خوردو نوش کی اشیاء میں ملاوٹ

 سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات لگانے اور بعد ازاں اُسکے ثبوت ڈھونڈنے میں مہینوں صرف کرنے اور اخلاقیات کا درس دینے والوں کو معاشرہ میں جا بجا پھیلی روزمرہ کی کرپشن کیوں نظر نہیں آتی، الزامات کی زد میں آنے والے کو دنیا بھرکے میڈیا کے سامنے جواب دہ بنانے اور بغیر ثبوت سزا کا تعین کرنے والے تجزیہ کاروں کوخوردونوش اور بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء فروخت اورفراہم کرنے والوں کی کرپشن پرمسلسل پروگرام کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہوتی؟ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اقتدار میں آنے والے سیاست دان اسی معاشرہ کا حصہ ہیں ہم میں سے ہی ہیں اور ہم نے ہی اُنھیں منتخب کیا ہے میڈیا کے زریعے مخالفین کی سزا اور جزا کا تعین کرنے والوں کو جہاں دودھ ،گوشت ،آٹا ،ادویات میں کرپشن معمول کی بات نظر آتی ہو وہاں عام آدمی کے دکھ درد تکالیف کو کون سمجھے گاروزمرہ کی خوردونوش کی اشیاء میں ملاوٹ کرنے کا سب سے بڑا سبب معاشرہ میں زیادہ سے زیادہ دولت کماکر اُسکی نمائش کے زریعے معتبر اور کریم آف سوسائٹی کہلوانا ہے ہمارے ہی قریبی رشتے ،دوست احباب روزمرہ کی کرپشن کے زریعے سائیکل سے گاڑی اور کرائے کے مکانوں سے کنالوں پر محیط رہائش گاہوں کے مالک بن بیٹھے ہمارے معاشرہ میں روپے پیسے کو سلام کیا جاتا ہے منافقت کا یہ عالم ہے کہ کرپشن کے خلاف بولنے والا خود سب سے زیادہ کرپشن کرنے کا ماہرہوتا ہے کرپشن کے خلاف بولنے والا دودھ فروش خود ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کر کے سائیکل سے کار پر آگیا اور کرپشن کے خلاف بڑی بڑی باتیں کرنے کے بعد کوٹھی کے حصول کے لیے غیر معیاری دودھ کی فروخت بڑھانے پربھی غور کرتا پایا جائے گا ،چھوٹے ہوٹلوں پر غیر معیاری آٹاکی روٹی اورسالن بیچنے والا بھی کرپشن کے خلاف بولتا پایا جاتا ہے جان بچانے والی اور جنرل ادویات کے معیار کے بارے آئے روز شکایات ملنے کے باوجود فروخت کرنے اور بنانے والے گرفت سے بچے رہتے ہیں اگر اِکا دُکا پکڑے بھی جائیں تو جلد ہی باعزت بری بھی ہوجاتے ہیں بچوں کے سکولوں کے باہرہتھ ریڑھی اور کنٹین پر غیر معیاری خوردو نوش بیچنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے اور قانون کے مطابق سزا دینے کے بڑے بڑے اشتہارات اور اعلانات کے باوجود چند دن بعد سب کچھ وہیں ویسے ہی موجودنظر آتاہے ادارہ فورڈ اتھارٹی کوبنے کچھ عرصہ گزر گیا لیکن زمینی حقائق کے مطابق نہ روزمرہ خوردونوش کی اشیاء میں ملاوٹ ختم ہوئی اور نہ ہی ایساکاروبار کرنے والوں پر جوں تک رینگی ایساہوتا بھی کیسے جب کرپشن کی جڑیں دور تک پھیل چکی ہوں کرپشن کے خلاف بات کرنا اسٹیٹس سمبل بن جائے ،کیا ہزاروں روپے تنخواہیں لینے والے افسران نہیں جانتے کہ شہروں اور مضافات میں خوردونوش کی کن کن اشیاء میں ملاوٹ ہو رہی ہے بنانے والے اور فروخت کرنے والے کون ہیں؟ اِکا دُکا کاروائیاں یا نچلی سطح پر جرمانے کرنے سے ملاوٹ کا خاتمہ ناممکن ہے کیونکہ جب تک اِس قسم کی اشیاء بنانے والے بڑے بڑے افراد گرفت میں نہیں آئیں گے اُس وقت تک کچھ بہتر ہوتا نظر نہیں آئے گا ناقص گوشت کی فروخت خاص طور پر پانی والے گوشت کی فروخت عام ہے لیکن یہ افراد قانون کی گرفت میں اس لیے نہیں آسکتے کیونکہ ان کو تحفظ فراہم کرنے والے ہر دم تیار بیٹھے ہوتے ہیں ،سانچ کے قارئین کرام انتہائی افسوس اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اِن لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے والے چند افراد ایسے شعبوں سے وابستہ ہو چکے ہیں جہاں سے اِنھیں یہ سزا سے بچالے جاتے ہیں کھانے پینے کی اشیاء تیار اور فروخت کرنے والوں کی اکثریت کے ہاں صفائی کی صورتحال ناقابل بیان ہوتی ہے اکثر کھانے پینے کے ٹھیلے اور مزدوروں کے لئے بنائے گئے ہوٹل گندے نالوں پریا سڑکوں کے کنارے بنائے جاتے ہیں جلیبیاں ،نمک پارے ،میٹھا بدانہ،سموسے ،پکوڑے ، پھونیاں بیچنے والوں کی اکثریت کے ٹھیلے سڑک کے کنارے لگائے جاتے ہیں اوردوکانوں کے کاؤنٹر بھی آگے سے گزرنے والے گندے پانی کے نالوں ،کھالوں پر موجود ہوتے ہیں اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ تما م اشیاء گردو غبار سے بچانے کے لئے ڈھانپی ہی نہیں جاتیں جب اس سلسلہ میں راقم نے چند دوکانداروں سے گفتگو کی تو اُن کا کہنا تھا کہ اگر ہم یہ اشیاء ڈھانپ دیں تو خریدار کم آتے ہیں جلیبیاں ، سموسے ،پکوڑے ،پھونیاں جب تک تھالوں میں کھلے نظر نہ آئیں اُس وقت تک خریدار متوجہ نہیں ہوتایہ ہی بات جا بجا سڑک کے کنارے لگے پھٹوں پر گوشت بیچتے قصائیوں کی کہنا تھی کہ اگر گوشت کو اندردوکان میں لٹکائیں تو گاہک گوشت کو تازہ نہیں سمجھتا سانچ کے قارئین کرام :جس معاشرہ میں ایسی سوچ پختہ ہو چکی ہو وہاں کوئی فوڈ اتھارٹی چاہے کتنی بھی سزا اور جرمانہ عائد کر د ے روزی روٹی کمانے کے لئے بیٹھا شخص مجبوراََ وہ ہی کچھ کرے گا جسکی مانگ یا مطالبہ ہو گا یہاں پر یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ دین اسلام میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے کیا ہم ناقص ،گردوغبار سے اَٹی خوردو نوش کی اشیاء کو باہر لٹکتا دیکھ کر معیاری اور تازہ کہہ سکتے ہیں ؟ہمیں خود کو بدلنا ہے تاکہ روزمرہ کی کرپشن سے پاک معاشرہ وجود میں آسکے٭ 

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 133596 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.