سال کے اوائل میں جب ہاردک پٹیل نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ’
گلی گلی میں شور ہے،چوکیدار ہی چور ہے‘ تو کسی نے اس کی جانب توجہ نہیں دی۔
لوگوں نے سوچا گجرات کا انتخاب جیتنے کے لیے ہاردک کانگریس کے اشارے پر اس
طرح کی گھوشنا کررہا ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ زبان زد عام ہوتا چلاگیا ۔
فرانس کے سابق صدر اولاند نے جب رافیل سودے سے متعلق سنسنی خیز انکشافات
کیے تو سماجی رابطے کی مشہور سائیٹ ٹوئیٹر پر ’چوکیدار ہی چور ہے‘ سب
سےاوپر ٹرول ہونے لگا۔ ایوان پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک پر تقریر
کرتے ہوئے جب راہل گاندھی نے کہا تھا رافیل کے معاملے میں مودی جی آنکھ
ملا کر بات نہیں کرسکتے تو سارے لوگ چونک پڑے۔ راہل سینہ ٹھونک کر بولے
فرانس کےصدر نے مجھ سے کہا ہے کہ اس معاہدے میں سودے کو کوئی خفیہ رکھنے
والی شق موجود ہی نہیں ہے تو اسے کیوں چھپایا جارہا ہے؟ اس نرملا سیتا رمن
پر جنون طاری ہوگیا۔ وہ اس حقیقت کو بھول کر حزب اقتدار کا حصہ ہیں اس قدر
چلاّئیں کہ مجبوراً اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا لیکن وقت کے ساتھ دودھ کا دودھ
پانی کا پانی ہورہا ہے اور مودی سرکار اس پانی میں غرقاب ہوتی جارہی ہے۔
فرانس کے سابق صدر اور مودی جی کے قریبی دوست فرینکوئس اولاند نے یہ کہہ کر
ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا کہ ’’رافیل طیارہ معاہدہ میں انل امبانی کو
فرانس یا دسالٹ نے منتخب نہیں کیا بلکہ حکومت ہند کی جانب سے ہمیں ان کا
نام دیا گیا تھا۔‘‘ اولاند نے دوستی کا کم ازکم اتنا حق ادا کیا کہ
وزیراعظم کا نام لینے کے بجائے اس حرکت کو حکومت ہند کے غلاف میں چھپا دیا۔
ویسے سابق بی جے پی وزیر دفاع و خزانہ یشونت سنہا کے بقول آج کل سرکار
وزیراعظم کے دفتر سے چلائی جارہی ہے۔ سارے وزیر صرف عیش فرماتے ہیں یا مودی
جی کے احمقانہ فیصلوں کی صفائی دینے پر مامور ہیں ۔ سوچھتاّ ابھیان کا
سیاسی مطلب سرکارکی جانب سے پھیلائی جانے والی گندگی کو صاف کرنا ہے ۔ اس
ٹھیکے میں بڑا حصہ ذرائع ابلاغ کا ہے۔
ایک زمانے تک بی جے پی والے بڑے طمطراق سے یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ’مودی جی
کا کوئی متبادل نہیں ہے‘۔ عوام نے اس کا غلط مطلب سمجھا ۔ وہ سوچنے لگے کہ
ملک میں مودی جی کا کوئی متبادل نہیں ہے حالانکہ بیچارے بی جے پی والے تو
یہ کہہ رہے تھے کہ ان کی جماعت کے اندر مودی جی کا کوئی متبادل نہیں ہے اس
لیے وہ ان کی مجبوری ہیں ۔ یہ اسی طرح کی غلط فہمی ہے کہ جو ایک اور نعرے
سے پیدا ہوئی تھی’اچھے دن آنے والے ہیں‘۔ بی جے پی والے یہ بات اپنے بارے
میں کہہ رہے تھے۔ مودی جی بھی اپنے ہی بابت یہ نعرہ بلند فرماتے تھے ، عوام
نے اگر اس کو اپن اوپر منطبق کر لیا تو اس میں کسی اور کیاقصور؟ فرانس
کےسابق صدر فرینکوئس اولاند نے بھی یہی کہا ہے کہ ’’رافیل معاہدہ میں انل
امبانی کو دسالٹ نے نہیں چنا تھا، فرانس کے پاس انل امبانی کے علاوہ کوئی
دوسرا متبادل ہی نہیں تھا۔ ہم نے وہی پارٹنر چنا جو ہمیں دیا گیا۔‘‘ یعنی
یہ رشتہ تو اوپر(گویاآسمان میں ) بنا اور نیچے( دنیا میں ) نافذ ہوگیا۔اب
آسمانی فیصلوں کو بھلا کون بدل سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر’ یہ رشتہ
کیا کہلاتا ہے‘؟
ملک میں بڑے دنوں تک مودی جی کو کوئی وزیردفاع میسر نہیں آیا ۔اس لیے
انہوں نے اپنے دفاع کی اضافی ذمہ داری دست راست ارون جیٹلی کو سونپ دی اس
لیے کہ جیٹلی کے سوا مودی جی کو کسی پر اعتماد ہی نہیں ہے۔ ویسے جیٹلی جی
بڑے قابلِ اعتماد آدمی ہیں ۔ ان پر تو وجئے ملیا بھی نہ صرف بھروسہ بلکہ
رائے مشورہ بھی کرتا ہے ۔جیٹلی جی جیسے بڑے وکیل سے وچار ورمش کا ایک فائدہ
تو یہ ضرور ہوتا ہے کہ سی بی آئی اپنے افسران کو حکم دیتی ہے وجئے ملیا پر
نظر رکھو لیکن پکڑنے کی ضرورت نہیں اور ہاں جب وہ صحیح سلامت نکل جائے تو
اطلاع کردینا یعنی مال پہنچ جائے تو اس کی رسید روانہ کردینا ۔ یہ تو خیر
وجئے ملیا کے ساتھ ہوا نیرو مودی اور اس کے چچا میہول چوکسی کے ساتھ کیا
ہوا کوئی نہیں جانتا۔ ہاں یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ کسی نامعلوم جزیرے کو
چوکسی کا پاسپورٹ جاری کرنے کے لیے حکومت ہند نے این او سی دیا تھا ۔ اس
بابت بیچاری سشما سوراج کو موردِ الزام ٹھہرانا غلط ہے اس لیے کہ سارا کام
کاج توپی ایم او سے چلتا ہے اور ویسے بھی چوکسی جی کے مودی جی سے دیرینہ
مراسم ہیں جس کا اعتراف وہ بھری مجلس میں کرچکے ہیں
جیٹلی جی پر جب کام کا یعنی حکومت کے دفاع کا دباو بہت بڑھ گیا تو مودی جی
نے رحم کھا کر انہیں وزارت دفاع کی ذمہ داری سے سبکدوش کردیا اور منوہر
پریکر کو یہ کام سونپ دیا۔ منوہر پریکر دہلی آکر نت نئے گل کھلانے لگے اور
سرکار کو ان کے اوٹ پٹانگ بیانات کا دفاع کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ نازک
صورتحال تھی ایسے میں بی جے پی گوا میں الیکشن ہار گئی ۔ اس ہار کو شاہ جی
نے دولت کے بل بوتے پر جیت میں بدل دیا لیکن جو وزیراعلیٰ الیکشن میں شکست
فاش سے دوچار ہوچکا تھا اس کو دوبارہ اس اہم عہدے پر فائز کردینا شاہ جی کے
لیے بھی مشکل تھا ۔ شاہ جی کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی سنکٹ وموچن
ہیں مگر اس بارشاہ جی نے سوچا کیوں نہ ایک تیر سے دو شکار کرلیے جائیں ۔
انہوں نے منوہر پریکرکا دہلی سے دیس نکالا کرکے گوا بھیج دیا ۔ اس طرح ایک
عظیم ملک کا وزیردفاع پھر سے ایک ننھی سی ریاست کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔
وزارتِ دفاع کی اہم ذمہ داری پھر سے وزیرخزانہ ارون جیٹلی کے سر آگئی ۔ وہ
بیچارے اس بوجھ تلے ایسے دبے کے بیمار ہوکر اسپتال میں داخل ہوگئے۔ وزیر
خزانہ ارون جیٹلی جی جب بیمار تھے توحزب اختلاف نے سوال کیا کہ فی الحال
وزیرخزانہ کون ہے؟ اس کا سیدھا جواب تو یہ تھا کہ پی ایم او میں بیٹھا فلاں
افسر ہے لیکن جمہوریت میں ساری سچائیاں بتا دی جائیں تو لوگ اقتدار سے بے
دخل کردیتے ہیں اس لیے بہت کچھ چھپانا اور بہت کم بتانا کی حکمت عملی
اپنائی جاتی ہے ۔ عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لیے چند نمائشی
اقدامات بھی کرنے پڑتے ہیں اسی کے چلتے وزارتِ خزانہ کی عارضی ذمہ داری
پیوش گوئل اور وزیردفاع کا کام کاج محترمہ نرملا سیتا رامن کو سونپ دیا گیا
۔ پیوش جی نے قلمدان سنبھالنے کے بعد یہ بیان دے کر کہ سوئس بنک میں
کالادھن نہیں ہے جیٹلی جی کی طبیعت بحال کردی اور انہوں آرام کرنے کا
ارادہ ترک کرکے پھر سےاپنی ذمہ داری سنبھال لی ۔ یہ تشویش بجا تھی اس لیے
جو وزیر یہ کہہ سکتا ہے کہ سوئس بنک میں کا لادن نہیں ہے اس کو یہ کہنے میں
کیا عار ہوسکتی ہے کہ ریزرو بنک میں کالادھن جمع ہے؟
کل یگ کی ہندوستانی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون کو وزیر دفاع بناکرکے
مودی جی نےملک کی خواتین پر عظیم احسان کیا حالانکہ ست یگ میں درگا دیوی اس
عہدے پر فائز تھیں۔ ویسے یہ تحقیق طلب مسئلہ ہے کہ ست یگ تھا یا نہیں تھا؟
نرملا سیتا رامن سے قبل وزارت دفاع کا قلمدان اندرا گاندھی کے پاس بھی تھا
لیکن چونکہ وہ وزیراعظم بھی تھیں اس لیے اس کی اہمیت گھٹ گئی تھی ۔نرملا
سیتا رامن صرف اور صرف وزیردفاع ہیں اور پوری طرح مودی جی کی مدافعت پر
مامور ہیں۔نرملا جی کی نظر اتنی تیز ہے کہ ان کو جے این یو کے طلباء میں
کشمیر کے علٰحیدگی پسند نظر آجاتے ہیں۔ وہ اس پر تشویش کا اظہار بھی کرتی
ہیں لیکن انہیں دہلی یونیورسٹی میں اے بی وی پی کے منتخب شدہ صدر کی جعلی
ڈگری دکھائی نہیں دیتی ۔ جس فرد کی دور کی نظر اتنی تیز اور قریب کی اس قدر
کمزور ہو اس کو بھلا رافیل کی بدعنوانی کیسے نظر آسکتی ہے؟ اس لیے کہ یہ
تو’ اندر کی بات ‘ہے۔ ویسے نگاہ اور زبان میں کوئی خاص رشتہ نہیں ہے اس لیے
ضروری نہیں کہ نظر کے ساتھ زبان بھی کمزور ہو ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت نرملا
جی کی منہ زوری ہے جو رافیل معاہدے کا دفاع اس شدومدسے کررہی ہیں کہ راہل
گاندھی کو انہیں وزیر رافیل کے خطاب سے نوازنے پر مجبور ہونا پڑا۔
بات اچھے دنوں کی نکلی اور اچھے دنوں کی طرح کہیں اور نکل گئی۔ ملک کے عوام
تویہ جانتے ہی نہیں کہ اچھے دن کیسے ہوتے ہیں ؟ اس لیے کہ ان کے آئے ہی
نہیں لیکن انہیں پتہ چل گیا ہے کہ وہ کیسے آتے ہیں ؟ اب اچھے دنوں کی راہ
تکتے تکتے مایوس ہوچکے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ اچھے دن کیسے جاتے ہیں یعنی برے
دن کیسے آتے ہیں؟ نرملا جی نے اعلان کیا کہ سرکاری کمپنی ایچ اے ایل رافیل
طیارےبنانے کی صلاحیت سے عاری ہے ۔ وزیر دفاع کا یہ اعلان ان کی جہالت کا
ترجمان ہے ۔ وہ نہیں جانتیں کہ یہ کمپنی آزادی سے قبل ۱۹۴۰ میں قائم ہوئی
اور ۱۹۴۲ میں اس نے ہارلو ٹرینر، کرٹس ہاک فائٹر اور ولٹی بمبار ہوائی
جہاز بنانے کا کام شروع کیا ۔۱۹۴۸ میں اس نےبغیر کسی بیرونی امداد کے اپنا
ہیلی کاپٹر بنالیا ۔ اس ۷۸ سالہ کمپنی کے بارے میں کہنا کہ اس کے اندر
صلاحیت نہیں ہے اور تین ہفتہ قبل قائم ہونے والی امبانی کمپنی اس سے زیادہ
باصلاحیت ہے ااسمان پر تھوکنے جیسا ہے۔
نرملا سیتا رامن نہیں جانتیں کہ ایچ اے ایل ان کے میک ان انڈیا کا کاغذی
شیر نہیں ہے جو صرف لال قلعہ کی دیوا رسے دہاڑتا ہے۔ جس کے دکھانے کے دانت
تو ہیں لیکن کھانے دانت ابھی آئے نہیں ہیں ۔ وہ اپنے کاغذی شیر کی بابت جو
مرضی ہو کہہ سکتی ہیں لیکن اییچ اے ایل جیسی باوقار کمپنی کے بارے میں لب
کشائی سے قبل ا نہیں سوچنا چاہیے ۔ وہ تو خیر ایچ اے ایل سرکاری کمپنی ہے
اگر وہ بھی امبانی جیسے کسی دھناّ سیٹھ کی ملکیت ہوتی تو وزیردفاع کے خلاف
ہتک عزت کا دعویٰ ٹھونک دیتی ۔ وزیر دفاع کے نااہلی والے الزام کا جواب
ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کے سابق سربراہ ٹی سووَرنا راجو نے
دے دیا ۔ تین ہفتہ قبل سبکدوش ہو نے والے راجو نے سرکارسے سوال کیا کہ
’’آخر حکومت رافیل معاہدہ سے متعلق فائلیں پبلک کے سامنے کیوں نہیں لا رہی
ہے؟‘‘ یہ حقائق اگر سامنے لائے جائیں تو عوام کو پتہ چل جائے گاکہ ایچ اے
ایل نااہل ہے یا وزیر دفاع نااہل ہیں ۔ نرملا جی اگر اس باوقار عہدے کی اہل
نہیں ہیں تو شک کی سوئی وزیر اعظم کی جانب مڑجاتی ہے جنہوں نے ان کو یہ ذمہ
داری سونپ رکھی ہے اور ہاردک پٹیل کا نعرہ زندہ ہوجاتا ہے’’گلی گلی میں شور
ہے، چوکیدار ہی چور ہے‘‘۔
|