ٹیکنالوجی اور آج کے بچے

بچے کا پلے گروپ میں پہلا دن تھا۔ گھر واپس آیا تو ماں نے بڑے لاڈ اور پیار بھرے لہجے میں پوچھا کہ شہزادے ، سکول میں پہلا دن کیسے گزرا ؟ ’’ انتہائی بوریت کا دن تھا ‘‘ ۔ بچے نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا ۔ ’’ سکول میں وائی فائی کا کنکشن بھی ٹھیک کام نہیں کر رہا تھا ‘‘۔ یہ ہیں آج کل کے بچے، جن کی پرورش و تربیت گھروں میں کمپیوٹر ، موبائل فون ، ٹیبلٹ اور دیگر برقی آلات کے ساتھ ہورہی ہے۔ جب ان بچوں کو سکول کی فضا میں چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ وہاں اپنے مَن چاہے کا سماں تلاش کرتے ہیں۔ وہ پڑھائی میں دل لگانے کی بجائے سکول میں ایسے دوست تلاش کرتے ہیں جن کے شوق اور مشاغل اس سے مطابقت رکھتے ہوں۔ جوں جوں وہ پلتے بڑھتے ہیں ،ان کا حلقہ احباب بھی اسی دائرہ کار میں وسعت پکڑتا جاتا ہے ۔ پس وہ جو گھر کا ماحول اپنے ساتھ سکول لاتے ہیں اُسی کو سکول میں نہ صرف تلاش کرتے ہیں بلکہ اُسی کو پختہ کئے جاتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچے کی اولین درس گاہ ہوتی ہے لہٰذا یہیں سے اُس کی تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے، یعنی یہیں سے مستقبل کی عمارت کی بنیاد پر کام شروع ہوجاتا ہے۔ پس جو میٹریل استعمال ہو گا ، عمارت اُسی پر استادہ و استوار ہوگی۔ عمارت کی پائیداری و مضبوطی یا نا پائیداری و خستہ حالی کی ساری ذمہ داری ابتدائی معماروں ( ماں و باپ ) پر عائد ہوتی ہے۔ ذرا اپنے گرد وپیش میں دیکھیں تو معلوم ہو تا ہے کہ ہماری آئندہ آنے والے نسلوں کی بنیادیں کیسے رکھی جارہی ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ اسّی کی دہائی میں والدین بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ سے چپ کرواتے تھے، نوے کی دہائی میں ڈانٹ ڈپٹ کی جگہ ٹافیوں اور چاکلیٹ نے لے لی اور اکیسویں صدی کی دہائیوں میں الیکٹرانکس آلات کی بھر مار سے مدد طلب کی گئی۔ بچہ رونا شروع کرے تو والدین کے پاس فرصت کے اتنے لمحے نہیں کہ وہ رونے کے اسباب جانیں، جھٹ سے بچے کو موبائل فون تھما دیتے ہیں۔ ابھی بچہ سکول جانے کے قابل نہیں ہوتا کہ اُس کو موبائل فون آن کرنا ، اس پر کارٹون دیکھنا ، ویڈیو گیم کھیلنا اور حتیٰ کہ انٹرنیٹ کنکشن اور بلیو ٹوتھ وغیرہ سب کے استعمال کے متعلق جانتا ہے۔ اور تو چھوڑیں ، وہ مہارتوں میں والدین سے آگے نکل چکے ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں موبائل فون سے کچھ غیر ضروری پروگرام اَن انسٹال کئے۔ بعض کے شارٹ کٹ سکرین پر رہ گئے۔ اُن کو ختم کرنے کی کافی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ملی۔ اپنے ایک ایکسپرٹ دوست سے مدد مانگی لیکن وہ بھی ناکام رہا۔ گھر آیا تو بچے سے شارٹ کٹ ختم کرنے کا پوچھ بیٹھا، اُس نے سیکنڈوں میں مذکورہ پروگراموں کے شارٹ کٹ ختم کر دیئے۔

بد قسمتی سے موجودہ دور میں والدین نے بچوں کی پرورش اور اُن کی تربیت سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں۔ یہ ذمہ داریاں ٹیکنالوجی اور برقی آلات کے سپرد کردی ہیں۔ حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے مثبت اور منفی دونوں اثرات برابر موجود ہیں۔ بچوں کو ہوم ورک کے لئے بیٹھاؤ تو کارٹون پر نظریں جما کر کہتے ہیں کہ صرف چند منٹ تو دیکھنے دیں۔ باہر کسی کام کے لئے بھیجو تو موبائل فون پر گیم ۔۔۔گھر آؤ تو بچوں کی لڑائی۔۔۔ معلوم ہوا تو لڑائی کا سبب یہی برقی آلات۔کسی دوست سے اس کے بچوں کے متعلق دریافت کریں تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم تو بچوں کو باہر گلی وغیرہ میں کھیلنے نہیں دیتے ہیں۔ گھر میں کیبل ، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی سہولیات موجود ہیں ، اُن سے گھر میں کھیلتے رہتے ہیں۔ ہم نے خود بچوں کو ٹیکنالوجی کے نام پر ایسی دلدل میں ڈال دیا ہے جہاں سے نکلنا ناممکنات میں شامل ہے۔ ابتداء میں چھوٹے موٹے گیم اور کارٹون ، ذرا بڑے ہوئے تو آن لائن گیموں اور گانے بجانے سے اپنے شوق پورا کرتے رہتے ہیں۔ ماں باپ مطمئن کہ بچہ گھر ہی میں کھیلتا ہے۔ ان تمام حقائق اور ان سے جنم لینے والے خطرات کے پیش نظر آج کل کے والدین پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ بچوں کو جدید ٹیکنالوجی کا عادی نہ بنائیں کیوں کہ ٹیکنالوجی کے مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ منفی اثرات یکساں موجود ہوتے ہیں اور ایسا نہ ہو کہ بچے انجانے میں کمپیوٹر گیموں ، کارٹونوں اور فلموں سے تشدد ، جرائم ، غیر مہذب زبان ، چوریاں اور ہتھیاروں کا استعمال وغیرہ نہ سیکھ جائیں۔

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.