پاکستان کی نئی حکومت کے نئے وزیر اعظم عمران خان کی طرف
سے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور مزاکرات کی بحالی کو کوششوں ،بھارت
کی طرف سے وزرائے خارجہ ملاقات سے پہلے اتفاق ،پھر انکار اور اس کے فوری
بعد بھارتی فوج کے سربراہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف جنگی کاروائی کی دھمکی
سے یہ بات بھی ایک بار پھر واضح ہوئی ہے کہ بھارت پاکستان کو کمزور پوزیشن
میں تصور کرتے ہوئے پاکستان پر دبائو میں مزید اضافہ کرنے کی حکمت عملی
اپنا ئے ہوئے ہے۔بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے میڈیا سے گفتگو میں
کشمیر میں جاری آزادی کی مزاحمتی تحریک کے لئے پاکستان کی حمایت کو ایک
الزام قرار دیتے ہوئے پاکستان کے خلاف جنگی کاروائی کی دھمکی دی ہے۔بھارتی
جنرل نے پاکستان کے خلاف بھارتی فوج کی کاروائی کو ایک '' سرپرائز'' کے طور
پر بیان کیا جس سے پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک طرز کی کسی کاروائی یا
کسی دہشت گرد حملے کا عندیہ ملتا ہے۔بھارتی جنرل کی طرف سے پاکستان کے خلاف
جنگی کاروائی کے اس اعلان کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ '' آئی ایس پی آر'' کے ڈائریکٹر جنرل
میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے اور
جنگ اس وقت ہوتی ہے جب کوئی جنگ کے لیے تیار نہ ہو، ہم جنگ کے لیے تیار
ہیں۔فوج کے ترجمان نے کہا کہ جنگ اس وقت ہوتی ہے جب کوئی جنگ کے لیے تیار
نہ ہو، پاکستان ایٹمی قوت اور ہم جنگ کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ
بھارتی حکومت کو کرپشن کے الزامات پر تنقید کا سامنا ہے لیکن بھارتی حکومت
نے حالات کا رخ موڑنے کے لیے پاکستان دشمنی کا بیانیہ اپنایا ہے۔فوج کے
ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک بیان میں کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی
کی تحریک چل رہی ہے اور تیسری نسل ہے جو قربانیاں دے رہی ہے۔انہوں نے کہا
کہ کشمیر میں جسے عسکریت پسندی کہا جا رہا ہے وہ سیاسی تحریک ہے،انڈیا اسے
دبا نہیں پا رہا۔انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی آج بھی پیش کش ہے کہ آپ
آئیں اور ٹیبل پر بیٹھ کر بات کریں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری اورتنازعات کے خاتمے کے حوالے
سے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا دورہ لاہور تاریخ ساز اہمیت کا
حامل واقعہ تھا لیکن دونوں ملکوں کی سیاسی قیادتوں کی اس فیصلے کو کرگل
لڑائی کے بارود سے تباہ کر دیا گیا۔دونوں ملکوں میں مختلف حلقوں کی طرف سے
یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ دونوں ملکوں میں ایسے مضبوط عناصر موجود ہیں جو
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کے خلاف کام کرتے ہیں۔پاکستان
اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے اقدامات
اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ دنیا کی بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں،دنیا کی بڑی
فوجی طاقتوں کو یہ قبول نہیں ہے کہ پاکستان بھارت کے درمیان تنازعات حل اور
تعلقات دوستانہ ہو جائیں۔آج بھارت دنیا میں جنگی ہتھیاروں کا سب سے بڑا
خریدار ہے، پاکستان بھی اپنی خراب اقتصادی حالت کے باوجود ایٹمی ہتھیاروں
سمیت مہنگے جنگی ہتھیاروں کی حصول پر کام کرنے پر مجبور ہے۔کیا بھارت اور
پاکستان کو اتنی آسانی سے یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ باہمی تنازعات
پرامن طور پر حل کریں،جنوبی ایشیا کو عوامی اور اقتصادی ترقی کا گہوارہ بنا
دیں،پھر امریکہ،یورپ ،روس و دیگر کے مہنگے ترین جنگی ہتھیار اور ساز و
سامان کون خریدے گا؟امریکہ،یورپ،روس،چین و دیگر چند ممالک دنیا بھر میں
اپنی اقتصادی ترقی کے لئے اپنے راستے ہموار کر رہے ہیں اور اقتصادی راستوں
اور عالمی مارکیٹوں میں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اپنی جنگی
صلاحیتوں کو بھی حرکت میں رکھ رہے ہیں۔مسلم کہلائے جانے والے ملکوں کو خانہ
جنگی کی صورتحال میں دھکیل دیا گیا ہے جو ان کی اقتصادی طاقت کو کمزور سے
کمزور کر رہی ہے۔دنیا کی سب سے بڑی صنعت اسلحے کی ہے اور جدید سے جدید تر
اسلحے کی دوڑ جاری رکھنے میں ہی بڑے اسلحہ ساز ملکوں کا مفاد پوشیدہ ہے۔
اس معاملے کا ایک پہلو بھارت میں آئندہ سال ہونے والے الیکشن بھی ہیں۔بی جے
پی حکومت دوبارہ اقتدار میں آنے کی کوشش میں ہے ساتھ ہی اپوزیشن جماعت
کانگریس رافیل طیاروں کی خریداری میں مودی حکومت کے خلاف کرپشن کے الزامات
عائید کر رہی ہے اور اس معاملے میں مودی حکومت کمزور پوزیشن میں ہے۔یوں
مودی حکومت اپنی تمام خرابیوں کو پاکستان کے خلاف کسی کاروائی یا پاکستان
کو مزید دبائو میں لا کر اپنی فتح کے شادیانے بجانا چاہتی ہے تا کہ اس کا
فائدہ الیکشن میں سکے۔پاکستان میں اسی سال جولائی کے عام انتخابات سے چند
ہی دن قبل بھارتی انٹیلی جنس ادارے 'را' کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے
لندن میں ایک انٹرویو میں دعوی کیا تھا کہ پاکستان میں عمران خان وزیر اعظم
بن رہے ہیں اور بھارت کے آئندہ سال ہونے والے الیکشن سے پہلے دونوں ملکوں
کے درمیان بات چیت ہو گی۔
بھارت کے روئیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت مزاکرات سے پہلے پاکستان کو مجبور
کرنا چاہتا ہے کہ وہ سابق مشرف حکومت کی طرح کشمیر میں زمینی صورتحال پر
قابو پانے میں بھارت کی مدد کرے۔ جیسا کہ سابق آمر حکمران جنرل پرویز مشرف
نے آزاد کشمیر میں کشمیری فریڈم فائٹرز کے کیمپ بند کر کے اور سیز فائر
لائین(لائین آف کنٹرول) پر بھارت کو باڑ کی تعمیر کی اجازت دے کر کشمیریوں
کی جدوجہد آزادی کے خلاف بھارت کی بڑی مدد کی تھی۔مقبوضہ کشمیر میںمسلسل
فوجی اور تادیبی کاروائیوں کے باوجود کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک پر بھارت
کی پریشانی نمایاں ہے،تاہم بھارت اس پریشانی میں مزید سخت ترین کاروائیوں
کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔بھارت سے مزاکرات کے لئے بے تابی کا اظہار کمزوری
کے اعلان کے مترادف قرار پاتا ہے۔اور اسی انداز سے بھارت کی حوصلہ افزائی
ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے لاتعلق ہونے کے لئے پاکستان پر
دبائو میں اضافہ کرے۔پاکستان کے پالیسی سازوں ،حکام کو یہ بات یاد رکھنی
چاہئے کہ کشمیر پاکستان کے دفاع کا آخری مورچہ ہے، کشمیر کے محاذ پہ کمزوری
دکھانے،کمپرومائیز کرنے کی پالیسی پاکستان کے دفاع کوکمزور ہی نہیں بلکہ
کھوکھلا کر دے گی ۔اب سوال یہ ہے کہ بھارت کے ہٹ دھرمی،دھونس ،دعونت کو
دیکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کس پالیسی کو اختیار کرتے ہیں؟ کیا
پاکستان بھی بھارت کے خلاف سخت روئیہ کا اظہار کرے گا؟ کیا بھارت سے
مزاکرات کی اپیلیں کرنا جاری رکھے گا؟ یا بھارت سے مزاکرات شروع کرنے کے
لئے لچک/پسپائی کی راہ اختیار کی جائے گی؟ شاید وزیر اعظم عمران خان کے لئے
یہ بہت مشکل ہو کہ ملک میں دہشت گردوں اور بدعنوانی کے خلاف جنگوں کے جاری
رہتے ہوئے بھارت سے متعلق سخت پالیسی اپنا سکیں۔مشرف دور میں اس پہ بھرپور
کام کیا گیا کہ ایسی وجوہات کو ختم کیا جائے جن سے بھارت سے جنگ کی نوبت آ
سکے، کیا وزیر اعظم عمران خان کی حکومت بھی اسی پالیسی کو حکمت عملی کے طور
پر اپنائے گی؟
امریکہ کی طرف سے مائیک پومپیو کے دورے کے بعدپاکستان سے متعلق اچھے خیالات
کا اظہار کیا جار ہاہے اور اطلاعات کے مطابق امریکہ دہشت گردی کے خلاف
اتحادی ہونے کے 30کروڑ ڈالر جاری کرنے پر بھی غور کر رہا ہے۔آخر مائیک
پومپیو کے دورے کے بعد ایسا کیا ہوا ہے کہ جس پر امریکہ اطمینان کا اظہار
کر رہا ہے؟اس حوالے سے چند اقدامات قابل غور ہیں۔افغانستان کے دورے کے موقع
پر ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ پاکستان نے بھارت سے افغانستان کے درمیان
زمینی راستے کھولنے سے متعلق مزاکرات بحال کرنے کی بات کی ہے۔'سی پیک' سے
متعلق بعض منفی خبروں کی صورتحال میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کا
دورہ چین۔وزیر اعظم عمران خان کا سعودی عرب کا دورہ اور اس موقع پر سعودی
عرب کے قائم کردہ چند اسلامی ملکوں کی اتحادی فوج میں پاکستانی فوجی دستوں
کی شمولیت،سعودی عرب کی طرف سے گوادر میں تیل کے ایک مرکز کے قیام پر
سرمایہ کاری کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔ان تمام امور کے خد و خال پاکستان
سے متعلق امریکی اطمینان کی وجوہات واضح کرنے کے لئے کافی ہیں ۔ |