اجلی سحر کا ظہور

مولوی تمیز الدین سے شروع ہونے والی سیریل کا آخری فیصلہ نیب عدالت کا ۶ جو لائی کو سنایا جانے والا وہ فیصلہ تھا جس میں شریف خاندان کو مجرم ٹھہرایا گیا تھا ۔عوامی رائے یہ ہے کہ یہ فیصلہ انتخابات سے چند روز پہلے محض اس لئے سنایا گیاتھا تا کہ مسلم لیگ (ن) کے مخالفین کی جیت کو یقینی بنا یا جا سکے اور جھنیں اقتدار کی مسند سے بزور دھکیلا گیاتھا ان کی واپسی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔پاکستان میں من پسند فیصلوں کے حصول کی ایک طویل تاریخ ہے لہذا اکثر فیصلے کسی ایک فریق کو کامیاب کروانے اور کسی دوسرے فریق کو کھڈے لائن لگانے کے پسِ منظر میں دئے جاتے رہے ہیں اس لئے عوام الناس شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں ۔چشمِ تصور سے دیکھئے تو سارا منظر بالکل واضح ہو جائیگا ۔ایک طرف بیگم کلثوم نواز کی بیماری،ایک طرف نیب عدالت کا فیصلہ،ایک طرف میاں محمد نواز شریف کی گرفتاری ،ایک طرف اڈیالہ جیل کی تنگ و تاریک کو ٹھریاں ،ایک طرف شدید گرمی اور حبس کا ماحول، ایک طرف دل کے عارضے کا مریض،ایک طرف جیل کی سختیاں، ایک طرف سنسر شپ کی شمشیر، ایک طرف جبر کا پہرہ،ایک طرف میڈیا میں بلیک آؤٹ ، ایک طرف من پسند اینکروں کی در فطنیاں،ایک طرف الزامات کا طوفان،ایک طرف اخلاقی قدروں کا جنازہ ،ایک طرف یک طرفہ احتساب ، ایک طرف یک طرفہ ہرزہ سرائی ،ایک طرف دھشت گردی کے مقدمات،ایک طرف نا اہلیاں اور جرمانے جبکہ فریقِ مخالف کیلئے کھلا میدان۔تین دفعہ منتخب وزیرِ اعظم کو بد دیانت اور خائن کہہ کر مخالفین کی راہیں آسان کی گئیں ۔ انھیں چور اور ڈاکو کہنے کا موقع فراہم کیا گیااور کسی کواپنی دیانت داری اور امانت داری کا ڈھول پیٹنے کا موقع فراہم کیا گیا۔مسلم لیگ (ن)کے سیاسی مخا لفین کو کرپٹ اور لٹیرے کہنے کا جواز مہیا کیا گیا۔ اب انتخابی نتائج تو وہی آنے تھے جھنیں پہلے سے لکھ کر رکھ لیا گیا تھا ۔ لکھنے سے مراد کوئی تحریر ی بیاض نہیں تھی بلکہ حالات واقعات کی ایسی زنجیرتھی جس کی ایک ایک کڑی انتہائی مہارت کے ساتھ سجائی گئی تھی۔مسلم لیگ کے بیانیہ کی اصل طاقت میاں محمد نواز شریف تھے اور انتخابات سے چند دن پہلے انھیں نیب عدالت کے فیصلہ کی روشنی میں گرفتار کر لیاگیا تھا۔ان کی بہادر سپتری جو اس بیانیہ کی روحِ رواں تھی اسے بھی ساتھ ہی دھر لیا گیا تھا تا کہ اس بیانیہ کی خوشبو عوا م تک نہ پہنچ سکے۔ بیانیہ کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب میاں محمد نواز شریف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کرتے تھے تو جلسہ گاہ کے درو دیوار اس آواز سے لرز جاتے تھے ۔ان نعروں کی شدت کوطاقت کے مراکز میں بھی انتہائی تشویش کے ساتھ سنا جا تا تھا لہذا ایک ہی راستہ بچا تھا کہ اس آواز کو جیل کی چار دیواری میں قید کر دیا جائے تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔،۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جن حالات میں نیب عدالت کا فیصلہ آیا تھا وہ عدالتی تاریخ میں بالکل منفرد تھے۔ سپریم کورٹ نے ایون فیلڈ مقدمہ سے قبل کسی بھی نیب مقدمہ کو انجام تک پہنچانے کیلئے سپریم کورٹ کے جج کا تقرر نہیں کیا تھا۔مقدمہ کی کاروائی کبھی ہفتہ وار تعطیلات میں سننے کی روائت نہیں تھی،ملزم کیلئے استثنی سے انکار نہیں کیا جا تا تھا،رات گئے تک وکلاء کو دلائل دینے کا کبھی پابند نہیں کیا گیاتھا جبکہ وقت کی قید کا کہیں کوئی تصور نہیں تھا ۔ یعنی معمول کی کاروائی معمول کے اوقات میں ہی سر انجام پاتی تھی لیکن نہ جانے ایون فیلڈ میں کیا رکھا ہوا تھا کہ اسے انتخابات سے قبل انجام سے ہمکنار کرنا ناگزیر سمجھا گیاتھا۔سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا مقدمہ تھا جس کے فیصلہ پرانتخابی کامیابی اور ناکامی کا دارو مدار تھا۔فتح اور شکست اس فیصلہ سے جڑی ہو ئی تھی لہذا اسے انتخابات سے قبل سنایا جانا ضروری تصور کیا گیاتا کہ مطلوبہ نتائج میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے ۔یہ فیصلہ اگر انتخابات کے بعد تک موخر کر دیا جاتا تو انتخابی نتائج موجودہ نتائج سے بالکل مختلف ہوتے۔کتنا سنگدل نکلا یہ سماج جس نے بسترِ مرگ پر پڑی ہوئی اپنی قوم کی قابلِ فخر بیٹی کی بیماری کا لحاظ بھی نہ کیا۔عدالتوں میں تو فیصلوں کو محفوظ کر کے کئی کئی ماہ تک التوا میں رکھنے کا رواج ہے لیکن نیب عدالت نے انسانی ہمدردی کے تحت التوا سے انکار کر دیا۔منصفوں کو خود بھی علم تھا کہ ایک بڑی جماعت کا قائد اپنی بیوی کی جان لیوا بیماری کے باعث اپنی بیوی کی تیمارداری کیلئے چند ایام اس کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے لہذا فیصلہ کو موخر کر دیا جائے لیکن بوجوہ ایسا نہ کیا گیا اور فیصلہ سنانے میں انتہائی عجلت سے کام لیا گیا۔میاں محمد نواز شریف نے اپنی بیمار بیوی کو لندن میں چھوڑ کر پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا اور اپنی بہادر سپتری کے ساتھ گرفتاری پیش کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ لوگ شسدر رہ گئے کہ قانون کا احترام ایسے بھی کیا جاتا ہے۔جھنیں اقتدار کی جلدی تھی ان کیلئے یہ گرفتاری کسی نعمت سے کم نہ تھی لیکن وہ جو انسانی جذبوں کے امین ،انسانی قدروں کے قدردان اور انسان دوستی کے علمبردار تھے انھیں حکومتی طرزِ عمل سے دلی رنج ہوا۔فیصلہ ہو گیا،جھنیں اقتدار سونپاجانا تھا اس کا اہتمام ہو گیا اور جھنیں جیل کی ہوا کھانی تھی انھیں جیل کی دیواروں کے اندر محبوس کر دیا گیاتا کہ راوی چین ہی چین لکھ سکے۔،۔

نیب عدالت کے فیصلہ پر بڑا شور مچا ۔ماہرینِ قانون نے بڑی دہائی دی،قانون کے پرستاروں نے بڑے دلائل دئے لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔پانسہ پھینکا جا چکا تھا اور جیت کا فیصلہ کر دیا گیا تھا۔ جس شخص کو وزیرِ اعظم بنانا مقصود تھا اس کا فیصلہ ہو چکا تھا جسے اب بدلا نہیں جا سکتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ یک طرفہ انتخابات تھے لیکن کچھ کیلئے پھر بھی لوہے کا چنا ثابت ہوئے کیونکہ جسے نامزد کیا گیا تھا وہ پھر بھی سادہ اکثریت سے محروم رہا ۔سوال کسی کی عوامی مقبوبیت کا نہیں تھا بلکہ طریقہ واردات غلط تھا۔ ۔ نیب عدالت کے فیصلہ کے خلاف ۱۰ دنوں کے اندر اپیل دائر کر دی گئی تا کہ نا انصافی سے عوام کو روشناس کروا یا جائے ۔نیب عدالت کا فیصلہ انتہائی کمزور بنیادوں پر تھا لہذا اس کا معطل ہونا فطری تھا۔یہ فیصلہ قانون ِ شہادت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا تھا لہذا اسے معطل ہو کر رہنا تھا ۔ سزائیں تو سنا دی گئیں لیکن انھیں بر قرار رکھنا انتہائی مشکل تھا۔قانونِ شہادت میں گواہ اور دستاویز ات انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جو کہ اس مقدمہ میں سرے سے موجود ہی نہ تھیں۔ جسے سزا سنائی گئی تھی اس کے خلاف کوئی کاغذ کوئی دستا ویز،کوئی معاہدہ اس بات کو ثابت نہیں کرتا تھا کہ ایون فیلڈٖ فلیٹس کے مالک میاں محمد نواز شریف ہیں ۔ جب وہ مالک ہی نہیں تھے تو پھر انھیں سزا کس بنیاد پر سنائی گئی تھی؟ایون فیلڈ کے مالک ان کے بیٹے ہیں اور اس مقدمہ کا جواب بھی انہی سے لیا جانا چائیے۔احتساب سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن احتساب اور انتقام میں بین فرق ہے۔جس نے کرپشن کی ہے اسے سزا ہونی چائیے لیکن انصاف کا پلڑاجھکائے بغیر۔ سپریم کورٹ پہلے ہی اپنے فیصلہ میں یہ طے کر چکی ہے کہ باپ اپنی اولاد کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہے لیکنایون فیلڈ میں والد کو جوابدہ بنایا گیا کیونکہ مقصدانتخابات جیتنا تھے۔۱۹ ستمبر کو ایون فیلڈ ریفرنس پر شریف خاندان کی اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ نے پوری سیاسی بساط ہی الٹ دی ہے۔وہ لوگ جو چور کہہ کہہ کر آسمان سر پر اٹھا رہے تھے انھیں ندامت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ عدالت میں کرپشن کا کوئی بھی ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے۔ نیب عدالت نے اگرچہ میاں محمد نواز شریف کو کرپشن کے الزامات سے بری کر دیا تھا لیکن پھر بھی ایون فیلڈ ا پارٹمنٹس کی ملکیت کے سوال پر انھیں دس سال اور ان کی بہادر سپتری کو جس کا اس مقدمہ سے کوئی ڈائرکٹ تعلق نہیں تھا انھیں سات سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی تھی ۔سزا کے ساتھ نا اہلی کا اضافی ٹھپہ بھی لگا یا گیا ۔مریم نواز کا خاوند ہونے کی جہت سے کیپٹن صفدر بھی رگڑے میں آگئے اور انھیں بھی نا اہلی کا سامنا کرنا پڑا ۔نیب عدالت کے فیصلہ پر تمام غیر جانبدار ماہرینِ قانون ، دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی کی متفقہ رائے تھی کہ یہ فیصلہ انتہائی کمزور ہے اور اسے جب بھی چیلنج کیا جائیگا اس کا بودا پن واضح ہو جائیگا۔یہ فیصلہ واقعی بودا نکلااور اسلام آباد ہائی کورٹ نے مجرموں کے خلاف سنائی گئی سزا ؤں کو معطل کرکے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔اس فیصلہ سے جہاں شریف خاندان کو ریلیف ملا ہے وہاں پر عدلیہ کی ساکھ میں بھی بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔یہ ایک اجلی سحر کا نیا ظہور ہے اﷲ کرے اسے کسی کی نظر نہ لگے۔،۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515452 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.