کسی زمانے میں ایک مراثی کے بیٹے کو حکومتی عہدے پربٹھا
دیا گیا تو اس میراثی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ مجھے اختیارات حاصل ہوئے
ہیں چونکہ عہدہ سنھبالنے کے بعد اسے ملنے ملانے اور مبارکباددینے کوئی نہیں
آیا قوم اپنے اپنے کام میں مگن اور مصروف رہی ، میراثی کی خواہش تھی کہ جب
وہ کرسی پر بیٹھا ہوتو سامنے عوام کی ایک بڑی تعداد جی حضور ! جی حضور !
کرتی نظر آئے لیکن ایسا نہ ہو سکا جس پر میراثی نے اپنی کابینہ کا اجلاس
بلایا اور ان کے سامنے صورتحال رکھی کہ اتنے دنوں سے ہم دفتر میں بیٹھے ہیں
لیکن عوام ہمارے پاس نہیں آرہی اس پر فوری تجاویز دی جائیں تاکہ دن بھر
ہمارا دفتر آباد رہے لوگ اپنے مسائل لے کر ہمارے سامنے کھڑے ہوکر جی حضور !
جی حضور ! کرتے نظر آئیں ، خوشامدی کرتے ہوئے ایک صاحب نے تجویز دیتے ہوئے
کہا کہ اگر لوگوں پر ٹیکس لگایا جائے تو شاید عوام کو مشکلات درپیش آئیں
اور وہ ہمارے پاس ٹیکسوں کے خلاف شکایات لے کر ہمارے پاس آئیں جس پر ہم ان
کے مسائل حل کرنے کا اعلان کرکے انہیں خوش کریں گے ، ہفتے دو ہفتے گزر گئے
سرکاری خزانے میں ٹیکس کی رقم جمع ہونا شروع ہو گی لیکن میراثی کے پاس کوئی
بندہ بھی شکایت لے کر نہیں گیا ، ایک مرتبہ پھر حکومت نے اجلاس بلایا اور
ساری صورتحال کابینہ کے سامنے رکھی کہ ایک مہینے سے ہم کرسی پر بیٹھے ہیں
اور عوام ہمارے پاس آہی نہیں رہی ٹیکس لگایا گیا پھر بھی کوئی اثر نہیں ہوا
، حکومتی خزانے میں رقم تو جمع ہو رہی ہے لیکن عوام کو اپنے سامنے ہر صورت
لانے کی تجاویز پیش کی جائیں ، ایک وزیر صاحب پھر کھڑے ہوئے انہوں نے اپنی
تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ جناب شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس
کو کھڑا کیا جائے جو ہر آنے اور جانے والے کو ایک ایک جوتا بھی مارنا شروع
کرے شاید اس سے عوام تنگ آکر ہمارے دربار میں حاضر ہو ، تجویز سنتے ہی فوری
طور اس کا نوٹیفکیشن جوتے مار کامراسلہ پولیس کے نام جاری کر دیا گیا دوسرے
ن سے ہی عمل درآمد کرتے ہوئے شہر میں آنے اور جانے والوں کو جوتے مارنے کا
آغاز ہو گیا ایک ہفتہ گزرا تھا کہ عوام کا ایک جلوس صاحب جی کے دفتر پہنچ
گیا ، صاحب خوش ہوئے کہ وزیر کی معقول تدبیر سے آج عوام تنگ آ کر شکایت
کرنے ہمارے پاس آپہنچی ، دفتر آئے لوگوں سے صاحب نے حال و احوال پوچھا کیسے
آنا ہوا ؟ خیریت ہے کوئی پریشانی ؟ ہمارے لائق کوئی حکم ہو ہم آپ کے خادم
حاضر ہیں ، عوام ہاتھ باندھے جی حضور ! آپ کے آنے سے تبدیلی ہو گئی ہے سب
کچھ نیا بن چکا ہے ، آپ کے ہوتے ہوئے عوام کو کیا پریشانی ہو سکتی ہے ؟ صرف
چھوٹی سی ایک گزارش کرنی تھی ہمیں ایک پریشانی ہے کہ شہر کے داخلی اور
خارجی راستوں پر جوتے مارنے والا ایک پولیس اہلکار ہے جس کی وجہ سے لائن
بہت لمبی ہو جاتی ہے ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ وہاں انتظار کر سکیں
مہربانی فرما کر جوتے مارنے والے پولیس اہلکاروں میں اضافہ کر دیں آپ کو
قوم ہمیشہ یاد رکھے گی ، یہ واقعہ کچھ عرصہ قبل میں نے پڑھا اور موجودہ
حالات اور نئے پاکستان کے ساتھ اس کی مماثلت محض اتفاقی ہے ، گزشتہ ماہ 12
اگست کو جب حج کے سفر پر روانہ ہوا تھا اس وقت تک یہی آواز ہر طرف سے قوم
خوشی سے نڈھال ہو رہی تھی کہ نیا پاکستان بننے والا ہے ، ہر طرف تبدیلی نظر
آئے اور عوام کو بجلی ، پٹرول ، گیس سمیت ہر چیز سستی ترین تقریبا مفت میں
ہی ملے گی ، بیرون ملک اورسیز بھی نئی حکومت کے قیام اور تبدیلی کے نعرے سے
زیادہ ہی خوش دکھائی دے رہے تھے کہ اب نئے پاکستان میں اپنے گھر تحائف
وغیرہ بھیجنے میں بھی آسانی ہو گی چونکہ نئی حکومت کے قیام سے قبل تبدیلی
کے نام کا جو خوشنما نعرہ لگایا تھا قوم اس نعرے پر ناچ رہی تھی ، ایک ہفتہ
قبل جب حج سے نئے پاکستان میں واپسی ہوئی تو نہ صرف تبدیلی بلکہ اوپر والی
ساری حکایت حرف بحرف سچ دکھائی دیتی نظر آئی،حج کی ادائیگی کے بعد گزشتہ
ہفتے11ستمبر کومدینہ منورہ سے 20 کلو کجھور سعودی پوسٹ آفس سے ڈڈیال کے لیے
کارگو کرواء جس کا کرایہ خرچ 180ریال ایڈوانس جمع کرا دیا تھا 21ستمبر کو
پارسل ڈڈیال پوسٹ آفس پہنچا تو مجھے پوسٹ آفس کی جانب سے کال موصول ہوئی کہ
آپ کا ایک پارسل ہمارے پاس آیا ہے اور اس کی وصولی کے لئے 8617 روپے ادا
کرنے پڑیں گے ۔ بڑا تعجب اور حیران ہوا کہ میں نے سعودیہ میں کرایہ اور
ٹیکس تقریبا 6000روپے ادا کردیا ہے اب کون سے بقایا جات ہیں ؟ پہلے اپنے
چھوٹے بھائی طیب کو پوسٹ آفس بھیجا تو اسے یہی کہا گیا کہ اسلام آباد پوسٹ
آفس سے رسید بھیجی گئی ہے پھر میں خود ڈڈیال پوسٹ آفس گیا اور پوسٹ ماسٹر
سے ملاقات کی ساتھ ہی رسید وصول کی ۔ جس پر مختلف قسم کے ٹیکس لگائے گئے
ہیں حیرانگی اس بات پر ہورہی ہے کہ حاجیوں کے پاس تحفے کے طور پر دو ہی
چیزیں حرمین شریفین سے ہوتی ہیں ایک زمزم شریف اور دوسرا مدینہ منورہ کی
کھجور ۔اس پر بھی سیل ٹیکس کے نام پر لوٹ مار شروع کی جارہی ہے یہ ظلم نہیں
تو کیا ہے ؟؟ ٹیکسوں کے نام پرپاکستان پوسٹ آفس اور ایف بی آر نے نئے
پاکستان میں ڈھٹائی کے ساتھ لوٹ مار شروع کر دی ہے ۔ سابقہ دور حکومت میں
20 کلو کجھور پر صرف 150روپے مقامی ڈاکخانے والے پارسل کا لیتے تھے،بقول
پوسٹ آفس اہلکاروں کے اس سے قبل یہ ٹیکس نہیں تھا،گزشستہ روز ا سی سلسلے
میں اپنے صحافی دوست چوہدری شفیق کے ہمراہ پہلے آزاد کشمیر ریجن پوسٹ آفس
کو ڈیل کرنے والے پوسٹ ماسٹر لائک زمان سے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں
ملاقات کی اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا اورظالمانہ ٹیکس والی رسیدیں
انہیں دکھائی گئی تو وہاں موجود سب لوگوں نے حیرانگی کا اظہار کیا کہ اتنا
ٹیکس حاجی صاحبان کی 20 کلو کھجور پر ہمارے علم میں نہیں البتہ یہ معاملہ
راولپنڈی جی پی او کا ہے آپ وہاں چلے جائیں اورڈپٹی پوسٹ ماسٹر ارشد خان سے
ملاقات کریں وہاں ہی کسٹم حکام کے لوگ بھی بیٹھتے ہیں جب ہم کسٹم آفس صدر
پہنچے تو وہاں دیگر حاجی صاحبان اور ان کے عزیز و اقارب بھی ذلیل و خوار ہو
رہے ہیں، کہیں کوئی شنوائی والی بات نہیں بس جس کا جتنا اختیار چلتا ہے وہ
عوام کی کھال اتارنے میں مصروف عمل ہے ۔ ایک پارسل پر نصف درجن کے ٹیکس
مختلف نام سے کسٹم ڈیوٹی ،سیل ٹیکس ، ود ہولڈنگ ٹیکس ،پیکنگ چارچز سمیت
ہزاروں روپے وصول کیے جارہے ہیں، 10 کلو کجھور پر 4800 روپے 20 کلو پر 8617
روپے ، 40 کلو پر 17000 روپے ٹیکس کے نام لوٹنا ظلم نہیں تو کیا ہے ؟ اگر
اسی طرح کی تبدیلی لانی تھی تو ایسی تبدیلی پر ہزار بار لعنت بھیجی جا سکتی
ہے جو حاجیوں کو بھی لوٹنے میں مصروف ہے ، ظلم کی انتہا یہ ہے کہ گھر میں
زاتی استعمال اور حاجیوں کی جانب سے تحائف کے لیے عزیز واقارب کے لیے لائی
گئی 20 کھجور والے کاٹن پر تقریبا 3000 روپے سیلز ٹیکس اور 2000 کے قریب
ودہولڈنگ ٹیکس شامل ہیں ، ہماری تو بیرون ملک بالخصوص حج وعمرہ پر جانے
والے احباب سے استدعا ہے کہ سعودی پوسٹ آفس سے پاکستان کوئی سامان کارگو ہر
گز نہ کریں عام کارگو سے سامان گھر پہنچ بھی جاتا ہے اور اضافی کوئی ٹیکس
بھی نہیں ، نیے پاکستان میں ڈاک خانے کے زریعے کھجور یا پارسل وصولی پر
ٹیکس کے نام پر لوٹ مار ہورہی ہے ۔ اتنے کا سامان نہیں جتنا اضافی چارچز
اور کسٹم کے نام پر نئے پاکستان میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے ،
موجودہ حکومت نے اقتدار سنھبالتے ہی مہنگائی کا جو بوجھ عوام پر ڈالا،جس کے
بعد عوام چیخ مارنے کے بھی قابل نہیں رہی کیا مجال ہے کوئی شور شرابا یا اس
ظلم کے خلاف احتجاج بلند ہو ، گیس ، بجلی ، پٹرول سمیت اشیائے خورد و نوش
کو بھی مہنگا کیا گیا عوام نے برداشت کر لیا کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں
ہوئی ، آج ایک اور نیا نوٹیفکیشن نظر سے گزرا جس میں موٹرسائیکل سوار سے کم
از کم چالان 2000 اور گاڑی والے سے 10000 ہزار روپے کی تجویز سامنے آئی ہے
اس پر بھی اگر قوم خاموش ہی رہتی ہے تو پھر حکومت کو حقیقی تبدیلی کا
مثظاہرہ کرتے ہوئے جوتے مارنے والی پالیسی بھی شروع کر دینی چاہیے ،
|