رب کائنات کا فرمان مبارک ہے ’’ بے شک انسان گھاٹے
میں ہے ‘‘آیت نمبر 2سورۃ العصر،اس دنیا میں یہ شان و شوکت ،دولت و جاگیر یں
سب فریب ہے اس میں خود کو تباہ نہ کیجئے ،آپ اس بات پر غور کریں کہ آپ چار
دن منظر سے غائب ہو کر دیکھیں لوگ آپ کا نام تک بھول جائیں گے،انسان ساری
زندگی اس فریب میں گزار دیتا ہے کہ وہ دوسروں کیلئے اہم ہے لیکن حقیقت یہ
ہے کہ ہمارے ہونے نا ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہا ں تک کہ مر
جانے سے بھی کسی کی زندگی پر کوئی فرق نہیں آئے گا یہی لوگ ریسٹ ان پیس اور
فیلنگ سیڈ یا برون کا سٹیٹس دے کر اپنی اپنی زندگی کی رعنائیوں میں گم ہو
جائیں گے ،یہا ں لوگ کئی قسم کے وعدے کرتے ہیں اور اپنا مطلب نکال کر وعدے
بھول جا تے ہیں ہم اس وقت بے سمجھی میں بے مقصد وعدے کرتے ہیں جب ہم کہی
جذباتی ہوتے ہیں اس وقت ہمیں وعدے کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا جب ہم کسی
جذبات متلاہوتے ہیں ذرا غور کیجئے کہ وعدے کی اہمیت کیا ہے، قرآن مجید کی
سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 15میں اﷲ رب اعزت فرماتے ہیں ’’اﷲ سے عہد کرنے کی
باز پرس ہوگی ‘‘یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کسی سے کوئی وعدہ کر کے اپنے وعدے سے
مکر جاتے ہیں وعدہ نہیں نبھاتے تو آپ کا شمار منکروں میں ہوتا۔ وعدے کے
متعلق حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جو وعدہ وفا نہیں کرتا
وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘کتنا واضح اور شفاف بتا دیا گیا ہے کہ وعدہے کی
کتنی اہمیت ہے اور وعدہ خلافی کے نتیجہ میں ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا ’’وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘ارے نادان دنیا والوں ۔۔ ذرا غور
کرو اگر ہم وعدہ وفا نہیں کرتے تو پھر اس پیاری ہستی سے تعلق قائم رکھنے سے
بھی قاصر ہیں پھر غور کیجئے ’’وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘ اﷲ اﷲ ۔۔۔ ’’وہ ہم
میں سے نہیں ہے ‘‘
ہمارے پیار محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ پاک کے پیارے محبوب سے جہل منگرلوگ
وعدہ کرتے تھے کہ آپ فلاں کام کر کے دیکھائے تو ہم آپ پر پھر یقین کریں گے
اور دین اسلام پر ایمان لائے گے جب ان کا کہا کام ہو جاتا تھا تو اپنے وعدے
سے مکر جاتے تھے اور آج بھی جو اپنے وعدے سے مکر جاتے ہیں ان کا شمار آخرت
میں منکروں میں ہی ہو گا یہ وہ تلخ خقیقت ہے جسے ہم جانتے بوجھتے نظر انداز
کرتے ہیں۔آؤ لوگوں ابھی بھی وقت ہے اﷲ پاک کے حضور توبہ کا دروازہ کھولا ہے
توبہ کر لواور اپنی زندگی کو اﷲ پاک کے راستے میں وقف کیجئے کیونکہ اسلام
کے اسول سنہری اور لازوال ہیں جب تک ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں کو اپنا
نصب العین نہیں بناتے تب تک ہم دین کے ہیں نہ دنیا ہے اور آخرت جو ایک ایک
اٹل حقیقت ہے وہاں بھی ہمارا ٹھکانہ جہنم کے سوا کیا ہو سکتا ہے رب کائنات
سورۃ النصر کی آیت نمبر تین میں فرماتے ہیں ’’اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح
کیجئے اور اس سے معافی مانگئے بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے‘‘یعنی
اپنے خالق کی حمد بیان کریں اس سے معافی کی درخواست کریں کیونکہ رب کائنات
توبہ قبول کرنے والا ہے اﷲ پاک کیلئے خود کو جہالت سے نکال کر حق اور سچ کی
طرف لوٹ آیئے یہ دنیا ایک فریب ہے اس میں خود کو تباہ نہ کیجئے ،سورۃ لقمان
میں اﷲ تعالی فرماتے ہیں ’’پھر دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے ‘‘
آیت نمبر 33،سبحان اﷲ ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ دنیا کی جو عارضی زندگی ہے یہ
ہمیں دھوکے میں ڈال سکتی ہے اس دھوکے سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم
صراط مستقیم پہ چلیں یہاں اپنی جھو ٹی شان و شوکت کیلئے کتنے کتنے جھوٹ
بولے جاتے ہیں، کیاکیا بیس بنائے جاتے ہیں ۔کئی تنظیمیں بنی ہیں جن کو
چلانے والوں کا کہنا ہوتا ہے کہ اہم غریبوں کیلئے یہ سب کر رہیں ہیں مگر
غریبوں کے حصے چوتھائی بھی نہیں آتا بس سب اپنے بیٹ بھر رہے ہیں اور غریبوں
کا مال کھا کر آخرت میں ذلت و رسوائی کا سامان بنا رہے ہیں یہ سب ہوس ،لالچ
اور فریب ہے یہ سب آخرت میں ذلت و رسوائی کا سامان ہے ابھی بھی وقت ہے توبہ
کیجئے اور اﷲ پاک کے حضور مافی مانگ لیجئے۔آقا جی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی
حدیث پاک کا مفہوم ہے ’’ جو وعدہ وفا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘اگی
صرف اسی ایک حدیث پاک کو سامنے رکھ لیا جائے اور اس پہ خلوص نیت سے عمل
پیرا ہو جائیں تو اس سے سب مسلمان دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے
ہیں۔
|