قیام پاکستان سے لیکر اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان
تین جنگیں لڑی جاچکی ہیں جن میں سے دو کی وجہ مسئلہ کشمیر ہی تھاجس سے
اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ان دونوں ممالک کی درمیان دیرینہ کشیدگی کی
اصل وجہ کشمیر کا مسئلہ ہے جس پر دونوں ممالک کی جانب سے دعوے داری کا عمل
تسلسل سے جاری ہے مگر دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ کشمیر کی عوام بھارت کی
بجائے پاکستان کا حصہ بننے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ ہی سبب بھارت کو کشمیر
میں خون خرابہ کرنے کو اکساتا ہے جس کے باعث بھارتی فوج کی جانب سے ان
لوگوں کا قتل عام کیا جاتاہے جو پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں ،اس
میں کوئی شک نہیں ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سے قبل گزشتہ دو ادوار میں
پاکستان کی بھارت اور کشمیر کے معاملے میں ڈپلومیسی نہایت ہی کمزور رہی ہے
،اور اسی وجہ سے پاک بھارت مزاکرات 2015 سے تعطل کا شکار چلے آرہے ہیں ،گزشتہ
پاکستان کی سول حکومت کی جانب سے نہ تو کشمیر اور نہ ہی بھارت کی جانب سے
پاکستان میں اندرونی مداخلت کو اہمیت دی گئی ہے ،ان تمام باتوں کو محسوس
کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کو ایک خط
لکھا کہ جس میں انہوں نے پاک بھارت مزاکرات کا زکر کیا اور زوردیا کہ دونوں
ممالک کے درمیان جاری چپقلش کے خاتمے کے لیے باضابطہ مزاکرات کا ہونا بہت
ضروری ہے اس لیے اچھا ہوگا کہ دونوں ممالک کے وزراء خارجہ اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی میں مل کر بات چیت کریں۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ وزیراعظم عمران
خان نے خطے کی بہتری کے لیے قدم بڑھایا فی الحال بھارت کی جانب سے عمران
خان کے خط کا جواب بہت اچھے انداز میں دیاگیا اور بھارت نے مزاکرات کی حامی
بھی بھرلی گئی مگر بعد میں ایساکیا ہوا کہ اچانک ہی بھارت کی جانب سے
پاکستان سے ملاقات کرنے کا انکار کردیا گیا،ان تمام باتوں کے باوجودآج
موجودہ حکومت نے جس انداز میں آتے ہیں ان مسائل کا ٹھوس اور مثبت جواب دینا
شروع کیا ہے تو اس کا اثر پوری دنیا نے دیکھا ہے اور پوری دنیا نے یہ بھی
دیکھا کہ بھارت نے نیویا رک میں شیڈول کے مطابق پاک بھارت وزرائے خارجہ کی
ملاقات سے کس انداز میں منہ موڑلیا ہے ، دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے
درمیان نیویارک میں 27ستمبر کو ملاقات کا ہونا طے پاچکاتھامگرخط کے مثبت
جواب کے بعد اگلے ہی روز بھارتی وزیر خارجہ کے ترجمان نے یہ بیان دیدیا کہ
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت اور حکومت پاکستان کی جانب سے
برھان وانی کے پوسٹل اسٹمپ جاری ہونے کے بعد اب یہ ملاقات ممکن نہیں رہی ۔اس
پر پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے جواب نے بھارت کو مزید
تلمانے پر مجبور کردیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں بھارتی ہچکچھاہٹ پر
حیرانگی ہے انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ بھارتی حکام میں زہنی ہم آھنگی
موجود نہیں ہے پاکستانی وزیر خارجہ نے کہاکہ کسی بھی مسئلے کا حل بات چیت
کے زریعے ہی نکالاجاسکتاہے ۔جبکہ وزیراعظم کے ایک ٹویٹ نے بھی بھارتی میڈیا
کو سیخ پا کردیاہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے منفی رویے پر افسوس
ہوا اور یہ میری زندگی کا نچوڑ ہے کہ چھوٹے لوگ بڑے منصب پر فائز بھی
ہوجائیں تب بھی ان کی سوچ چھوٹی ہی رہتی ہے ،اس ٹویٹ نے بھارتی وزیراعظم کو
ان کی اوقات یاد دلائی دی ہے کیونکہ جس اندا زمیں ہاں کرنے کے بعد بھارت نے
ایک بار پھر سے راہ فرار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اس پر ایسا ہی کرارہ جواب
دینا بنتاہے، ملاقات منسوخی کے باوجود پاکستان کے وزیرخارجہ کا رویہ مثبت
اور امن پسند رہا کیونکہ بھارت کے پاس ملاقات منسوخی کا کوئی بھی ٹھوس جواز
موجود نہیں تھایہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارت کو نہ صرف اپنے ہی ملک کی عوام
بلکہ پوری دنیا کی میڈیا میں بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑرہاہے کیونکہ
ایک ہی دن میں ہاں اور دوسرے دن کے انکا ر نے پوری دنیا میں بھارت کے امیج
کو بری طرح سے متاثر کیاہے، جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں رہاہے کہ بھارت
کو اپنے ہی ملک کے اندر سے بغاوت کاسامنا ہے اس کی نسبت اس مسئلے پرپاکستان
کے سیاست دان اور افواج پاکستان کے ادار ے ایک ہی پیج پر کھڑے ہیں ۔فی
الحال میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے وزیرخارجہ کا مثبت بیان کافی طاقتور رہاہے
لیکن اب مزید پاکستان کواس قسم کی استدعا سے گریز کرنا چاہیے ،کیونکہ بھارت
کو اگر مقبوضہ کشمیر کے پچاس برسوں میں چند ایک فوجیوں کے مرنے کی اس قدر
فکر ہے تو انہیں اسی کشمیر کی آزادی کے لیے لاکھوں کشمیریوں کی شہادت کابھی
پورا پورا احساس ہونا چاہیے جسے یقینا تحریک انصاف کی حکومت وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ پوری دنیا میں اجاگر کرتی رہے گی ،اس کے باجود ہمیں اپنی سوچ کو
مثبت ہی رکھنا چاہیے اور یہ ہی خیال دل میں رکھنا چاہیے کہ پاک بھارت
مزاکرات منسوخ نہیں بلکہ ملتوی ہوئے ہیں کیونکہ یہ مزاکرات دونوں ہی ممالک
کے امن کے لیے بہترین ثابت ہونگے،مگر بھارت اس عمل سے جس انداز میں اپنا
دباؤ پاکستان پر قائم رکھنے کی کوشش کررہاہے اس پر پاکستان کو بھی سوچنا
چاہیے کہ پاکستان کے مفاد میں کیا بہتر ہے؟ جس پر عملدرآمد کرکے ہم بھارت
کی نسبت اپنا رویہ مثبت رکھ سکیں ،پاکستان چاہتاہے کہ مزاکرات کا سلسلہ ختم
نہ ہو اب یہ بھارت کو دیکھنا ہے کہ ان کے کونسے ایسے شدت پسند گروہ ہیں جو
انہیں پاکستان سے بات چیت کرنے سے روک رہے ہیں اور ان شدت پسند یا انتہا
پسندوں کو نظر اندازکرکے آگے بڑھنے کا کام بھارت کا ہے ہمارا نہیں ہے،اور
جہاں تک بھارت کے موقف کی بات ہے اس میں اگر وہ مزاکرات کی دعوت قبول کربھی
لے اور اس صورت میں ملاقات ہوبھی جائے تو اس کو دونوں ممالک کے لیے سو فیصد
خوش آئندقرارنہیں دیاجاسکتا کیونکہ بھارت ہمیشہ سے ہی اپنی شرائط پر
مزاکرات چاہتا رہاہے اور اس کی شرائط میں پہلی شرط یہ ہے کہ پاکستان مسئلہ
کشمیر کے معاملے میں خود کو الگ کرلے ،یعنی یوں کہا جاسکتاہے کہ پاکستان جب
بھی کشمیر پر بات کریگا بھارت مزاکرات کی ٹیبل سے اسی طرح بھاگتارہے گا،اور
یہ کبھی ہو نہیں سکتاکہ پاکستان کشمیر کے معاملے میں اپنا رویہ تبدیل کرنے
کو تیار ہو جائے لہذا اگر پاک بھارت مزاکرا ت کی کوئی سبیل نہ بھی نکلی تو
پاکستان کے وزیرخارجہ اقوام متحدہ میں اپنی تقریرکو پوری دنیا کے سامنے
رکھیں گے اوراس طرح پاکستان کی نئی حکومت کا جو موقف ہے اسے پوری دنیا کی
میڈیااور سربراہوں کے سامنے رکھیں گے، یہ اقوام متحدہ کا 73واں اجلاس ہے
اور جو نو روز جاری رہے اور ا ن تمام دنوں میں پاکستان کے وزیرخارجہ مخدوم
شاہ محمود قریشی اپنا موقف مثبت انداز میں پوری دنیا میں اجاگر کرنے میں
یقیناکامیاب ہونگے ۔# |