ڈیم بناؤ .... انسان بچاؤ

انڈین آرمی چیف کا یہ بیان ہم سب پاکستانیوں کے لیے وجہ تفکر ہے کہ جنوری 2002 ء میں جب بھارتی فوجیں پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے بالکل تیا ر تھیں اس وقت امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو فون پر کہا تھا کہ پاکستان پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پاکستان مطلوبہ آبی ذخائر نہ ہونے کے باعث چند سالوں بعد جب غذائی ضروریات کے لیے مغرب کا رخ کرے تو اسے ایٹمی پروگرام کے خاتمے تک غلہ نہیں دیا جائے گا۔ اس امریکی یقین دہانی پر بھارتی افواج پاکستانی سرحدوں سے واپس چلی گئی تھیں۔ ہماری اسی نالائقی کو مدنظر رکھتے ہوئے واجپائی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ بھارت پیاس سے مررہا ہے اور پانی کا ایک ایک قطرہ اس کی ضرورت ہے لیکن ہمارا پڑوسی ملک پاکستان 35 ملین کیوسک فٹ پانی ضائع کرکے سمندر میں پھینک رہاہے کہ انسانوں کی بجائے مچھلیاں کو زندہ رکھا جاسکے۔

بظاہر یہ سولہ سال پرانی بات ہے لیکن امریکی اور بھارتی حکمت عملی میں پاکستان دشمنی کی جو مشترکہ قدریں سامنے آئی ہیں وہ ہم سب کے لیے غور وفکر کا مقام پیدا کرتی ہیں۔ ہم اگر پاکستان اور بھارت کے آبی ذخائر کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معاہدہ سندھ طاس پر ایک سرسری نظر ڈالنی پڑے گی ۔ یہ معاہدہ 17 ستمبر 1960 ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین ہوا تھا جس میں پاکستان کی جانب سے صدر محمد ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم جواہرلعل نہرو نے دستخط کیے تھے ۔ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات مئی 1952 ء میں عالمی بینک کی نگرانی میں شروع ہو کر 9 سال تک جاری رہے لیکن دونوں ملک کسی تصفیے پر نہ پہنچ سکے پھر جب پاکستان یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں لے جارہا تھا تو( بقول بھارتی صحافی کلدیپ نیئر ) امریکہ نے مداخلت کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ سلامتی کونسل میں جانے کی بجائے ورلڈ بنک کی تجاویز مان لے۔چنانچہ اس وقت کے صدرپاکستان ٗجنرل محمد ایوب خان نے اختلاف کرنے والے ارکان کو پاکستانی وفد سے نکال دیا اور خود ورلڈ بنک کی تیار کردہ تجاویز کو معاہدے کی شکل دے کر دستخط کردیے ۔ اس دستاویز کو سندھ طاس معاہدے کانام دیا گیا۔جس کے مطابق مغربی پنجاب کی اراضی ( پاکستان ) کو سیراب کرنے کے لیے دریائے جہلم ٗ دریائے چناب اور دریائے سندھ کا پانی استعمال کیاجائے گا ۔جبکہ مشرقی پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے دریائے راوی ٗ دریائے ستلج اور دریائے بیاس کا پانی بھارت استعمال کرے گا۔معاہدے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ایک عبوری مدت طے کی جائے جس میں پاکستان دریائے ستلج ٗ راوی اور بیاس کے پانی سے کاشت ہونے والی زمینوں کے لیے نہری پانی کے متبادل انتظامات مکمل کرسکے اوراس دوران بھارت پانی کی سپلائی ستلج ٗ بیاس اور راوی میں بھی جاری رکھے یہ مدت دس سال کی تھی یہ بھی طے کیاگیا تھا کہ تاریخی اعتبار سے مشرقی دریاؤں( ستلج ٗ بیاس اور راوی ) کا پانی پاکستان کے زیراستعمال رہا ہے اس پر بھارت کا قبضہ ہونے سے پاکستان کو کافی نقصان ہوگا اس لیے پاکستان متبادل انتظامات کے سلسلے میں جو تعمیرات کرے گا اس پر اٹھنے والے اخراجات میں بھارت بھی اپنا حصہ ادا کرنے کا پابند ہوگا۔

مزید برآں یہ معاہدہ طے پایا کہ متحدہ پنجاب میں نہری نظام کے حوالے سے اٹھارھویں صدی میں لارڈ لارنس اور لارڈ منٹگمری کی جانب سے تیار کردہ دستاویز ات کو بحال رکھا جائے۔چونکہ تمام دریاؤں کا مرکز اور منبع بھارت کے زیر قبضہ وادی کشمیر ہے اس لیے بھارت نے شروع دن سے ہی پانی روک کر پاکستان کی زمینوں کو بنجر بنانے کی ٹھان رکھی ہے معاہدہ سندھ طاس کے مطابق پاکستان صرف منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم بمشکل بنا سکا ہے ۔ کالا باغ ڈیم جس کو پاکستان کی زرعی اور صنعتی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت حاصل ہے انتہائی اہمیت کا وہ منصوبہ پاکستانی حکمرانوں کی لاپروایوں اور قوم پرستوں کی سازشوں کی نذر ہوکر ختم ہوچکاہے ۔ حالانکہ کالا باغ ڈیم نہ بنانے کے جرم میں ایوب خاں سے لے کر آصف علی زرداری تک تمام پاکستانی حکمران برابر کے شریک ہیں لیکن پیپلز پارٹی ( جو خود کو ایک قومی جماعت قرار دیتی ہے ) نے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ختم کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے ۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایوب خان ٗ یحیی خاں ٗ ذوالفقار علی بھٹو ٗ جنرل محمد ضیا ء الحق ٗ بے نظیر بھٹو ٗ میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف نے ہر وہ غیر قانونی اور غیر آئینی راستہ اختیار کیا جو ان کے اپنے اقتدارکو طویل دینے کا باعث بنا رہا تھا لیکن جس ڈیم کی تعمیر سے ملکی زراعت کو دوام اور فیکٹریوں کارخانوں اور گھریلو صارفین کو بجلی کی فراہمی ممکن ہونی تھی اس کو صرف یہ کہہ کر ہر پاکستانی حکمران نے التوا میں ڈالے رکھا کہ اس سے سندھ کی زمینیں بنجر ہوجائیں گی یا سرحدکے شہر سیلابی پانی میں ڈوب جائیں گے ۔

مجھے یاد ہے کہ سندھ کے ایک قوم پرست لیڈر مخدوم خلیق الزمان کہا کرتے تھے کہ ہم سر وں تک بھی دریائے سندھ کے پانی میں ڈوب جائیں تب بھی کالا باغ ڈیم بنانے کی اجازت نہیں دیں گے تاریخ اس بات کی شاہدہے کہ برسات کے موسم میں جب تمام دریاؤں میں پانی کی مقدار حد سے بڑھ جاتی ہے ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ پانی ٗ سیلابی ریلے کی صورت دھار کر پہلے سرحد ٗ پھر پنجاب اور آخر میں صوبہ سندھ کی لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی ہوئی فصلوں کو نہ صرف تباہ و بربادکردیتا ہے بلکہ ہزاروں دیہات کوصفحہ ہستی سے مٹاتا ہوا لاکھوں کی تعداد میں غریب اور پسماندہ لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دیتا ہے - برسات ختم ہونے کے بعد ہمارے تمام دریا ایک با ر پھر نالوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

ایک جانب ہمارے حکمرانوں کی خود غرضانہ پالیسیوں اور پانی کے حوالے سے مستقبل میں درپیش مشکلات سے چشم پوشی کی پالیسی جاری ہے تو دوسری جانب بھارت جو غذائی خود کفالت حاصل کرنے اور اپنے کسان کو خوشحال زندگی عطا کرنے کے لیے پانی کے ایک ایک قطرے کو محفوظ کرلینے کا نہ صرف پختہ عزم رکھتا ہے بلکہ معاہدہ سندھ طاس کے تحت بھارتی تحویل میں آنے والے دریاؤں کے ساتھ ساتھ پاکستانی دریاؤں ( چناب ٗ جہلم اور سندھ ) پر بھی مجموعی طور پر 62 سے زائد ڈیم کی تعمیر شروع کرچکاہے جو آدھے سے زیادہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں جبکہ باقی پر تیزی سے کام جاری ہے۔قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ بھارت 54 ارب ڈالر کی لاگت سے 10 ہزار کلومیٹر طویل نادردن لنک نہرشروع کرچکا ہے جو دنیا کا سب سے بڑا آبی منصوبہ ہوگا جس کے تحت تمام دریاؤں کو نہروں کے ذریعے آپس میں ملا دیا جائے گا۔ اس وقت تک پاکستانی حکمرانوں کی تغافلانہ اور مجرمانہ چشم پوشی کی بدولت بھارت دریائے چناب اور دریائے جہلم کا 80 فیصد پانی چوری کر چکا ہے اور ان دونوں دریاؤں پر تعمیر ہونے والے ڈیموں سے 27000 میگا واٹ بجلی بھی حاصل کررہاہے۔

دریائے سندھ کے 40 فیصد پانی کو ایک خفیہ سرنگ کے ذریعے چوری کرکے دریائے برہم پترا میں ڈال رہاہے بلکہ کارگل کے مقام پر ایک بہت بڑا ( کارگل ڈیم ) بنا رہا ہے جو دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم ہوگا اس ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ کی حیثیت ایک برساتی نالے سے زیادہ نہیں رہ جائے گی ۔یہی نہیں بلکہ بھارت دریائے سندھ میں گرنے والے ندی نالوں پر بھی 14 چھوٹے بڑے ڈیم بنا رہاہے اسی طرح دریائے جہلم سے ایک اور بگلیہار ڈیم سے دو نہریں نکال کر بھارتی سرزمین پر دریائے راوی میں ڈالی جارہی ہیں اور دریائے راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجستھان لے جایا رہا ہے دریائے جہلم پر 12 اور دریائے چناب پر مزید 20 چھوٹے ڈیم بنائے جانے کے منصوبوں پر کام جاری ہے ۔ بدقسمتی سے یہ تمام آبی تجاوزات ان دریاؤں پر تعمیر ہورہی ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آتے ہیں۔اور معاہدے کے مطابق ان دریاؤں کے پانی کو روکنے اور ان پر ڈیم بنانے کا بھارت کے پاس کوئی قانونی جواز نہیں ہے ۔ افسوس تو اس بات کاہے کہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور کانوں میں روئی ٹھونس کر پاکستانی حکمران بھارت کی اس آبی جارحیت کی جانب توجہ مبذول ہی نہیں کرنا چاہتے ۔ خدانخواستہ اگر یہی جارحیت پاکستان بھارت کے دریاؤں پر کرتا تو بھارت لاکھوں کی تعداد میں اپنی فوج ہماری سرحدوں پر لاکھڑا کرتا بلکہ امریکہ سمیت ساری دنیا کو شور مچاکر ہمیں مجرم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہونے پر مجبور کردیتا ۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے صدر آصف علی زرداری فرماتے ہیں کہ بھارت ہمارے لیے نہ پہلے خطرہ تھا اور نہ اب اس سے کوئی خطرہ محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ جبکہ پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی امریکہ کے ایما پر بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتے ہوئے نہیں تھکتے لیکن اگر بھارت کو آبی جارحیت اور پاکستان دریاؤں پر ڈیم تعمیرکرنے اور سرنگوں کے ذریعے دریائے سندھ کے پانی کو چوری کرنے سے بروقت نہ روکا گیا تو ہمارے حکمرانوں کی یہ مجرمانہ چشم پوشی خدانخواستہ پاکستان کی زرخیز اور زیر کاشت زمینوں کو بھی صحرا میں تبدیل نہ کردے۔

اس لمحے کوئی تاخیر کیے بغیر ہمیں نہ صرف بھارتی آبی جارحیت کے مسئلے کو ہر بین الاقوامی فورم پراٹھانا ہوگا بلکہ عالمی عدالت انصاف میں بھی بھارت کی اس کھلی آبی جارحیت کو چیلنج کرناہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں موجود بھارتی مفادات کے لیے سرگرم ملک دشمن عناصر کو بے نقاب کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔ سندھ طاس واٹر کونسل کے چیر مین ظہور الحسن ڈار کے ایک اخباری انٹرویو کے مطابق پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں ایسے لوگ موجودہیں جو بھارت کے مفادات کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ محکمہ آب پاشی کے دو اعلی افسران ایسے بھی ہیں جو دن رات اس جستجو میں مصروف ہیں کہ دریائے چناب کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر نہ اٹھایا جائے ۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں پاکستانی حکمرانوں اور نام نہاد قوم پرستوں سے یہ سوال کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ کالا باغ ڈیم بنانے پرتو انہیں تحفظات ہیں لیکن بھارت کی آبی جارحیت پر ان کی زبانیں کیوں گنگ ہوچکی ہیں کیا یہ لوگ بھارت کے نمک خوار ہونے کا ثبوت نہیں دے رہے۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ کالا باغ ڈیم بننے کی صورت میں اگر پاکستان کے پاس پانی موجود ہوگا تو صوبہ سندھ سمیت ہرصوبے کو اس کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم کیا جاسکے گا لیکن اگر بھارتی آبی جارحیت کی وجہ سے دریائے چناب ٗ دریائے جہلم اور دریائے سندھ بھی نالوں کی شکل دھار گئے تو نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب اور سرحد کی زرخیز زمینیں بھی ریت کی شکل اختیار کرلیں گی۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ پاکستان کا کل رقبہ آٹھ لاکھ تین ہزار نوسو چالیس مربع کلومیٹر ہے جس میں سے سات لاکھ اٹھہتر ہزار مربع کلومیٹر حصہ خشکی اور پچیس ہزار دو سو بیس مربع کلومیٹر حصے پر پانی موجود ہے اگر خشکی کے رقبے کو ہیکٹرز میں تقسیم کیا جائے تو یہ 79.61 ملین ہیکٹر بنتا ہے جس میں پنجاب کا حصہ 20.63 ٗ سندھ 14.09 ٗ سرحد کا 10.17 اور بلوچستان کا 34.72 ملین ہیکٹر بنتا ہے ۔سنہ 2000 ء میں زیر کاشت رقبہ 22.73 ملین ہیکٹر تھا جبکہ 9.15 ملین زمین زرخیز ہونے کے باوجود بیکار پڑی تھی اس کی بڑی وجہ پانی کی قلت بتائی جاتی ہے ۔

اس لمحے جبکہ پنجاب گندم ٗ چینی ٗ چاول اور دیگر زرعی اجناس کے ضمن میں دیگر تمام صوبوں کی ضروریات پوری کررہاہے اگر پانی میسر نہیں آئے گا تو خدانخواستہ یہ ملک قحط زدہ نہیں کہلائے گاآج ہمارے حکمران ایک ایک ڈالر کے لیے دنیا بھر میں کشکول پھرتے ہیں پھر یہی کشکول گندم ٗ چاول اور دیگر زرعی اجناس کے لیے بھی ہمارے ہاتھوں میں ہوگااور جو ملک ہمیں خیرات دے گا وہ اپنی من مانی شرائط بھی ہم سے منوائے گاجس طرح اب امریکہ ہم سے منوا رہا ہے ۔چلتے چلتے یہ بھی بتانا ضروری سمجھتاہوں کہ بھارت نے اپنے ملک میں تین ہزار ڈیم کی تعمیر شروع کررکھی ہے اور مزید تین ہزار ڈیم کی فیزی بیلٹی تیار کی جارہی ہے ۔ چین نے مستقبل میں پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 53 ڈیم ٗ ترکی 113 ڈیم ٗ جاپان 98 ڈیم ٗ ایران 34 اور امریکہ 10 ہزار ڈیم تعمیر کررہاہے گویا اس وقت دنیا بھر میں مستقبل میں پانی کی قومی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لیے تمام ممالک 45 ہزار ڈیم تعمیر کرچکے ہیں یا ان کی تعمیر پر تیزی سے کام جاری ہے لیکن ہم تربیلا ڈیم کے بعد کوئی ایک ڈیم بھی نہیں بناسکے اب کہیں جاکر پانچ ڈیم( جن میں بھاشا دیامیر ڈیم ٗ منڈا ڈیم ٗ کرم ڈنگی ڈیم ٗ اکھوڑی ڈیم شا مل ہیں) پر کام کا آغاز کیاہے تکمیل کا علم نہیں کہ کب ہو ۔ اسے بدقسمتی ہی قرار دیاجائے گا کہ پاکستان بہت تیزی سے ان ممالک کی فہرست کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں انسانی زندگی کے لیے پانی مطلوبہ مقدار سے کم پایا جاتا ہے۔عالمی معیار کے مطابق 1700 کیوبک میٹر پانی فی کس سالانہ درکار ہوتا ہے جبکہ اس وقت پاکستان میں 1200 کیوبک میٹر فی کس سالانہ پانی میسر ہے اور 2012 ء تک یہ مقدار مزید کم ہوکر 1000 کیوبک میٹر فی کس سالانہ تک پہنچ جائے گی۔اورجہاں یہ مقدار کم ہوتے ہوتے 500 کیوبک میٹر فی کس سالانہ تک پہنچ جائے گی تو پھر وہاں انسان اور جاندار زندہ نہیں رہ سکتے۔بدقسمتی سے بھارت اور امریکہ نے اس حوالے سے 2020 ء کا ہدف ہمارے لیے مقرر رکھا ہے جس پر وہ دونوں تیزی سے عمل پیرا ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت نے آزادی سے لے کر آج تک پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا بلکہ ہر موقع پر زک پہنچانے کی جستجو کی ہے قیام پاکستان کے وقت بھارتی حکمرانوں نے انگریزوں سے ساز باز کرکے پاکستان کو اس کے جائز مالی وسائل نہ ملنے دیے اور اسی وجہ سے بھارت کو یقین تھا کہ بہت جلد پاکستان اقتصادی طور پر ختم ہوجائے گا اور بھارت میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے منت سماجت کرے گا۔مگر ایسا نہ ہوسکا البتہ سازشوں کے ذریعے پاکستان کو دولخت کردیاگیا۔ جب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے رفقا کی شب و روز محنتوں سے پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا تو ساری دنیا انگشت بدنداں رہ گئی اسی وقت پاکستان کے خلاف نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ عالمی بدمعاش طاقتوں نے بھی سازشیں شروع کردیں۔ اسلامی دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور یہ بات مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل کے لیے ناقابل برداشت ہے اسرائیل کا سرپرست امریکہ ہر اقدام میں اس کی مدد کررہا ہے۔ اب بھارت ٗ اسرائیل اور امریکہ باہم مل کر ایٹمی پاکستان کے خلاف اپنی سازشوں کا دائرہ وسیع کرتے چلے جارہے ہیں۔

ہمیں بھارت کے متعلق کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ بھارت نے ہر موقع پر پاکستان کو حتی المقدور نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ گزشتہ 62سال سے حل نہیں ہوسکا اقوام متحدہ کی تین قراردادوں کے باوجود کشمیر میں رائے شماری نہیں کرائی جاسکی ۔ حجم ٗ نظریات اور غیر مسلم ریاست ہونے کی وجہ سے امریکہ بھارت کو اپنا حلیف سمجھتا ہے اسی لیے اس نے پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ سویلین ایٹمی معاہدہ کیا ہے امریکہ اگر چاہتا تو وہ بھارت کو مجبور کرکے کشمیر کا مسئلہ مشرقی تیمورکی طرح حل کراسکتا تھا مگر پاکستان کو بے دست و پا کرنے کے لئے امریکہ اب تک اس مسئلے کو جوں کا توں رکھے ہوئے ہے ۔بھارت کی جانب سے پاکستانی دریاؤں پر آبی جارحیت میں بھی امریکہ کی رضامندی شامل ہے ۔امریکہ اس جستجو میں مصروف ہے کہ دباؤ ڈال کر یا کیری لوگر بل کے سنہری جال میں پھانس کر پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ اور دلدل میں مکمل طور پر ملوث کردیاجائے دوسری جانب بھارت اپنے آبی منصوبے مکمل کرکے پاکستان کو خدانخواستہ صحرا میں بدل دے ۔

یاد رہے کہ اگر بھارت اپنے ان مکروہ عزائم میں کامیاب ہوگیا تو ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود پاکستان غذائی ٗ زرعی ٗ صنعتی اور معاشی اعتبار سے بدحال ملک بن جائے گا ۔ موجودہ حکمرانوں سے مجھے کوئی امید نہیں کہ وہ امریکہ اور بھارت کے جارحانہ اقدامات سے ملک و قوم کا تحفظ کرسکیں گے کیونکہ ان کی تمام تر توجہ لوٹ مار کرنے اورغیر ملکی دوروں پرمرکوز ہے لیکن اس تحریر کے ذریعے میں میاں نواز شریف ٗ عمران خان اور محب وطن قیادت سے یہ درخواست کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ خدارا دہشت گردی کی نام نہاد جنگ سے ہاتھ کھینچ کر بھارت کی آبی جارحیت کی جانب توجہ دی جائے اور اگر بھارت کو باز رکھنے کے لیے ایٹم بم مارنے کی دھمکی بھی دینی پڑے تو دے دی جائے کیونکہ ایٹم بم ہم نے سنبھال کر رکھنے کے لیے نہیں بنایابلکہ یہ بھارت اور اس کے مکروہ عزائم کو ختم کرنے کے لیے ہی ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے ۔اگر پاکستانی قوم نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دینا ضروری سمجھا تھا تو پاکستانی دریاؤں پر بنائے جانے والے ڈیموں کو تباہ کرنے کا عزم کون کرے گا ۔

یہ درست ہے کہ نواز شریف نے نیلم جہلم پروجیکٹ پر کام شروع کروایا اور بھاشا ڈیم کے زمین کی خریداری پر 100 ارب روپے خرچ کیے لیکن ان ڈیموں کو بروقت شروع نہ کرکے ایک اور جرم کیا گیا ۔ ایک تجزیئے کے مطابق کے دونوں ڈیموں کی تعمیر پر دس ارب ڈالر خرچ ہوں گے ۔چیف جسٹس کے فنڈ میں اس وقت تک تین ارب تو جمع ہوچکے ہیں جبکہ وزیراعظم نے بھی دوسرے ملکوں میں بسنے والے پاکستانیوں سے ڈیم فنڈ میں حصہ لینے کی جو اپیل کی ہے اگر اس کا خاطرخواہ فائدہ تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پانی
لاہورکراچی ملتان راولپنڈ ی پشاور ‘ فیصل آباد ‘گوجرانوالہ ‘ حیدر آباد سمیت ہر بڑے شہر کے قریب ایک ڈیم بنانا ہوگا تاکہ زمین کے نیچے پانی کی سطح کو برقرار رکھانے کے ساتھ ساتھ اس ڈیم سے ٹریٹ کرکے پانی کو پینے کے قابل بناکر شہریوں کو مہیا کیاجاسکے ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کراچی کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میں بھی پینے کے پانی کا مسئلہ گھمبیر ہوچکا ہے ۔راولپنڈی کے شہریوں کو راول ڈیم سے پانی فراہم کیاجارہا ہے اور راول ڈیم میں سال میں نو مہینے خشک رہنے لگا جب موسم برسات میں اس میں پانی آتا ہے تو وہ مجبورا ڈیم کے دروازے کھولنے پڑتے ہیں اور اکٹھا ہونے والا پانی سیلاب کی شکل دھار کر آبی گزرگاہوں کی جانب گامزن ہوکر تباہی مچانے لگتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ راولپنڈ ی اوراسلام آباد کو بھی پانی مہیاکرنے کے لیے دونوں شہروں کے نزدیک ایک اور ڈیم تعمیر کیا جائے جس میں بارہ مہینے پانی جمع رہے جو پینے کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے کام بھی آئے ۔

لاہورکی آبادی نئی مردم شماری میں ایک کروڑ بیس لاکھ ہوچکی ہے ‘ پنجاب کے علاوہ پاکستان کے تمام علاقوں سے روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کرنے والے افراد نے لاہور کا رخ کیا اور یہاں پانی کے ساتھ ساتھ بے شمار مسائل بھی سراٹھانے لگے ہیں ۔ بہرکیف شہباز شریف کے دور میں ایک کثیر الامقاصد منصوبہ "راوی جھیل" کے نام سے شروع کیاگیا تھا جس کی فزیبلٹی بن چکی تھی لیکن اسکو عملی شکل ابھی تک نہیں دی جاسکی ۔ "راوی جھیل " سائفن سے شروع ہوکر مانگامنڈی تک تعمیر ہونی تھی جس کی لمبائی 33 کلومیٹر بتائی جاتی ہے ۔ اس جھیل کے تعمیر ہونے سے نہ صرف لاہور کے رہنے والوں کو تفریح کے بہترین مواقع حاصل ہوتے بلکہ زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو بھی سنبھالا مل سکتا تھا لیکن افسوس کہ جس کام سے خلق خدا کو فائدہ ہوتا ہو وہ ہم سب سے آخر میں کرتے ہیں ۔ راوی جھیل کے فنڈز بھی اورنج ٹرین کی نذرہوگئے اور یہ منصوبہ بیورو کریسی کی فائلوں میں ہمیشہ کے لیے دب کے رہ گیا۔

سوچ بچار اور بحث و تمیحص میں بہت وقت گزر چکا اگر انتظامی اور حکومتی اداروں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے اور روایتی چشم پوشی سے کام لیتے رہے توپھر وہ وقت دور نہیں جب کربلا کی پیاس ‘ پاکستان کے گوشے گوشے میں رقص کرتی دکھائی دے گی ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784245 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.