بھگوا حکومت نے گزشتہ ایک عشرے میں دو ایسے فیصلے لیے ہیں
جس نے ملک کے باشعور طبقہ کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے، پہلا فیصلہ ہم جنسیت
کو جرائم کی فہرست سے آزاد کرنے کا کیا گیا اور دوسرا فیصلہ طلاق جیسی رحمت
کو جرم قرار دیا گیا. پہلے معاملے اور دوسرے معاملے میں یکسانیت پائی جاتی
ہے، جیسے کہ ہم جنسیت کی تائید کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر اپنی تعداد
رکھتے ہیں اسی طرح تین طلاق (مکمل طلاق ہی کہہ لیجیے) کی مخالفت کرنے والے
بھی صرف بھاجپا اور سنگھ کے لوگ ہیں، عزت مآب میڈیا نے جو کام کیا ہے اس کو
قلمبند کئے بغیر ان معاملات کا ادھورے ہی کہلائیں گے. ان اقل ترین افراد کے
احتجاج کو ایسا بڑھا چڑھا کر بتایا گیا کہ گویا پورا ملک اس کی مخالفت کر
رہا ہے.
لیکن دوسری طرف ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد پر مبنی احتجاج و دھرنے وغیرہ
دئیے گئے اس تین طلاق بل کے خلاف، لیکن نا تو میڈیا کی نظر وہاں گئی اور نا
ہی اس کو سرخی میں جگہ ملی، حتی کے اردو اخبارات میں بھی یہ خبریں ثانوی
درجہ رکھتی تھی.
ہم-جنسیت کو جائز اور طلاق کو جرم قرار دینے سے بی جے پی کی اخلاقی گراوٹ
کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتخابات میں جیت درج کرنے کے لیے کسی بھی حد تک
جا سکتی ہے، یہ فیصلے درحقیقت ہندو ووٹ بینک کو جذباتی بنا کر اپنے خق میں
استعمال کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں. پروفیسر فیضان مصطفیٰ اپنے ایک مضمون
میں اس کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات ملک کی دیگر
ریاستوں میں نظر آتے ہیں جیسے کہ بہار میں عورتوں کے ووٹ کے حصول کیلئے
نتیش کمار نے شراب پر پابندی عائد کردی تھی لیکن اب اس پر سے پابندی ہٹانے
کی کوششیں جاری ہیں. یہ تو واضح ہے کہ سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے جس کا
شکار پورا ملک ہورہا ہے.
تین طلاق کا جو آرڈیننس چور دروازے سے لایا گیا وہ انتہائی بچکانہ اور ملک
کے دستور کے خلاف جاتا ہے، دستور نے مذہب پر عمل کی جو آزادی دی ہے اس
آزادی کو ختم کرنے میں بھاجپا کامیاب ہوگئی ہے. اس فیصلے کو پڑھنے سے اس کے
کئی سارے متضاد پہلو سامنے آتے ہیں. تجزیہ نگاروں نے بھی اس پر لکھا خاص کر
پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے بھی اس پر ایک اہم مضمون لکھا جو کئی ویب سائٹس
اور انگریزی اخبارات میں شائع ہوا ہے.
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جب تین طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تو کس جرم کی
سزا مرد کو دی جائے گی؟ مسلمان ہونے کی؟ یا بھاجپا مخالف ہونے کی؟ اس پر
ظلم یہ کہ جب طلاق نہیں ہوگی اور مرد جیل میں ہوگا تب شادی شدہ عورت کہاں
جائے گی؟ اور اگر وہ ماں بھی ہوگی تب بل کے مطابق بچے بھی اس کے ساتھ ہوں
گے، کیا کوئی سسرال والے ایسی عورت جس کی وجہ سے ان کا لڑکا جیل گیا ہو اس
کو اپنے گھر میں بچوں سمیت پناہ دیں گے؟
اس کے برخلاف اسلام نے جو طلاق کا نظام رکھا ہے وہ عورت کے لیے سراسر رحمت
اور تحفظ فراہم کرنے والا ہے. مطلقہ عورت اپنے گھر میں بھائی اور باپ کے
ساتھ عزت دار زندگی گزارتی ہے اور دوسری شادی بھی کرسکتی ہے. یہ ہے اسلام
کا عدل پر مبنی نظام، جس کو اکثر مسلمان یا علماء غیر مسلمانوں کے سامنے
پیش کرنے سے گھبراتے ہیں یا پھر دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہیں.
یہ بات ہر کس و ناکس کو معلوم ہے کہ ملک میں طلاق کا فیصد مسلمانوں کی بہ
نسبت ہندوؤں میں زیادہ ہے، اور خاص کر جس قسم کی طلاق کے ذریعہ سے مسلمانوں
کے خلاف پروپیگنڈہ چلایا جارہا ہے، "تین طلاق" اس کا تو سرے سے کوئی سرکاری
سروے موجود ہی نہیں ہے. تو کس بنیاد پر یہ فیصلہ لیا گیا؟ یہ اہم سوال ہے.
حکومت نے طلاق بدعہ کی آڑ میں طلاق کے ہر طریقہ کو (حسنہ، رجعی) کو بھی جرم
قرار دے دیا، گویا اب مسلمانوں کے پاس طلاق کا کوئی نظام ہی باقی نہیں رہا،
اگر کسی مرد اور عورت کا نباہ نا ہورہا ہو تب بھی ان کو ساتھ رہنا ہوگا، جو
کہ ہندو معاشرہ میں ہوتا رہتا ہے. جس کی وجہ سے عورت سسرال اور شوہر کے ظلم
کا شکار ہوتی ہے.
ملک کا باشعور طبقہ ساری حقیقت اور اس بل کے تضادات سے واقف ہے اور اس کی
مخالفت بھی کررہا ہے، بلکہ حکومت خود ان چیزوں سے واقف ہے لیکن اقتدار کی
ہوس نے انھیں اندھا بنا دیا ہے. ان کے لیے اب 2019 انتخابات ہی سب کچھ ہے،
مسلم ویمنس پروٹکشن آکٹ کے نام پر حکومت نے عورتوں پر ظلم کو legalize
کردیا ہے، طلاق کو جرم قراد دینا گویا عورت پر ظلم کو قانونی حیثیت دینا
قرار پائے گا.
ان حالات میں مسلم جماعتوں اور قائدین کی ذمہ داری ہزار گنا بڑھ جاتی ہے کہ
وہ آگے آئیں اور اس فیصلہ کی مخالفت کریں، اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج
کریں اور بی جے پی کے اس سیاسی داؤ پیچ کو ان ہی پر الٹادیں. یہ وقت حرکت و
عمل کا ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آئندہ الیکشن میں بی جے پی کے
خلاف ایک متحدہ محاذ کھولا جاسکتا ہے، لیکن ضروری ہے کہ مسلمان اہل علم،
قائدین دیگر غیر مسلم سیکولر افراد کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں، مشورہ کریں
اور ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کام کریں. |