گلگت(نیوز رپورٹ)جامعہ نصر الاسلام اور الشریعہ اکیڈمی
اسلام آباد کے اشتراک سے گلگت بلتستان کے مفتیان کرام اور علمائے کرام کے
لیے خصوصی تربیتی کورس کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے الشریعہ اکیڈمی اسلام
آباد کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق نے کہا، قرارداد مقاصد نے
طے کیا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ تمام قانون ساز اسمبلیوں نے قرار
داد مقاصد کو بنیادی حیثیت دی۔ قرار داد مقاصد کو 1956,1962اور 1973 کے
دساتیر میں دیباچے اور متن کا حصہ بنایا گیا۔قوانین میں غیر اسلامی دفعات
کو ختم کرنے کے لیے اور پارلیمنٹ کو سفارشات پیش کرنے کے لیے اسلامی
نظریاتی کونسل بنائی گئی اور اس طرح وفاقی شرعی عدالت کو قائم کیا گیا جس
کا مقاصد غیر شرعی قوانین کو کالعدم قرار دینا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ علما کرام اور مفتیان عظام شرعی دلائل کی روشنی
میں غیر اسلامی قوانین کے خاتمے کے لیے حکومت و ریاست کی مدد کریں تاکہ
مملکت خدادا پاکستان سے ہمیشہ کے لیے غیر اسلامی قوانین کا خاتمہ کیا
جاسکے۔ ڈاکٹرمحمد مشتاق نے مزید کہا کہ الشریعہ اکیڈمی ملک بھر کے ججز،
وکلا کرام اور مفتیان کرام کے لیے تربیتی ٹریننگ کا انعقاد کرتا ہے۔ گلگت
بلتستان میں بھی تربیتی کورس کا انعقاد اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بارکونسل
کے ساتھ بھی اسلامی قوانین پر نشست ہورہی ہے اور جامعہ نصر الاسلام میں
تربیتی کورس کا انعقاد بھی بہت ہی بروقت اور ضروری ہے۔
شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے نسٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمدزاہد صدیق مغل
نے کہا کہ تجارت معاملات کواسلامی اصولوں پر تشکیل دینا علما کی ذمہ داری
ہے۔ مفکرین اسلامی معاشیات نے لبرل فریم ورک کو بڑی حد تک غیر اقداری و
فطری فرض کیا،یہی وجہ ہے کہ وہ اس کی ادارتی صف بندی کو فطری تصور کرکے اسے
اسلامائز کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا انیسویں صدی میں انگریز کی آمد کے بعد
مسلمانوں کے تین عمومی رد عمل ہوئے،روایت پسند طبقہ اور مغرب سے سہو نظر
کرنے کا منہج،اسلامی علمیت کے تحفظ کے لئے مدارس کا قیام،انفرادی و معاشرتی
اصلاح کے لئے اصلاحی تحریکات کا فروغ اور ساتھ ہی ریاستی مباحث سے لاتعلقی
ہوئی۔مغرب کو بطور تہذیب و علمیت پہچاننے سے سہور نظر،یہی وجہ ہے کہ اس
طبقے اور جدید معاشرے میں وقت کے ساتھ خلیج بڑھتی گئی۔اور رویہ تھاتجدد
پسندانہ رویہ کہلایا گیا اس میں اسلامی تاریخ کا رد اور اسلام کی تعبیر
نو،اسلام کو مغربیانے کی تحریک،مفروضہ: اسلام کے زوال کی وجہ مادی ترقی میں
پیچھے رہ جانا ہے،لہذا ضروری ہے کہ اسلام کی ایسی تعبیر کی جائے جو ترقی کے
تقاضوں سے ہم آھنگ ہو۔بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، چئیرمین
شعبہ تربیت، شریعہ اکیڈمی کے ڈاکٹر حبیب الرحما نی مسلم فیملی لاز آرڈیننس
پر گفتگو کرتے ہوئے کہاآرڈیننس کے احکامات کسی قانون، رسم یا رواج کے
باوجود موثر ہوں گے اورمسلمانوں کی شادیوں کا اندراج صرف ان ہی احکامات کے
مطابق کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور
فیڈرل شریعت کورٹ دونوں نے یتیم پوتے اور پوتی کے لیئے وصیت کو لازم قرار
دینے کی تجویز دی ہے۔اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عطا اللہ
وٹو نے کہا کہ آئین پاکستان شہریوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔اور تحفظ بھی
کرتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کا فوجداری نظام، اسلامی فوجداری قوانین
اورمصالحت اور مقدمہ بازی میں فرق اور اس کے فوائد و نقصانات پر مفصل گفتگو
کی۔ تربیتی کورس کے فوکل پرسن امیرجان حقانی نے الشریعہ اکیڈمی کے مہمانوں
کو گلگت بلتستان میں خوش آمدید کہا۔ اپنے تمہیدتربیتی کورس کو وقت کی بڑی
ضرورت قرار دیا اور آئندہ بھی اس طرح کے ورکشاپس اور تربیتی کورس کرانے پر
زور دیا۔
|