سوال : شبیر صاحب، اپنے متعلق کچھ بتائیں؟
شبیر احمد: شبیر احمدمیرا اور میانداد میرے والد کا نام ہے۔ ضلع شکارپورکا
مستتقل رہائشی ہوں۔ 23برسوں سے اک سرکاری ادارے میں ڈرائیورکی حیثیت سے ذمہ
داریاں نبھا رہا ہوں۔ ان دنوں شہر قائد کے گلستان جوہر میں رہائش پذیرہوں۔
سوال :کراچی میں آپ کا دفتر کہاں ہے اور معلومات کی فراہمی کے متعلق آپ کے
پاس کب اور کس طرح کی کالزآئیں؟
شبیر احمد: حکومت پاکستان کے ادارے(اینٹی کرپشن ) کا ملازم اور سندھ
سیکریٹریٹ میں ہمارا دفتر ہے اس کے قریب ہی حبیب بینک ہے جس میں 13برسوں
میرا بینک اکاﺅنٹ ہے۔ 18اگست کو کچھ دنوں کی رخصت پر جب شکار پور پہنچا تو
دوپہر کے ڈہائی بجے میرے موبائل فون پر سے کال آئی۔
سوال : آپ کے پاس کس نمبر سے کال آئی اورانہوںنے کیا پوچھا؟
شبیر احمد:جیز نمبرسے میرے پاس سہہ پہر فون آیا، اسی وقت میں شکارپور پہنچا
تھا۔کال کرنے والے نے کہا کہ میں پاک آرمی سے کیپٹن محسن بات کررہا ہوں۔
حساس ادارے سے میرا تعلق ہے اور آپ کی معلومات درکار ہیں۔ ملک کی صورتحال
ان دنوں خراب ہے اور اس صورتحال کو درست کرنے کیلئے ہمارا ادارہ کام کررہا
ہے۔ آپ سے کچھ معلومات چاہئے ہیں لہذا جو بھی پوچھا جائے اس درست جواب
دیجئے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک بار پھر میرا نام لیا اور یہ بھی کہا کہ آپ
اس وقت شکارپور میں ہیںاور چند دنوں کی چھٹیوں پر گئے ہیں۔ اک سرکاری ادارے
کے ملازم ہیںاور آپ کے والد کا نام میانداد ہے۔ اس سے قبل کہ میں جواب دیتا
ہے ان کی کال ختم ہوئی، میں ہکا بکا رہہ گیا، اک گلاس پانی پیا ہی تھا کہ
دوبارہ کال آئی اورکہنے لگے کہ شبیر صاحب، آپ لائن کو منقطع نہ کریں اور جو
بھی پوچھاجارہا ہے اس کا صحیح جواب دیں۔ اس کے بعد انہوںنے کہا کہ آپ کا
دفتر سندھ سیکریٹریٹ میں ہے اور اس کے قریب حبیب بینک میں آپ کا اکاﺅنٹ ہے۔
پھر انہو ں نے کہا کہ اپنا بینک اکاﺅنٹ نمبربتائیں۔ اس سوال پر میں نے خود
ہی کال منقطع کردی۔
سوال :کیا آپ نے ان سوالات کے کیا جواب دیئے اور اس کے بعد ان کا کیا کہنا
تھا؟
شبیر احمد: میرے پاس صرف ہاں کہنے کے علاوہ کوئی جواب نہ تھا کیونکہ وہ جو
باتیں بتا رہے تھے وہ صد فیصد درست بتا رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ انہوں
نے میری تمام معلومات لینے کے بعد مجھے فون کیا تھا۔ میں تو حیران تھا اور
پرشیانی کی حد درجے کیفیات سے گذر رہا تھا، اس سے قبل مجھے اس طرح کی کوئی
کال نہیں آئی تھی اور اس وقت مجھے سمجھ نہیںآرہا تھا کہ میں کیا کروں؟ کس
کو بتاﺅں؟ کسی سے مشورہ کروں؟ سمجھ نہ آنے کا وقت بھی کم تھا اور ان کی
کالز متواتر آرہی تھی، پھر وہ جس طرح اعتماد کے ساتھ بات کرتے تھے اس سے
مجھے ان پر شک کرنےکا کوئی ذریعہ بھی نہیں مل رہا تھا۔ بہرحال انہوںنے مزید
کہا کہ، دیکھیںجو بھی پوچھا جارہا ہے اس کا درست جواب دیں اگر آپ غلط بیانی
کریںگے تو یہ آپ کیلئے مناسب نہیں ہوگا۔ اس سے آپ کی شخصیت مشکوک تصور کی
جائیگی اور آپ کے خلاف کاروائی ناگزیر ہوگی۔ جس پھر میں نے کہا کہ آپ
پوچھیں اور کیا جاننا چاہتے ہیں کہ کیونکہ جو بھی آپ نے باتیں کیں ہیں ان
میں کوئی بھی بات غلط نہیںہے اور آپ کی ساری معلومات درست ہیں۔ اس کے بعد
اس نے کہا کہ اپنا بینک اکاﺅنٹ بتائیں، جو میں نے بتایا اور اس نے کہا کہ
آپ نے ٹھیک بتایاہے پھر اے ٹی ایم کا پوچھا اور ساتھ ہی اے ٹی ایم کا پاس
ورڈ بھی پوچھا جو میں نے بتانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جس پر انہوں نے
کہا کہ آپ نہیں بتائیں گے تو آپ مشکوک ہونگے اور اس کے بعد یہانتک کہا کہ
آپ اپنے بینک کی ہیلپ لائن سے اس بات کو کنفرم کریں کہ کیا مجھے یہ معلومات
دینی چاہئے یا نہیں دینی چاہئے؟ وہ کچھ اور کہہ رہے تھے کہ رابطہ اک بار
پھر منقطع ہوگیا۔
سوال : کیا آپ نے بینک کی ہیلپ لائن والوںسے رابطہ کیا؟
شبیر احمد: کالز میں کچھ وقفہ آیا اس دوران میں نے بینک کی ہیلپ لائن سے
رابطہ کرنے کیلئے ہیلپ لائن کے نمبر پر کال کرنا شروع کردیں۔ 111 111
425نمبر پر میںمتعدد بارکال ملاتا رہا لیکن میری کال اول تو ملتی ہی نہیں
تھیں اور مل جاتی تو مذکورہ بندے سے میری بات نہ ہوپاتی اس دوران میرا پیسہ
بھی خرچ ہوا اور وقت بھی بہت ضائع ہوا۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ ہیلپ
لائن نمبر سے میرے فون پر کال آئی اور ان سے میںنے ساری بات پوچھی تو ان
کہنا تھا کہ آپ آرمی کے اہلکاروں کو معلومات بہم پہنچا سکتے ہیں اس میں
کوئی قابل اعتراض امر نہیں ہے۔ بینک میں موجود رقم آپ کی امانت ہے ان کو
کچھ نہیںہوگا۔ ہیلپ لائن کی اس یقین دہانی کے بعد میں قدرے مطمئن ہوا اور
جس نمبر سے مجھے کال کی جارہی تھی اس پر میں نے خود سے کال ملائی لیکن
رابطہ نہیںہوا۔ کچھ دیر کے بعد محسن صاحب کا دوبارہ فون آیا اور کہا کہ جی
آپ اکاﺅنٹ کے ساتھ اے ٹی ایم کی ساری تفصیل بتائیںاور اس کے ساتھ پاس ورڈ
بھی بتائیں۔ یہ سب درست انداز میں بتائیں یہ آپ کیلئے بہتر ہوگا۔ جس پر میں
نے ان کو ساری حفیہ معلومات اکاﺅنٹ کے حوالے سے فراہم کردیں۔
سوال : گویا آپ نے ان کو ساری معلومات فراہم کردیں، اس کے بعد کیا ہوا؟
شبیر احمد: جی میںنے محسن کی کالز پر ان کی گفتگو پر اور اس کے ساتھ حبیب
بینک کی ہیلپ لائن کی جاب سے کالز پر اپنے اکاﺅنٹ کی ساری معلومات بہم
پہنچائیں، بس یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی جو مجھ سے نادانستگی میں
ہوگئی۔ فون کالزکا جب وقفہ قدرے طویل ہوا تو میرے موبائل فون پر اک پیغام
آیا جس میں یہ کہا گیا کہ آپ کے اکاﺅنٹ سے ایک لاکھ اور پچاس ہزار روپے
منتقل ہوگئے ہیں۔ یہ پیغام پڑھنا تھا کہ میرے اوسان خطا ہوگئے میں نے جلدی
سے اس نمبر پر ملایا لیکن رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی ہیلپ لائن والوں سے
رابطہ ہوا۔ میری اس وقت حالت وکیفیت کیا تھی وہ ناقابل بیاں ہے بہرخال اپنی
چھٹیوں کو ادھورا چھوڑ کر میں واپس آگیا اور میں نے بینک والوںسے رابطہ کیا
لیکن ان کی جانب سے مجھے تسلی بخش جواب نہ دیا گیا۔ ان کا تو کہنا ہی یہ
تھا کہ ہم اپنے اکاﺅنٹ ہولڈرز کو ایس ایم ایس بھیجتے ہیں کہ اپنے اکاﺅنٹ کی
تفصیلات کسی کو بھی بتائیں۔ لیکن آپ نے اس پر عمل نہیںکیا لہذا اس صورتحال
کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔
سوال : اس واقعے کی رپورٹ آپ نے بینک انتظامیہ کے علاوہ کیا پولیس اور اپنے
محکمے کو دی ہے ؟
کراچی اپ ڈیٹس: بینک انتظامیہ کے پاس میںبارہا گیا ہوں انہیںاس واقعے کے
متعلق آگاہ کرنے کے ساتھ اپنی رقم کی واپسی کا بھی تقاضا کیا ہے لیکن ان کی
جانب سے کوئی مثبت اقدام نہیں اٹھایا گیا اس کے ساتھ ہی پولیس کو بھی واقعہ
بتایا ہے لیکن انہوںنے بھی کچھ نہیںکیا ہے اور اپنے محکمے کو بھی بتایا ہے
تاہم وہاں بھی خاموشی ہے۔ پاک آرمی کے نام پر محسن نے منظم منصوبہ بندی کے
ذریعے میری رقم جمع پونجی لوٹ لی میں اس غم کو اس سانخے کو کیسا بھلا سکتا
ہوں۔ آپ خود سوچیں، بینک میں کوئی بھی رقم اس سوچ کے ساتھ رکھتا ہے کہ وہ
رقم وہاں پر محفوظ ہوتی ہے۔ اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اس کی رقم اب
امانت کے طور پر اس بینک میں موجود ہے لیکن جب آپ کی امانت اس طرح سے آپ کے
ہاتھ سے نکل جائے تو کیا حالت ہوتی ہے یہ وہی جانتا ہے جو اس مرحلے سے گذرا
ہوتاہے۔
سوال : اس افسوسناک واقعے کے بعد آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
شبیر احمد: دیکھیں جی میںپیغام سے زیادہ یہ مطالبہ کرتاہوں حبیب بینک کے
صدر سے، اسٹیٹ بینک کے صدرسے، ان کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے وزیر
اعظم سے اور پاک آرمی کے سپہ سالار کے کہ پاکستان کی غریب عوام کی خدمت میں
اس بات کو مدنظر رکھیں کہ اک محنتی مزدور کا پیسہ کیسے لوٹ لیا گیا اس کی
واپسی کی کوئی سبیل ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ باہمی طورپر ایسا مضبوط
مدافعتی نظام بنا ہونا چاہئے کہ جس کے ہوتے ہوئے ایسے اقدام دوبارہ نہ ہوں
اور ایسے اقدامات کرنے والوں کو جلد گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جانی
چاہئے۔ مجھے میری محنت کی کمائی بھی لوٹائی جائے اور آئندہ کیلئے ملک دشمن
عناصر کے ایسے اقدامات کا مقابلہ کرنے کیلئے مکمل تیاری عمل میں لائی جائے۔
|