مسائل حل کئے بغیر بہتری ممکن نہیں !

مؤرخ لکھ رہا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہو رہا ہے کہ قانون شکن طاقتور عناصر قانون کے آہنی پنجے میں پھنستے چلے جا رہے ہیں ۔ محافظ اور قاضی پر عزم ہیں کہ اب کے عدل کی نئی تاریخ رقم ہوگی اور ناخداؤں کو خود ساختہ خداؤں سے نجات دلاکر ثابت کر دیا جائے گا کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف اﷲ عزَّوَجل ّہے ! اور پھر عوام کو ہر طرح سے یقین دِلا کر سابقہ حکمرانوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا اور کہاگیا:’’ادھر ادھر کی نہ بات کر! یہ بتا !قافلہ کیوں لٹا ؟۔۔ مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں ،تیری راہبری کا سوال ہے ‘‘۔پھرملک و قوم کا مجرم قرار دیکر سزائیں سنا دی گئیں اور حلیفوں کو بھی قانونی گرفت میں جکڑ لیا گیا تو عوام بھی جھوم اٹھے کہ آج قانون سب کے لیے برابر ہو گیا چونکہ اندھیر نگری چوپٹ راجا ‘‘کے مصداق نا انصافی عروج پر تھی کہ حکمران اور درباری بھلا چکے تھے کہ ’’سدا رہے نام خدا کا‘‘ بدیں وجہ ہر کس و ناکس کہہ اٹھاکہ :
خبر آگئی، راج دھاری گئے ۔۔۔۔تماشا دکھا کے، مداری گئے
شہنشہ گیا ، نورتن بھی گئے ۔۔۔مصاحب اٹھے ، ہم سخن بھی گئے

مگر زمینی حقائق کہاں بدلتے ہیں کہ غریب شہر کے مقدر کب سنورتے ہیں ؟ ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا :’’پرانی باتیں ہیں ، اخبار سب پرانے ہیں ۔۔پرانے چہرے ہیں اور کرسیاں پرانی ہیں ‘‘!اور وقت نے ثابت کردیا کہ ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ۔۔ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا ‘‘ محب وطن پاکستانی سکتے میں آگئے کہ کہیں تبدیلی کے نام پر پھر کوئی واردات تو نہیں ہو گئی؟عوام پہلے تو حیران تھے کہ شاہی پروٹوکول اگر قیدیوں کیلئے ہے تو درحقیقت مجرم کون ہے؟ اور اب پریشان ہیں کہ کیا اعلیٰ عدلیہ سے ڈکلئیرڈملک و قوم کے مجرمان کو اب ایسے رہائی مل سکتی ہے ؟ کیا قیدی شاہانہ انداز میں جیلر کے کمرے میں بیٹھ سکتے ہیں ؟ کیا مہذب ملکوں میں عوامی پیسہ لوٹنے والوں کو یو نہی ہار پہنائے جاتے ہیں اور گل پاشی کی جاتی ہے ؟ اگر ایک عام آدمی قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرے تو کیا اس پر مقتدر حلقے اتنے مہربان ہوسکتے ہیں ؟اسلام آباد ہائی کورٹ کے بار بار اتفساراور ہدایات کے باوجود نیب کے پراسیکیوٹرز نے ثبوت کیوں فراہم نہیں کئے ؟اگرچہ نیب کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن عارضی خوشیوں کے بغل بجا رہی ہے مگر میاں نواز شریف کی سزا معطلی پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے ۔کوئی اسے نیب کی ناکامی قرار دے رہا ہے تو کوئی مقبول عوامی قیادت کو مقدمات اور قانونی موشگافیوں سے غیر مقبول کرنے کی ناکام سازش۔۔ واقعتاً یہ ایک اہم بات ہے کہ ایک مقدمہ اڑھائی سال زیر بحث رہا ، پانامہ لیکس ، ڈان لیکس اور ایون فیلڈ ایسی لیکس عالمی میڈیا میں بھی شہ سرخیاں بنی رہیں مگر ایک معمولی مقدمے کی طرح غیر متوقع فیصلہ کر دیا گیا ۔۔سادہ لوح عوام کے سامنے تو ’’بکرے ‘‘کو’’ کتا‘‘ بنا کر پیش کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے مگر دنیا کے ذی شعور ذمہ داران سب دیکھ رہے ہیں اور ہمارے سیاسی منظر نامے پر مضحکہ خیز تبصرے کر رہے ہیں ۔

آج سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف کا بیانیہ درست تھا ؟ اگر بیانیہ درست تھا تو وزیراعظم عمران خا ن کی سیاست اور بہتوں پر سوالیہ نشان ہے اور اگر بیانیہ غلط تھا تو ’’بہتوں ‘‘ پر انگلیاں اٹھیں گی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے سیاہ باب کے اضافے کو کوئی نہیں روک سکے گا ۔ جو مقدمہ اڑھائی سال زیر سماعت رہا اور عوام الناس کے دل و دماغ پر ہتھوڑے برساتا رہا اور عدلیہ نے کئی مقدمات کوپس پشت ڈال کر اس کو اولیت دی اسے ایک بار پھر معزز جج صاحب نے مقدمہ بازی بنا کر مزید طوالت کا باعث بنا دیا ہے۔اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس مقدمہ بازی میں قومی مفاد میں کونسا فیصلہ مناسب اور کونسا نا مناسب ہے ۔ان سوالوں کی گتھیاں جانے کب سلجھیں گی مگر ’’آواز خلق نقارہ خدا ‘‘ اور رائے عامہ کی تاب لانا بہت مشکل ہوگا بریں وجہ سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں اور عوامی حلقوں میں موجود حب الوطنی کے جذبے سے سرشار افراد نے موجودہ سیاسی منظر نامے کو تاریخ کے آئینے میں پرکھا تو فواد چوہدری میدان میں آگئے اور کہا ’’نہ ڈیل ہوگی اور نہ ہی ڈھیل ہوگی بلکہ میاں صاحب کو وہیں پہنچایا جائے گا جہاں سے آئے ہیں ‘‘ فواد چوہدری بھی کمال کے سیاستدان ہیں ،ہر سیاسی جماعت میں رہ چکے ہیں اور سیاسی ہتھکنڈوں اور شعبدہ بازیوں سے ابھی تک نا واقف ہیں ،جذباتی ہو کرباتیں بناتے ہیں مگر اپنی ہی باتوں میں پھنس جاتے ہیں اور وضاحتیں دیتے رہتے ہیں ۔امید ہے کہ اس مرتبہ حکومت دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے عدل و انصاف کی فراہمی کو ہر سطح پر یقینی بنائے گی تاکہ عوامی اعتماد بحال ہو اور تبدیلی کا دعوی سچ ہو ۔

یہ طے ہے کہ ہر سطح پر دوراندیشی پر مبنی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے ۔عالمی اور ملکی سطح پر عجلت میں دئیے گئے بیانات سبکی کے سوا کچھ نہیں دیں گے جیسا کہ پہلے ہو چکا ہے ۔ اور ایک خاص بات کہ خارجہ پالیسی دو شخصیات کے مابین نہیں بلکہ دو ممالک کے درمیان ہوتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے روزانہ تبصرہ کیا جاتا ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ سب کے تعلقات اچھے تھے تو عرض ہے کہ میاں صاحب نے خارجہ پالیسی کو اپنے گھر تک محدود رکھا ہوا تھا اور اس خارجہ پالیسی سے ملک و قوم کو کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کہ قرضوں اور گھپلوں کی گونج ہر جگہ سنی جا سکتی ہے اور جو کل بھی ازلی دشمن تھے وہ آج بھی ہیں البتہ جو دوست تھے وہ ’’برکس اعلامیہ‘‘ میں شریک تھے اور انھوں نے دستخط بھی کئے تھے کہ جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جبکہ پہلے وہ ہمیشہ پاکستان کے شانہ بشانہ نظر آتے تھے تو کہنا پڑے گا کہ پاکستان کی خارجہ پایسی ہمیشہ سے کمزور ہاتھوں میں رہی ہے کہ پاکستان اپنے مسائل عالمی سطح پر بروقت اٹھا نہیں سکا اور نہ ہی دہشت گردی کے الزام پر اپنی پوزیشن واضح کر سکا ہے جبکہ ایسے ثبوت موجود ہیں جن کے مطابق بھارت ہمیشہ پاکستان اور کشمیر میں دہشت گردی کا مرتکب ثابت چلا آرہا ہے۔

ہماری انہی مصلحتوں اور نظیروں کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کے بعد اب بھارت نے بھی اپنی گھٹیا ذہنیت دکھاتے ہوئے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے اور مزید یہ کہ پاکستان کو جنگ کی دھمکی دے دی ہے۔ بھارت ایک بار پھریہ بھول گیا کہ اس کا مقابلہ مسندوں پر بیٹھے ہوئے ان سیاستدانوں سے نہیں کہ جو ہوس اقتدار میں اپنے ہی وطن کے وسیع ترین مفادات کو داؤ پر لگاتے اور ہر کسی کے خلاف زہر اگلتے ہیں بلکہ اس کا مقابلہ ان جری و بہادر فوجی جوانوں سے ہوگا کہ جو وطن عزیز کی حفاظت کے لیے سینوں پر بم باندھ کر دشمنوں کی صفوں میں گھس جانے والے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ وہی بہادر سپوت ہیں کہ جنھوں نے بھارت کی ہربزدلانہ کوشش پراسے دھول چٹائی اور پسپائی پر مجبور کر دیا کیونکہ ان کا نعرہ ہے کہ:
اے وطن تو نے پکارا تو۔۔۔ لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت ہمارا بد ترین دشمن ہے اور جب بھی تصفیہ طلب معاملات پر بات کی گئی تو بھارت نے جاہلانہ اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا ہے ۔بھارت کی گیدڑ بھبھکیاں پرانی ہیں مگر اب کے مکاریاں سیاسی ہیں کیونکہ نریندر مودی کو دوبارہ اقتدار حاصل کرنا ہے مگر اس نے بھارت میں کوئی ایسا قابل قدر کام نہیں کیا جس کے بل بوتے پر اسے دوبارہ ووٹ مل سکیں گے ۔البتہ ’’کرپشن‘‘ ضرور کی ہے اور تحقیقات کا آغاز بھی ہو چکا ہے ۔پہلے بھی مودی کی جیت انتہا پسند ہندوؤں کی بدولت ہوئی تھی ۔سبھی جانتے ہیں کہ مودی نے ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اور پھر اپنے طرز حکومت سے ثابت کیا کہ بھارت ایک سیکولر نہیں ہندو ریاست ہے اوراب صورتحال یہ ہے کہ مودی کی حیوانیت سے بھارتی اور کشمیری دونوں تنگ آچکے ہیں ۔ایسے میں مودی کو ماضی کی مصروفیت صاف نظر آرہی ہے تو فوج کی مدد سے انتہا پسندوں کو یہ باور کروا رہا ہے کہ وہ اسلام اور پاکستان دشمنی میں ہر حد پار کرنے کو تیار ہے لہذا اس کا ساتھ دیا جائے ۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقت ہیں اور بھارت جانتا ہے کہ پاکستان سے جنگ بہر صورت اس کے لیے مہلک اور نا قابل برداشت ہے لیکن ایک بات یاد رہے کہ ہمارے بعض نا عاقبت اندیش حکمرانوں اور ان کے حلیفوں نے وطن عزیز کے بارے چند ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رکھے ہیں جو عالمی سطح پر زیر بحث ہیں ایسے میں یہ گیدڑ بھبھکیاں اور کسی دیگرکی ایما ء پر بھی ہو سکتی ہیں یا ممکن ہے کہ عالمی طاقتوں کی ہم رائے بنانے کیلئے کھیلا گیا ڈرامہ ہو اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بھارت کی مکاریوں اورہرزہ سرائیوں کی تاریخ رقم ہے اور جب مودی سرکار نے اقتدار سنبھالا تھا تو سب نے لکھ دیا تھا کہ’’ مودی خطے کے لیے خطرہ ہے ‘‘کیونکہ مودی نادانی اور من مانی سے امریکہ کی عیاری سے گمراہ ہوکر خطے پر تسلط کے خواب دیکھ رہا تھا اسی لیے اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا دوستانہ مناسب نہیں مگر ماضی کے حکمرانوں نے اپنے کاروباروں اور مفادات کیوجہ سے اس یارانے کو خوب پروان چڑھایا مگر ہندو بنئے نے ہمیشہ اپنی اوقات دکھا ئی بھارت ایک بار پھر بھول گیاہے کہ اس نے کس کو للکارا ہے ایسی افواج کو جو جہادی ہیں اور ایسی قوم کو جو خطۂ پاک کے لیے سیسہ پلائی دیوار ہے اور جن کے سینوں میں قرآن اور لبوں پر اﷲ اکبر ہے ۔ پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی سب سے بہترین اور بہادر افواج ہیں اور قوم کا بچہ بچہ نڈر اور بے باک سپاہی ہے ۔یہ وہ قوم ہے جو کشتیاں جلا کر سفاک اور عیار دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اﷲ کی مدد سے دشمن کا نام و نشان مٹا سکتے ہیں ۔ ہم امن کے خواہاں ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہیں مگر مسائل کا حل کئے بغیر بہتری ممکن نہیں !

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 103020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.