کہانی سچی تب ہی لگتی ہے جب اُسکی حقیقت کی چُبھن طنز و
مزاح یا ٹریجڈی کی صورت میں آپ کی سوچ کو کو الفاظ دے کر جسمانی طور پر ہلا
دے ۔لہذا اسکو پہلی والی کہانی " ایک فون کال نہیں" ایس ایم ایس"ہی سہی
واٹس ایپس ۔ای میل بھی" کا تسلسل سمجھیں یا ایک اور نئی سچی کہانی۔ پر
زیادہ تر ہر ایک ساتھ کچھ ایسا ہی ہو تا ہے جیسا احمد اپنی ملازمت کی ضرورت
کے مطابق شے بیچنے کیلئے آخر کار اُس ادارے سے اَپوئنٹ منٹ حاصل کرنے میں
کامیاب ہو گیا تھا جہاں سے پہلے یہ جُملہ سُن چکا تھا :
" پہلے آپ نے وقت نہیں لیا ہوا تھا اس لیئے آج منیجر کے پاس وقت نہیں اور
آئندہ دِنوں میں بھی اُنکا شیڈول اتنا مصروف ہے کہ وقت نہیں"۔
جمعہ 11:30 بجے۔احمد نے وقت پر پہنچ کر استقبالیہ پر کھڑی لڑکی کو پر چز
منیجر کواطلاع دینے کیلئے کہا۔اُس نے اپنی ذمہ داری نبھائی اور احمد کو
سامنے انتظار گاہ پرپڑے ہو ئے صوفے پر بیٹھنے کیلئے کہا ۔انتظار گاہ میں وہ
اکیلا ہی تھا لہذا وہ سمجھ گیا کہ پہلے اُسے ہی بُلایا گیا ہے۔
جی ! بالکل وقت گزرنے اور انتظار گا ہ میں بیٹھے ہو ئے احمد کو یہ اندازہ
ہو نا شروع ہو گیا تھا کہ اَپوئنٹ منٹ نام کی ہی ہے ۔
بارہ بجکر دس منٹ ہوگئے اور نمازِجمعہ کا وقت ہونے کو آگیا۔احمد نے ایک دو
منٹ اور انتظار کیا اور پھر اُٹھ کر استقبالیہ پر موجود لڑکی سے جُمعہ
پڑھنے کی معذرت کر کے اپنا رابطہ نمبر لکھوایا اور یہ کہہ کر کہ جُمعہ کے
بعد اگر ملاقات کا وقت مل جائے تو ٹیلی فون کر کے بُلا لیں ۔
کہاں !جُمعہ کی شام ہوگئی اور کوئی جواب نہ آیا۔ احمد جان گیا تھا کہ وہاں
کچھ نہیں لیکن اب ایک ضد ہی سہی۔ایک دفعہ دوبارہ ملاقات کر کے چھوڑنی
ہے۔کتنے بڑے لوگ ہیں یہ بھی جان لیتے ہیں۔
ویسے وہ اپنے تجربے سے جانتا تھا کہ بڑے لوگ بڑے ہی ہوتے ہیں۔لیکن ایک اور
کوشش "کنگ بروس"کی کہانی جس میں چونٹی ایک ندی کے پتھرپر سے چڑھ کو اُوپر
آنے کی بار بار کوشش کرتی ہے اور آخر کار کامیاب ہو جاتی ہے اور مایوس کنگ
بروس کیلئے ہمت و کامیابی کا سبق بن جاتی ہے۔
احمد اگلے دِن پھر پہنچا اور اس دفعہ استقبالیہ سے آنے والی بُد ھ کی
اَپوئنٹ منٹ وقت صبح 11بجے کا ملا۔
احمد جان کر بُدھ کو آدھا گھنٹہ لیٹ پہنچا اورحسبِ روایت استقبالیہ پر کھڑی
لڑکی جو اب اُس کو پہچانتی تھی کو کہا کہ اندر اطلاع کریں۔
دلچسپ یہ تھاوہ بولی " اَپوئنٹ منٹ " کا وقت کیا تھا ؟ احمد بولا 11بجے ۔وہ
بولی" آپ لیٹ ہیں " ہاہاہاہا
" جُمعہ کو تو وقت پر آیا تھا" احمد بولا ۔کتنا انتظار کروایا ور ملاقات
بھی نہ ہوئی۔
وہ بولی " جُمعہ تھا "۔۔۔جی!جی! ۔۔جی !احمد حیران تھا اَپوئنٹ منٹ بھی دی
اور جُمعہ بھی تھا۔
صوفے پر بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا ۔لیکن اُس کو وہ کہانی بھی یاد تھی "ڈھیٹ" ۔
اچانک استقبالیہ پر بُلایا گیا اور کہا کہ پرچز منیجر سے اُن کے دفتر میں
ملاقات کر لیں۔احمد جان چکاتھا کہ معاملہ حل ہو یا نہ ہو حالات کی تصویر
کشی ضرور کرنی چاہیئے۔
کمپیوٹر کی طرف چہرہ کیئے یہ بھی گوارہ نہیں کر پا رہا تھا کہ احمد کے کہنے
پر کہ وہ اندر آجائے۔جواب میں کہہ دے "جی "
ایک مختصر بات کے جواب میں احمد نے بات کو طول دیا اور ثابت کرنے کی کوشش
کی کہ جب آپ کے پاس یا اپنے ملکان سے پوچھ کرجواب دینے کی اجازت ہے ۔ہاں
۔۔یا۔۔نہ ۔۔تو پھر اتنے چکر کیوں لگوائے۔اتنی بڑی ذمہداری پر اتنا وقت ۔
وہ کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے بولا " ہم نے تو آپکو اَپوئنٹ منٹ دی ہی نہیں "
احمد حیرانگی سے بولا " جی" اور وہ باہر استقبالیہ پر لڑکی؟
اس دوران پرچز منیجر نے بات جاری رکھتے ہو ئے کہا کہ صرف تین دِن میں جواب
آئے گا اور جسطرح آپ نے کہا ہے ویسا ہی آئے گا۔احمد نے جواب میں قیمتی20منٹ
دینے کا شُکریہ ادا کیا اور پھراحمد
" آج تک جواب کا انتظار کر رہا ہے "
کتنے دِن ہو گئے ہیں ؟ ایک سچی کہانی میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ
ایسا ہر دور میں ہو تا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ڈاکٹر ہو یا افسریا حکومتی
عہدیدار یا بڑی کاروباری شخصیت۔ اَپوئنٹ منٹ دے کر انتظار نہ کروائے ایک دو
کو چھوڑ کر یہ ممکن ہی نہیں۔ حالانکہ اب تو" ای میل ،ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ کی سہولت بھی موجود ہے " ۔
بہرحال اَپوئنٹ منٹ کے معاملے میں سب سے زیادہ دُکھ ہو تا ہے ڈاکٹر حضرات
پر جو اَپوئنٹ منٹ دیکر بھی لائن میں بیٹھاکر انتظار کرواتے ہیں اور فیس
پوری لیتے ہیں۔
بس دُعا کریں کسی کو کسی معاملے میں کسی کی ضرورت نہ پڑے۔ آمین!
|