یہ مشکل تھا کہ روسی کیمپ میں جاتے۔ وجہ یہ ہے کہ روسی کیمپ میں ایران بھی موجود ہے، پاکستان اس جانب جاتا تو سعودیہ شور مچاتا اور پاکستان کی سیاسی قیادت کےلیے بھی یہ مشکل ہوتا کہ سعودیہ کا اعتماد برقرار رکھ سکے۔ گو کہ سعودیہ کے خود بھارت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں لیکن اس کے باوجود سعودیہ کو ہمارے روسی کیمپ سے جانے میں بے چینی ہوتی۔

لہٰذا پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چوائس نہیں تھی کہ امریکہ سے تعلقات بنا کر رکھے۔ امریکہ پاکستان کی اس کمزوری سے واقف تھا کہ روس خطے میں بھارت کو دیو بنا رہا ہے اور پاکستان کےلیے ہمارے ساتھ تعلقات رکھنا ضروری ہے۔ لہٰذا اس کمزوری کو امریکہ ہمیشہ ہماری بلیک میلنگ کےلیے استعمال کرتا رہا۔ جواب میں پاکستان نے بھی یہی کیا جس کےلیے ہم مشہور ہیں۔ یعنی دایاں ہاتھ دکھا کر بائیں سے جبڑا توڑ دیا۔ لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ امریکہ سے ہمارے تعلقات کی بدولت ہماری جنگی اور دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا۔ دفاعی آلات اور تربیت کے میدانوں میں ہم امریکہ سے جتنا فائدہ اٹھا سکتے تھے اس سے بھی زیادہ اٹھایا۔ بہرحال باہمی بلیک میلنگ کے یہ تعلقات اب اینڈ ہونے جا رہے ہیں۔ امریکہ پاکستان کی فوجی تربیتی امداد ختم کر چکا ہے۔ اور پاکستان بھی روس سے ایک معاہدہ کر چکا ہے جس کے تحت روس اور پاکستان آپس میں فوجی تعاون کریں گے۔

آج کا پاکستان نائن الیون کے دور والے پاکستان سے ہزار درجہ مختلف ہے۔ سی پیک چین کی دکھتی رگ بن چکی ہے، چین کےلیے لازم بھی ہے اور مجبوری بھی کہ پاکستان کے ساتھ بنا کر رکھے۔ گوادر کی بندرگاہ بھی بین الاقوامی سیاست اور معیشت کا رخ موڑنے والے اثرات رکھتی ہے۔ یہ گوادر کی بندرگاہ ہی ہے جس تک پہنچنے کا خواب لے کر روس 1979 میں افغانستان پہ حملہ آور ہوا تھا۔ اور اسے یہاں تک پہنچنے سے روکنے کےلیے ہی افغان جہاد شروع کروایا گیا تھا۔ اب روس کو کسی جنگ کی ضرورت نہیں رہی یہاں آنے کےلیے۔ اس لیے کہ وہ دوستی کے زریعے آنا چاہتا ہے اور چین کے ساتھ مل کر آنا چاہتا ہے۔ امریکہ کو بھی تکلیف اسی لیے ہو رہی ہے، تو پاکستان بھی روس کو خوش آمدید کہنے کےلیے تیار ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ بدلتے ہوئے ان بین الاقوامی سیاسی حالات میں پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت تعلقات کا توازن کیسے برقرار رکھ پاتی ہے۔ ہمیں روس سے تعلقات بڑھانے ہیں تو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ روس پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک وقت تعلقات میں کیسے توازن پیدا کرتا ہے؟ اس وقت کی دوسری سب سے اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ سعودیہ اور ایران کو کیسے ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے؟ کیوں کہ جب تک سعودیہ اور امریکہ کے باہمی تعلقات مضبوط ہیں تب تک مسلم دنیا میں امریکی اثر و رسوخ قائم رہے گا۔ اور جب تک عرب ایران تنازعہ کھڑا رہتا ہے تب تک امت میں اتحاد پیدا نہیں ہو گا۔ یہ نکتہ قطعی طور پر امریکہ کے مفاد میں ہے لہٰذا امریکہ مسلسل اس کوشش میں رہتا ہے کہ کبھی بھی سعودیہ و ایران کی دوستی نہ ہو سکے۔

اصول تو یہ بنتا ہے کہ جس طرح امریکہ، روس اور چین کے اپنے اپنے بلاک ہیں مسلمانوں کا ذاتی عالمی بلاک ہو۔ پاکستان کو روس، چین یا امریکہ کی طرف دیکھنا ہی نہ پڑے۔ بلکہ مسلم دنیا کا اپنا ایک بلاک ہو جس میں پاکستان ایک باوقار حیثیت سے شامل ہو۔ یہ بھی اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ سعودیہ و ایران کے باہمی اختلاف ختم ہو جائیں، مشرقِ وسطی میں امن آ جائے، سعودیہ و ایران بالترتیب امریکہ و روس کے اتحادی بننے کے بجائے آپس میں اتحاد کر لیں۔ نیٹو کی طرز پر تمام اسلامی ممالک کی اتحادی فوج ہو جو فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر صرف مسلم آرمی کہلائے اور پاکستان آرمی اس کی قیادت کرے، اسی طرح تمام مسلم ممالک کی ایک مشترکہ انٹیلیجنس ہو جس میں سعودیہ سے ایران تک ہر ملک کے زہین ایجنٹس ہوں، جس کی قیادت آئی ایس آئی کے پاس ہو۔ پھر دنیا میں طاقت کا توازن قائم ہو جائے گا۔ مسلم بلاک، روسی بلاک اور امریکی بلاک۔ ان تینوں بلاکس میں سب سے فیصلہ کن کردار مسلم بلاک کا ہو گا۔ کیوں کہ مسلم بلاک جس جانب جھکا اس کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔ امریکہ کی طرف گیا تو امریکہ روس پہ بھاری، روس کی جانب جھکا تو روس امریکہ پہ بھاری۔

Rizwan
About the Author: Rizwan Read More Articles by Rizwan: 12 Articles with 11004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.